فلسطینی نژاد ایڈورڈ سعید نے ” ثقافت اور سماج” (Culture and Imperialism ) میں لکھا ہے کہ “حال کی تفسیریں پیش کرنے میں ماضی سے رجوع عام ترین حکمت عملی رہی ہے۔” اب آپ ایک لمحے کےلیے آنکھیں بند کرکے بادشاہت کی تاریخ پہ نظر ڈالیں ۔ تو استبدادیت کی کہانی شمسِ نیم روز کی طرح عیاں ہو جائے گی ۔ آئیے اس کہانی کو مل کر دیکھتے ہیں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ کچھ مسخرین ( میم کو مضموم اور را کو مشدد بھی پڑھ سکتے ہیں ) ایک ملک پر قبضہ کرتے ہیں اور ان کا مقصد شہریوں کےلیے ترقی کی راہیں کھولنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے لیے ایک جنتِ ارضی تعمیر کرتے ہیں ، سارے کو اس جنت کی تعمیر میں صرف کر ڈالتے ہیں اور عوام کالانعام کو انتشار ، ظلم ، بھوک کے ایندھن سے بننے والی ایک بے کنار مایوسی کی جہنم میں جھونک دیتے ہیں۔ پھر اس جنّتِ ارضی کے ارد گرد ایک دھند پھیلائی جاتی ہے کہ جہنم ارضی کے باسی کہیں دور سے بھی ان کی شدادی جنت کا نظارہ نہ کرسکیں اور سورج کی سمت آمریت کے چنیدہ حواری مسلسل دھند کا جال بنتے رہتے ہیں اور اس حربے سے قوم کے وسائل کو مسخر کرنے کےلیے سیاہ کو سفید اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔
لیکن تقدیر کو ایک روز ارضی جہنم کے باسیوں پہ رحم آتا ہے اوروہ بنیوں کے ساتھ عجیب کھلواڑ کرتی ہے کہ سورج کی سمتِ طلوع تبدیل کر دیتی ہے اور یوں جنت ارضی اور اس کی تزئین و آرائش کے خفیہ راستوں پر قوم کی نظر پڑ جاتی ہے اور وہ مسحور ہو جاتے ہیں یوں کہ جیسے خواب دیکھ رہے ہوں ۔
اب مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ شیطانی جنت کے محافظوں کےلیے اتنی جلدی نئے سورج کے آگے جال بُننا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
جنتِ ارضی کے یہ محافظ جہنمیوں کے ساکت بتوں کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور آقائے جنتِ ارضی کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ مجلس میں سب آقائے جنتِ ارضی کو ” صاحب” کے نام سے جانتے ہیں۔
صاحب کی مجلس شوریٰ میں ایک ہیبت زدہ حواری اٹھ کر تقدیر کی ستم ظریفی کا رونا رونے لگتا ہے کہ صاحب اسے حاکمانہ یا پدرانہ شفقت کے لہجے میں خاموش رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہتے ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو ؟
اتنے میں دوسرا حواری اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ذرا خوشامدانہ بلکہ چابلوسانہ انداز کے سے خطیبانہ لہجے میں کہتا ہے
اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کیا ہر پردگی کو آشکار
یہ کہتے ہوئے اس کی آواز رندھ جاتی ہے اور گلے میں اٹکی ہوئی آواز ایسے نکالتا ہے جیسے اندر سے کوئی مکروہ شے بر آمد کررہا ہوں کہ
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
صاحب جو خود کو مختار کل سمجھتے ہیں اور چاہتے کہ ہیں ان کے خیال عالی پر اترنے والی ہر پھلجھڑی کو حکمِ خداوندی سمجھا جائے وہ نشے میں دھند جھوم جھوم کر گانے لگتے ہیں
ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو
چار یا چھے دفعہ اس کا ورد کرنے کے بعد ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔جنت ارضی کا یہ شداد چنھگاڑتا ہے جیسے ہنہنا رہا ہو :
کیا امامان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
اور وہ جھوٹ نہیں بولتا بلکہ اس کی ایک “ھو” سے سب جیسے دیوانے ہو جاتے ہیں، کسی کو کچھ ہوش نہیں رہتا نہ کوئی خفیہ راستوں کو دیکھتا ہے اور نہ سیم و زر سے بنی شدادی جنت کے محلات کو ۔ سب کی زبان پہ قدرے اجنبی لیکن مانوس سا منتر یعنی ” ھو” جاری ہو جاتا ہے ۔
اب پھر صاحب مکارانہ مسکراہٹ کے ساتھ حواریوں سے پوچھتا ہے
روشنی سے ڈرتے ہو !!
تمام حواری جواب دینے کے بجائے خاموشی سے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور آقائے جنتِ ارضی سب کو ان کے قد کے مطابق جنتی میوہ جات سے نوازتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ وہ نیا جال بُن کر مجھے خبر دار کر دیں کہ میں جہنمیوں کو اپنی شیطانی “ھو” سے دوسرے جنوں میں منتقل کر دوں گا کہ “جو باشعور بھی ہے۔ ”
پس نوشت : صاحب کی پھونک سے جو جنوں وائرس کی سی تیزی سے پھیلتا ہے ۔ اسے حساس مذہبی ایشوز بھی کہتے ہیں ۔
کمنت کیجے