خرم علی شفیق صاحب ماہر اقبالیات ہیں۔وہ اقبال اکادمی سے بھی وابستہ رہے۔ علامہ اقبال کی سوانح کے حوالے سے انہوں نے پانچ جلدوں پر کام کا منصوبہ بنایا جس کی تین جلدیں شائع ہو گئی مگر اس دوران ان کے ہاں ایک تبدیلی آئی جب انہوں نے محسوس کیا کہ اقبالیات کے اکثر ماخذ نظر ثانی کے محتاج ہیں تو انہوں نے اپنے ہی کام کو بھی اس ہی صورت میں نظر ثانی سے گزارا اور علامہ اقبال کی سوانح کے حوالے سے ایک نئی سیریز شروع کی جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہو گی۔ “اقبال کی منزل” اس سلسلے کی تیسری جلد ہے جو پہلی دو جلدوں سے قبل شائع ہوئی ہے۔ اس میں اقبال کی ۱۹۲۷ سے لیکر ۱۹۴۶ تک کی زندگی کے احوال رقم ہیں۔دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی وفات ۱۹۳۸ میں ہوئی تو اس کتاب کا عرصہ اگلے آٹھ سال تک کیسا پھیل گیا؟ دراصل تخلیق پاکستان کے ساتھ اقبال کا گہرا تعلق ہے تو اس لیے مصنف نے مزید آٹھ سال کا ذکر کیا ہے۔ جب پاکستان کا بننا ٹھہر گیا تو گویا یہ ہی اقبال کی منزل تھی۔ اس ہی کی نسبت سے غالباً خرم صاحب نے کتاب کا یہ نام رکھا اور زمانے کو آگے لے جانے کی بھی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ آٹھ سو صفحات سے زائد اس کتاب کو رائٹ وژن پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اقبال کی پہلی مستند سوانح ہے۔ مستند سے مراد یہ واحد سوانح ہے جس کو لکھتے ہوئے دستاویزی ثبوت کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے قبل جو اقبال کی سوانح لکھی گئیں ان میں کئی زبانی باتیں ہیں جن کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ مصنف نے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے جو زبانی روایات سے مروی ہیں مگر وہ دستاویزات سے میل نہیں کھاتے۔ اس میں ترانہ ہندی ، جاوید منزل کی ملکیت ، آرنلڈ کی وفات پر اقبال کی تعزیت ، گورنمنٹ کالج میں فلسفے کا پروفیسر مقرر ہونا سمیت کچھ واقعات کا ذکر کیا ہے جو کہ دستاویزات سے میل نہیں کھاتے۔ خرم علی شفیق نے اپنی لکھی ہوئی کتابوں کی بھی اس کمزوری کو ذکر کیا ہے کہ اس میں زبانی روایات کو نقل کیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے از خود ہی یہ دوسری سیریز شروع کی۔ جہاں تک مصنف کا دعویٰ واحد مستند سوانح کا ہے تو اس پر میں کوئی رائے نہیں نہیں دے سکتا کیونکہ میں نے اس کتاب سے قبل علامہ اقبال کی کوئی سوانح نہیں پڑھی جو تقابلی جائزہ لے کر مصنف کے دعویٰ کی تصدیق یا تردید کر سکوں اس پر ماہرین اقبال کو اپنی رائے دینی چاہیے مگر بطور ایک عام قاری کہ یہ چیز محسوس کی ہے کہ مصنف نے دستاویزات میں اس وقت کے اخبارات کے علاوہ پہلے لکھی گئیں سوانح حیات سے استفادہ کیا ہے اور محض چند جزوی واقعات کہ کوئی نئی چیز جو پہلے کی سوانح عمریوں میں نہیں پائی جاتی کو ذکر نہیں کیا۔ ایسا نہیں کہ مصنف کی کاوش لاحاصل ہے انہوں نے انتہائی محنت سے اس وقت کے اخبارات اور دیگر دستاویزات کا جائزہ لیا ہے اور ہر واقعے کا دستاویزی ثبوت پیش کیا ہے مگر ہمیں کوئی ایسی بڑی اور اہم بات نہیں ملتی جو پہلے کے سوانح نگاروں نے ذکر نہ کی ہو۔ ہاں کئی جگہ مصنف نے باقی سوانح کی مندرجات پر بہت عمدہ نقد کیا ہے جو کہ بہت اہم ہے جس سے اس کتاب کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے.
