جناب جاوید احمد غامدی نے کلمہ گو کی تکفیر سے متعلق اپنا نقطہ نظر اپنی کتاب ’’مقامات“ میں ’’مسلم اور غیر مسلم“ کے عنوان سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اِس کے بعد اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جو عام طور پر اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھا جاتا ہے یا کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تاویل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان بالکل غلط سمجھتے ہیں، مثلاً امام غزالی اور شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں کا یہ عقیدہ کہ توحید کا منتہاے کمال وحدت الوجود ہے یا محی الدین ابن عربی کا یہ نظریہ کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نبوت کا مقام اور اُس کے کمالات ختم ہو گئے ہیں، بلکہ صرف یہ ہیں کہ اب جو نبی بھی ہو گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا پیرو ہو گا یا اہل تشیع کا یہ نقطۂ نظر کہ مسلمانوں کا حکمران بھی مامور من اللہ ہوتا ہے جسے امام کہا جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس منصب کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تقرر اِسی اصول کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دیا گیا تھا جسے قبول نہیں کیا گیا یا علامہ اقبال جیسے جلیل القدر مفکر کی یہ راے کہ جنت اور دوزخ مقامات نہیں، بلکہ احوال ہیں۔
یہ اور اِس نوعیت کے تمام نظریات و عقائد غلط قرار دیے جا سکتے ہیں، اِنھیں ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔“
بعض ناواقف ناقدین کے ہاں تکفیر کے باب میں جاوید احمد غامدی صاحب کے نقطہ نظر کی یہ تعبیر دیکھنے میں آئی کہ یہ تو ایمانیات میں ریلیٹیو ازم بن جاتا ہے کہ جو بھی اسلام کے نام پر جو کچھ بھی ماننا چاہے، مان سکتا ہے اور وہ کسی بھی قسم کا کفر یا شرک اختیار کرنے کے باوجود اس لیے مسلمان ہی رہے گا کہ وہ اس کو اسلام سمجھتا ہے۔ یہ بدیہی طور پر غامدی صاحب کے نقطہ نظر کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ غامدی صاحب کسی عقیدہ یا عمل کو کفر یا شرک کہنے کو غلط نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے مرتکب کی تکفیر سے اختلاف کرتے ہیں۔
یہ اصولی طور پر ہماری کلامی روایت میں کوئی نیا نقطہ نظر نہیں ہے۔ عقیدہ وعمل کو کفر کہنا، لیکن تاویل کی رعایت دیتے ہوئے یا موانع کا لحاظ کرتے ہوئے، نیز دعوتی مصلحت سے معین شخص یا گروہ کی تکفیر سے اجتناب کرنا علم کلام میں ایک معروف بات ہے۔ قادیانیوں کے حوالے سے بھی بعض اہل علم کا یہی رجحان رہا ہے جن میں مولانا عبد الماجد دریابادیؒ معروف ہیں اور اس مسئلے پر مولانا اشرف علی تھانوی کے ساتھ اپنا مکالمہ انھوں نے اپنی کتاب ’’حکیم الامت: نقوش وتاثرات“ میں نقل کیا ہے۔ یہی رجحان عرب علماء میں بھی رہا ہے اور سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام علامہ مصطفی صبری نے اپنی کتاب ’’موقف العقل والعلم“ میں قادیانیوں کی تکفیر کے باب میں بعض مصری علماء کے تردد پر تفصیلاً کلام کیا ہے۔
قریب کے عرب علماء میں علامہ البانیؒ تو واضح طور پر یہی موقف رکھتے ہیں جو غامدی صاحب کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی گروہ کے عقائد کا کفریہ ہونا بیان کرنا چاہیے، لیکن متعین طور پر فرد کو یا پورے گروہ کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔ اور یہ بات بھی وہ مرزا صاحب کے متبعین میں سے قادیانیوں کے متعلق کہتے ہیں، جبکہ لاہوری گروپ کے اعتقاد پر بھی کفر کا حکم نہیں لگاتے، کیونکہ وہ مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے۔ (دیکھیے جامع تراث العلامۃ الالبانی فی العقیدۃ، ج ۴، ص ۲۸۴ و ج ۵، ص ۶۹۸)یہ موقف ہمارے ہاں ابتداءً مولانا مودودیؒ کا بھی رہا ہے، تاہم آئینی فیصلے کے موقع پر انھوں نے یہ رائے ترک کر کے دونوں گروہوں کی تکفیر کے باب میں جمہور اہل علم کے موقف کی تائید کا طریقہ اختیار کیا۔
