ایڈووکیٹ محمد ذوالقرنین
فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :
مبارک احمد ثانی نامی ایک ملزم کے خلاف ضلع چنیوٹ کے مقامی تھانے میں مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ دو سو پچانوے-بی ، دو سو اٹھانوے-سی اور پنجاب کے اشاعت قرآن ایکٹ کے دفعہ سات اور نو کے تحت چھ دسمبر دو ہزار بائیس کو اس وجہ سے ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے کہ ملزم پر یہ الزام تھا کہ وہ قادیانی مذہب کی مشہور تفسیر ” تفسیر صغیر ” کی تقسیم میں ملوث ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ملزم پر بنیادی طور پر تین الزامات تھے جو کہ ذیل ہیں :
الف ) پنجاب قرآن ( پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ) ایکٹ دو ہزار دس کے دفعہ سات اور نو کے تحت تفسیر صغیر کی تقسیم کا الزام۔
ب ) مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ دو سو پچانوے-بی کے تحت توہین قرآن کا الزام۔
ج ) مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ دو سو اٹھانوے-سی کے تحت قادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا خود کو مسلمان ظاہر کرنے کا الزام۔
مندرجہ بالا الزامات کے تحت چھ دسمبر دو ہزار بائیس کو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد بالآخر ملزم کو سات جنوری دو ہزار تئیس کو گرفتار کر دیا جاتا ہے جس کے بعد بالترتیب دس جون اور ستائیس نومبر کو ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کردی جاتی ہے جس کے بعد اس کیس کی ابتدا سپریم کورٹ میں ہوتی ہے اور سپریم کورٹ میں یہ کیس چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور جسٹس مسرت ہلالی صاحبہ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے سامنے مقرر ہوتا ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
نوٹ :یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے جن میں پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی اور دوسرا معاملہ ملزم پر جو فرد جرم عائد کیا گیا تھا تو اس فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی ابتدا ملزم کے وکیل کی جانب سے دلائل پر ہوا جو کہ زیل ہیں:
ملزم کے وکیل نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ ملزم کے خلاف چھ دسمبر دو ہزار بائیس کو جو ایف آئی آر کاٹی گئی ہے تو اس کے مطابق ملزم نے پر الزام یہ ہے کہ اس نے دو ہزار انیس میں تفسیر صغیر تقسیم کیا ہے جو کہ پنجاب کے اشاعت قرآن قانون کے تحت جرم ہے لیکن یاد رہے کہ ایسی کوئی تفسیر تقسیم کرنے پر پابندی دو ہزار اکیس میں لگی ہے یعنی اگر دو ہزار اکیس کے بعد اگر کوئ ایسی تفسیر تقسیم کرے گا تو وہ پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت جرم کے ضمرے میں آئے گا تو یہاں پر دو مسئلے آئے۔ پہلا تو یہ کہ ملزم پر الزام یہ تھا کہ اس نے تفسیر صغیر دو ہزار انیس میں تقسیم کی ہے تو تب یہ پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت جرم نہیں تھا اور دوسرا یہ کہ فوجداری مقدمات میں مقدمہ بروقت دائر کرنا بہت زیادہ اہمیت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اس کیس میں دو ہزار انیس کے الزام کی بابت ایف آئی آر دو ہزار بائیس کے آخر میں درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس حوالے سے آئین پاکستان کا آرٹیکل بارہ نہایت ہی واضح ہے جو کہ صراحت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی کے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو تو اس لئے چونکہ تفسیر صغیر دو ہزار انیس میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا تو اس لئے پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت ملزم کے خلاف فرد جرم نہیں عائد کیا جا سکتا تھا۔
تفسیر صغیر کی تقسیم کا معاملہ واضح کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے بقیہ دو الزامات یعنی توہین قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرنا تو اس حوالے سے ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں مندرجہ بالا الزامات کے بابت کوئ بات ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ملزم نے ایسا کوئ جرم انجام دیا ہو تو اس وجہ عدالت نے مندرجہ بالا دونوں دفعات فرد جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ کے سامنے چونکہ دو سوالات تھے تو پہلا معاملہ واضح کرنے کے بعد فیصلے میں قرآن مجید کے مندرجہ ذیل آیات کا حوالہ دیا گیا ہے:
الف ) سورة البقرة کی آیت نمبر دو سو چھپن۔
ب ) سورة الرعد کی آیت نمبر چالیس۔
ج ) سورة یونس کی آیت نمبر ننانوے۔
قرآن مجید کے مختلف آیات کا حوالہ دینے کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آئین پاکستان میں مذکور آزادی مذہب کا زکر کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس کے بعد ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری والے قضیے کا رخ کیا ہے جس کا آغاز سپریم کورٹ نے کچھ یوں کیا ہے کہ ملزم پر فرد جرم تو فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ انیس سو بتیس کے دفعہ پانچ کے تحت تو عائد نہیں کی گئ لیکن ایف آئی آر اور چالان کے مندرجات سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملزم نے یہ مندرجہ بالا دفعہ کے تحت جرم کیا ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا چھ مہینے ہے اور ملزم نے پہلے سے ہی تقریباً تیرہ ماہ سے جیل میں ہے تو اس لئے عدالت نے فی الفور ملزم کو پانچ ہزار کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے کے آخر میں نہایت ہی اہم بات لکھی ہے کہ اس طرح کے کیسز کا بنیادی تعلق کسی عام آدمی یا اس کی پراپرٹی کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ہے۔
اس انتہائی اہم کیس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جب ایک الزام اس کے کرنے کے وقت کسی قانون کے تحت جرم نہیں ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کام کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
سپریم کورٹ کا یہ اہم فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے لکھا ہے اور ان کے ساتھ جسٹس مسرت ہلالی نے اتفاق کیا ہے اور یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈووکیٹ ذالقرنین صاحب اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور اور شیخ زید اسلامک سنٹر جامعہ پشاور میں شریعہ اینڈ لاء کے استاد کے حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں
کمنت کیجے