خرم صاحب نے اس کتاب کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ان ابواب کی تقسیم اور ان کے نام رکھنے کی وجوہات اور طریقہ کار کیا ہے۔ اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ مثلاً ابواب کے نام ‘معرفت کی وادی’ ‘اجتہاد کا دروازہ’ ‘خدا کا شہر’ ‘مرغدین’ ‘درندوں کی بستی’ ‘جبرائیل کا نشیمن’ ‘اقبال کا گھر’ ‘جنگ کا میدان’ ‘سورج کی سرزمین’ ‘بارگاہ رسالت’ ‘اورنگزیب کی مسجد’ اور ‘منزل مراد’ ہے۔ ان میں سے اورنگزیب کی مسجد والے باب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ کی تدفین بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہوئی اور اس باب میں علامہ کے آخری ایام اور وفات کا ذکر ہے تو یہ نام دیا گیا ہے۔ جبکہ منزل مراد میں علامہ اقبال کی وفات کے بعد والے آٹھ سالوں تخلیق پاکستان میں جو مراحل آئے ان کا ذکر ہے جو کہ فکر اقبال کی منزل مراد تھی تو یہ نام دیا گیا ہے۔ لیکن باقی ابواب کے نام کا سبب معلوم نہیں ہوتا۔ ایسے ہی ہر باب کے اندر مصنف نے نمبرنگ کی ہوئی ہے بطور قاری مجھے اس تقسیم اور نمبرنگ کی سمجھ نہیں آئی۔
میں نے محسوس کیا کہ یہ کتاب خصوصی طور پر ماہرین اقبالیات کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ چونکہ یہ اقبال کی زندگی کے آخری گیارہ سال سے متعلق ہے تو اس کی بہت سی باتیں ایک خصوصی پس منظر رکھتی ہیں جن کو نہ جاننے والا شخص شش و پنج کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ جو ماہرین ہیں ان کے لیے وہ چیز اگر سیاق وسباق کے بغیر بھی سامنے آئے تو وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو یہ کتاب علامہ اقبال کی سوانح حیات ہے مگر اس کے ساتھ یہ کتاب اپنے اندر برصغیر کی تاریخ کی ایک دھائی لیے ہوئے ہے جس میں متعدد واقعات جو لاہور میں ہوئے یا جن کا اقبال کی زندگی سے بلاواسطہ یا بلواسطہ تعلق بنتا ہے وہ مذکور ہیں۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ اقبال نے ان گیارہ سالوں میں متحرک زندگی گزاری جہاں وہ ایک طرف سے مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے تو دوسری طرف کانگریسی قیادت سے بھی ان کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے ملی مسائل میں بھی ان کا کردار ہمیں نظر آتا ہے تو ان کی بطور شاعر مقبولیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور ان کے مجموعہ کلام کی پذیرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ اخبارات میں بھی ان کے خلاف اور حق میں مضامین کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ اقبال اس زمانے میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تو اسمبلی میں ان کی کی گئی گفتگو اور بطور ممبر ادا کی گئی ذمہ داریوں کے احوال بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد علامہ نے یورپ کے اسفار بھی اس عرصے میں کیے، ان کے تشکیل جدید پر دئیے گئے خطبات کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اس کے ساتھ خطبہ آلہ آباد کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اس پر کیا ردعمل آیا اور اس کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اس کے متعلق بھی تفصیلات کتاب میں موجود ہیں۔