اصل میں، مذکورہ کلامی اصول کے ہوتے ہوئے قادیانیوں کی تکفیر پر جمہور علماء کے اصرار کی وجہ عملی دینی مصالح بنے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مصلحت تو قادیانیوں کی دعوتی جارحیت کا سدباب کرنا تھا جس کو مولانا تھانویؒ نے یوں بیان کیا کہ قادیانیوں کو تاویل کی رعایت دینے میں ان کے ساتھ تو شفقت ہے، لیکن عام مسلمانوں کے لیے یہ مہلک ہے، کیونکہ اس رعایت سے فائدہ اٹھا کر قادیانی مسلمانوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔
دوسری اہم مصلحت علامہ اقبال اور مولانا مودودیؒ نے واضح کی ہے کہ دائرہ اسلام کے اندر نئی نبوت پر ایمان کی گنجائش مان لینے سے امت میں نئی نئی نبوتوں کی بنیاد پر فرقہ بندی کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جس میں پھر وحدت اور اجتماعیت کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ امر نظر انداز نہ کیا جانا چاہیے کہ ختم نبوت کا یہ عقیدہ محض ایک اعتقادی مسئلہ نہیں ہے جس میں اختلاف رونما ہونے کے اثرات ونتائج صرف فکر وخیال کی دنیا تک محدود رہ سکتے ہوں، بلکہ یہی وہ واحد بنیاد ہے جس پر مسلمانوں کی پوری قومی عمارت قائم ہے، جس کے بقا پر مسلم ملت کی وحدت اور اس کا استحکام منحصر ہے، اور جس کے متزلزل ہو جانے کے اثرات ونتائج محض ’’مذہب “ کے دائرے تک محدود رہ جانے والے نہیں ہیں بلکہ تمدنی اور سیاسی اور معاشی اور بین الاقوامی ہر حیثیت سے ہمارے لیے سخت مہلک ہیں۔ تاریخ کے دوران میں مسلمانوں کے درمیان عقائد اور أصول اور فروع میں بے شمار اختلافات رونما ہو چکے ہیں اور اب بھی ہوئے جا رہے ہیں جن کے نہایت برے اثرات ہماری اجتماعی زندگی پر مترتب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ مگر شروع سے آج تک جس چیز نے تمام تفرقوں اور اختلافات کے باوجود ہم سب کو ایک ملت بنا رکھا ہے اور جس چیز کی بدولت ہمیشہ قومی خطرات ومصائب کے وقت یا اہم قومی مسائل پیش آنے پر ہمارا متحد ہو کر کام کرنا ممکن ہوا ہے، وہ صرف ایک رسول کی پیروی پر ہمارا متفق ہونا ہے۔ یہ ایک بنیاد بھی اگر متزلزل ہو جائے اور نئے نئے رسولوں کی دعوتیں اٹھ کر ہمیں الگ الگ امتوں میں بانٹنا شروع کر دیں تو پھر کوئی طاقت ہمیں مستقل طور پر پراگندہ ہونے سے نہ بچا سکے گی اور کوئی چیز ایسی باقی نہ رہے گی جو ہم کو کبھی جمع کر سکے۔ اس فتنہ عظیم سے جو لوگ ’’رواداری “ برتنے کا ہمیں مشورہ دے رہے ہیں، وہ صرف یہی نہیں کہ رواداری کے معنی اور اس کے حدود نہیں جانتے، اور صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام سے ناآشنا ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بڑی نیک نیتی مگر بڑی نادانی وبے فکری کے ساتھ مسلم ملت کی قبر کھودنا چاہتے ہیں۔“ (تحقیقاتی عدالت میں میں مولانا مودودی کا تیسرا بیان، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد ۴۲، شمارہ ۳، جون ۱۹۵۴ء، ص ۱۴۱، ۱۴۲)
ہمارے نزدیک اس مسئلے کے دونوں پہلو اہم ہیں اور اہل علم کے لیے کسی ایک پہلو کو ترجیح دینے کی گنجائش موجود ہے۔ البتہ عملی دینی مصالح کے لحاظ سے جمہور اہل علم کا موقف زیادہ وزنی اور درست معلوم ہوتا ہے اور اسی لیے ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔
تاہم غامدی صاحب کے نقطہ نظر سے اس حد تک ہمیں بھی اتفاق ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والے کسی فرد یا گروہ سے یہ حق چھیننا اور اس سے مطالبہ کرنا کہ وہ خود کو مسلمان نہ سمجھے یا نہ کہے، یہ مذہبی جبر کے زمرے میں آتا ہے اور دعوتی مصالح کے بھی خلاف ہے۔ مسلمان امت کسی گروہ کے متعلق یہ فیصلہ یقیناً کر سکتی ہے کہ وہ اسے مسلمان مانتی ہے یا نہیں، لیکن خود اس گروہ کو اس پر مجبور کرنا کہ وہ اسلام کی طرف اپنی نسبت سے دستبردار ہو جائے، غلط اور غیر منطقی بات ہے۔
قانونی طور پر اس گروہ کو صرف اس کا پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی الگ شناخت کو چھپا کر عام مسلمانوں کو التباس میں نہ ڈالے اور ایسے انداز سے اپنے عقائد کا اظہار نہ کرے کہ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں مناسب قانون سازی موجود ہے جس کا انصاف کے ساتھ نفاذ ہونا چاہیے اور اسے مذہبی جبر کی صورت دے کر نہ تو دینی واخلاقی حدود پامال کرنی چاہییں اور نہ ریاست کے لیے مسائل پیدا کرنے چاہییں۔
کمنت کیجے