خرم صاحب ایک زمانی ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں اس لیے ہمیں واقعات میں بے ربطگی تو محسوس ہوتی ہے لیکن قاری کو ایسے لگتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی حقیقی زندگی کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں ہر نئے دن کے بیتے لمحات کا پچھلے دن کے ساتھ کبھی تسلسل ہوتا ہے اور کبھی ایک ہی چیز میں دنوں کے فاصلے کے بعد صورتحال واضح ہوتی ہے۔ بیان واقعہ کی اس بے ربطگی کی وجہ سے کئی جگہ ہمیں تکرار بھی نظر آتا ہے۔
جیسا کہ پہلے میں نے پہلے ذکر کیا کہ یہ کتاب اقبال کی سوانح کے ساتھ اس زمانے کی ایک تاریخ بھی ہے۔ اس لیے کئی واقعات کے بارے میں جہاں ہمیں معلومات ملتی ہیں تو اقبال کی زندگی اور ان کے ملنے جلنے سے اس وقت کے سماجی حالات کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ کتاب میں ذکر ہر واقعے کا تذکرہ تو ناممکن ہیں ان میں سے چند پر ہی بات کروں گا۔
سب سے پہلے اقبال کی بطور ممبر لیجسلیٹو کونسل کا ذکر ہے۔ علامہ اس وقت اسمبلی میں منتخب ہو کر آئے تھے۔ علامہ تیسرے عام انتخابات کے بعد رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت کونسل میں چار گروہ تھے۔ ہندوؤں کا گروہ جو اپنے آپ نیشنل ریفارم پارٹی کہتا تھا۔ دوسرا گروہ سکھوں کا تھا جو متحد ہو کر کونسل پر چھائے ہوئے تھے۔ تیسرا یونینسٹ پارٹی کا تھا جس میں مسلم اور غیر مسلم شامل تھے ۔ اس کے بانی سر فضل حسین تھے۔ چوتھا گروہ خلافت کمیٹی ، کانگریس اور اکالی سکھوں کے نمائندوں پر مشتمل تھا یہ نیشنلسٹ پارٹی کہلانا تھا۔ علامہ اقبال ان میں سے کسی گروہ میں شامل نہ ہوئے۔ بطور رکن کونسل علامہ کا کردار متحرک نظر آتا ہے وہ لیجسلیٹیو کونسل میں کئی اصلاحات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بیروزگار تعلیم یافتہ اشخاص کو قطعات اراضی دی جائیں تاکہ وہ زراعت کر سکیں۔ اس کے ساتھ حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب کا سالانہ ٹیکس معاف کیا جائے ۔ ایسے ہی اقبال چھوٹے کاشتکاروں کے لیے سہولیات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ چھوٹے کاشتکاروں سے بڑے زمینداروں کے برابر ٹیکس نہ لیا جائے۔ اقبال نے خواتین کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی آواز اٹھائی۔
اس دور میں ایک اہم چیز نظر آتی ہے وہ ہندو مسلم کشیدگی ہے۔ اقبال حالات کو معمول پر لانے کے لیے مسلمانوں کے نمائندہ بن کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس میں ایک دلچسپ بات یہ کہ اس حوالے سے جب مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے تو جماعت احمدیہ کے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ اجلاسوں کے علاوہ اگر مسلمان کہیں جلسہ بھی کرتے ہیں تو جماعت احمدیہ کے لوگ ناصرف اس میں شرکت کرتے ہیں بلکہ ان کے ذمہ داران تقاریر بھی کرتے ہیں۔ایک جلسہ جس میں مرزا بشیر الدین محمود نے مذہب اور سائنس پر تقریر کی اس کی صدارت علامہ کر رہے تھے ۔بلکہ آگے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر جب مسلمانوں کی کمیٹی بنتی ہے تو امیر جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود اس کے سربراہ بنتے ہیں اور تمام مسلمان بشمول علامہ اقبال اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ بعد میں جب مرزا بشیر الدین محمود یہ صدارت چھوڑتے ہیں تو بطور صدر ان کی کاوشوں کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے درمیان گھلی ملی ہوئی ہے۔ ماسوائے کچھ علماء کہ زیادہ تر سیاسی قیادت کو ان کے ساتھ لیکر چلنے میں مسئلہ نہیں تھا۔بلکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ برطانیہ میں ایک جگہ احمدی عبادت گاہ تعمیر ہوتی ہے تو اقبال وہاں بھی جاتے ہیں ۔ایسا نہیں کہ علامہ اقبال جماعت احمدیہ کو اہل اسلام کا حصہ سمجھتے تھے لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ مصلحت کے پیشِ نظر ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ بلکہ جب لاہور میں جب ہندو مسلم کشیدگی ہوئی تو احمدی اخبارات نے ہندوؤں کے خلاف بہت جارحانہ زبان استعمال کی جس پر بعد میں ان کو مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا تو ایک مقدمے میں علامہ ان کے وکیل بھی بنے۔ لیکن بتدریج علامہ اقبال کی رائے ان کے بارے میں بدلتی گئی اور بعد میں ملی تحریکوں میں بھی ان کی شمولیت کے حق میں نہیں تھے۔ جماعت احمدیہ جو کہ ختم نبوت جیسے بنیادی اسلامی عقیدے میں تمام امت مسلمہ سے الگ ہے کے بارے میں جواہر لعل نہرو کی علامہ اقبال سے مراسلت بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ جس میں علامہ نے نہرو کے خدشات کا جواب دیا اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کا رویہ جماعت احمدیہ کے حوالے سے کیا مختلف ہے۔ بعد میں نہرو نے بھی وضاحت کی ان کے سوالات مسئلہ کو سمجھنے کے لیے تھا ناکہ احمدیوں کی حمایت کے لیے کیونکہ وہ کسی ایسے مذہبی گروہ جو کہ برطانوی استعمار کا دست راست ہے کے حامی نہیں۔دراصل نہرو سمجھنا چاہتے تھے کہ قادیانیت کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ غیر معمولی کیوں ہے۔ ان کے اندر پہلے سے فرقہ واریت پائی جاتی ہے تو یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔علامہ کے نکتہ نظر میں بڑی تبدیلی کشمیر کمیٹی کے بارے میں احمدیوں کے طرزِ عمل کو دیکھ کر ہوئی جس میں ان کی فعالیت مسئلہ کشمیر کی بجائے اپنے امیر کی خوشنودی کی وجہ سے تھی۔ یہاں علامہ کو احساس ہوا کہ یہ لوگ مسلم مسائل کے حوالے سے قابل اعتبار نہیں ہیں ان کی وفاداریاں صرف اپنے امیر سے ہیں اور ان کا مسلمانوں کے بارے میں طرزِ عمل بھی کافی مشکوک ہے۔ یہاں سے علامہ نے ان کے بارے میں غور وفکر کیا اور اس بارے میں انہوں نے کئی لوگوں سے براہ راست اور خطوط کے ذریعے بات بھی کی جس سے انہیں اس مسئلہ کی حساسیت کا اندازہ ہوا اور پتہ چلا کہ یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور مسلمانوں میں شامل رہ کر ان میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ اقبال کے آخری پانچ چھے سالوں میں احمدیت کے خلاف کافی مواد کتاب کا حصہ ہے جس میں اس فتنہ کے تدراک کے لیے اقبال کی خدمات کا ایک تعارف سامنے آتا ہے۔
ہندو مسلم کشیدگی کے بارے میں متعدد واقعات کا ذکر ہے جس میں صورتحال کئی دفعہ فسادات کی شکل اختیار کر گئی جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا جانی نقصان ہوا۔ ان میں کانپور میں ہوئے فسادات کافی بھیانک تھے۔ کئی فسادات پر جب غور کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کانگریسی قیادت کا کردار بھی نظر آتا ہے۔۔مثلاً گاندھی جی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، اس حوالے سے مسلمانوں سے مشاورت نہیں کی گئی تو اکثر مسلمان جو کہ کانگریسی قیادت کے ہم نوا نہیں تھے اس تحریک سے لاتعلق رہے تو اس پر ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے ہوئے اور ان کی زبردستی دکانیں بند کروائی گئیں۔ جس کا ردعمل سامنے آیا تو فسادات رونما ہوئے۔ اس کے ساتھ آریہ سماج کے لوگوں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے اوپر لفظی حملے ہوتے رہے۔ پنجاب میں ایک جگہ گائے کے ذبح کرنے پر فسادات پھوٹ پڑے۔ ہمیں متعدد واقعات کا پتہ چلتا ہے جو اس گیارہ سال کے عرصے میں رونما ہوئے۔ ہندو مسلم کشیدگی کو اس کتاب میں اور علامہ کی زندگی میں ایک اور پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مسلم شناخت کا تحفظ ہے۔ اس مسلم شناخت کے لیے سیاسی سطح پر مسلم قیادت اور کانگریس کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں۔ جداگانہ انتخابات کا مطالبہ اور پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت حکومت کا قیام اہم مسائل ہیں جن پر لمبے عرصے تک بحث چلتی رہی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بلکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم اکثریت کو نہ تسلیم کرنے پر ہندوؤں کے ساتھ سکھ بھی متفق ہوتے ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں مسلمانوں کی نشستوں کے بارے میں بھی اختلافات ہوتے ہیں اور اس سے بڑھ کر مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر کانگریس کسی صورت بھی مسلم لیگ کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب مسائل ہیں جو چلتے رہتے ہیں اور پھر ان ہی کی بنیاد پر آگے تقسیم ہند کی طرف بات بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یوں ہمیں اس کتاب سے پاکستان کے جواز کی ایک تاریخی سند ملتی ہے کہ مسلم قیادت کو اس جانب کیوں جانا پڑا۔
اس عرصے میں ایک اہم واقعہ راجپال کے قتل کا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ راجپال کا کیس عدالت میں چل رہا تھا۔ مجسٹریٹ نے اس کو ڈیڑھ سال سخت قید اور ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ اس پر انتہا پسند ہندوؤں کی ایک جماعت نے اس کی ضمانت کی کوشش کی، مقدمہ سیشن کورٹ گیا جہاں اس کو ضمانت پر رہائی ملی جس پر مسلمانوں نے موچی دروازے کے پاس احتجاج کیا جس کی صدارت علامہ نے کی۔پھر آگے جا کر راجپال لاہور ہائیکورٹ سے بری ہو گیا۔ کیس کا فیصلہ جسٹس دلیپ سنگھ نے کیا تھا اس کا منفی نتیجہ آیا ، انتہا پسند ہندو مزید جارح ہوئے اور ان کے اخبارات میں کئی ہرزہ سرائیاں ہوئیں۔ مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا حسین احمد مدنی ، مفتی کفایت اللہ دہلوی سمیت کئی لوگوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس فیصلے کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سول نافرمانی کی دھمکی دی گئی ، علامہ کی مداخلت سے اس کو ملتوی کیا گیا۔ علامہ نے کہا کہ اس مشکل کے وقت میں اگر ہم ایک قوم بن جائیں تو اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کئی مسلمان راہنما جو اقبال سے مختلف سیاسی سوچ رکھتے تھے نے بھی کہا ہمیں اس وقت اقبال پر اعتماد ہے۔
راجپال پر اس کے بعد دو حملے ہوئے جس میں وہ بچ نکلا۔ پہلا حملہ تیس سالہ خدا بخش اکوجہا نے کیا۔ اکوجہا کو اس پر سات سال قید بامشقت اور پندرہ ہزار روپے جرمانہ ہوا۔ دوسرا حملہ ایک افغان جس کا نام عبدالعزیز تھا نے کیا۔ اس کو بھی اکوجہا کی طرح سات سال قید اور پندرہ ہزار جرمانہ کی سزا سنائی گئی ۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ دونوں حملے پندرہ روز کے وقفے سے ہوئے ۔ اس کے بعد تیسرا حملہ انیس سالہ نوجوان علم الدین نے کیا جس میں راجپال مر گیا۔ علم الدین کو ہجوم جو کہ ہندوؤں کا تھا نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ راجپال کے قتل پر آریہ سماج ہندوؤں نے احتجاج کیا۔ اس کی آخری رسومات میں بڑی تعداد میں ہندوؤں نے شرکت کی۔ اس کے قتل پر ہندؤ تنظیموں کے ساتھ کانگریسی رہنماؤں نے بھی مذمت کی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس کو قاتل کا ذاتی فعل قرار دیا ، مولانا عبدالمجید سالک نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر توہین رسالت کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ مولانا عبد القادر قصوری نے قتل کی مذمّت کی اور کہا کہ توہین مذہب کے بارے میں قانون سازی کے بعد متنازعہ کتاب کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ دوسری جانب علم الدین نے صحت جرم ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ انہوں نے راجپال کو نہیں مارا بعد میں مقدمہ چلا تو ثابت ہوا کہ قتل غازی علم الدین نے کیا۔ سیشن کورٹ سے سزا ہوئی تو ہائیکورٹ میں اپیل ہوئی جس میں جناح علم الدین صاحب کے وکیل تھے۔ ان کے بنیادی دلائل دو چیزوں پر تھے ایک یہ کہ یہ قتل شدید اشتعال کی صورت میں ہوا اور دوسرا ملزم کم عمر ہے۔ جناح کے دلائل تو کافی جاندار تھے حتی کہ کئی ماہرین قانون کے مطابق سزا لمبے عرصے قید کی ہو سکتی تھی مگر ہائیکورٹ نے پھانسی کا حکم برقرار رکھا۔ بعد میں میانوالی میں غازی علم الدین کو پھانسی ہوئی ۔ ان کی لاش لاہور منتقل کرنے کے علامہ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور حکومت کو یقین دہانی کی کرائی کہ نقص امن کی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔ یہ بہت بڑا جنازہ تھا جس میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی شرکت کی، نماز جنازہ کے لیے پہلے مفتی دیدار علی شاہ الوری جو مسجد وزیر خان کے امام تھے کا نام سامنے آیا مگر وہ موجود نہیں تھے تو مولانا شمس الدین نے نماز جنازہ پڑھائی۔
غازی علم الدین کی پھانسی پر ان کی والدہ کا ردعمل بہت جرات مندانہ تھا اور انہوں نے کہا کہ میرے سات بیٹے بھی ہوتے تو میں ان کو ناموسِ رسالت کے لیے قربان کر دیتی۔ اس بارے میں علامہ اقبال سے منسوب ترکھانوں کے منڈے والی بات کا خرم صاحب نے جائزہ لیا کہ یہ بات اقبال نے کب کہی ، کیونکہ پھانسی سے قبل تو غازی علم الدین کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوششیں ہوئیں جبکہ پھانسی پر امن و امان کی ذمہ داری اقبال نے اٹھائی تو وہ کیسے یہ بات کر سکتے تھے۔۔ممکن ہے کہ یہ بات اقبال نے پھانسی کے سال بعد کہی ہو۔ اس کیس کے حوالے سے بہت سی معلومات کتاب میں شامل ہیں اور اس پر کچھ اور حقائق سامنے آتے ہیں جن سے ہماری اکثریت ناواقف ہے۔
توہین رسالت کا ایک اور معاملے راجپال کے واقعے کے پانچ سال بعد ہوا جب کراچی میں مہاراج نتھورام کو عبد القیوم نے قتل کیا۔ غازی عبد القیوم کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی جس کے بعد شہر میں فسادات ہوئے اور کئی مسلمان شہید ہوئے۔ غازی عبد القیوم کے بارے میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی رحم کی اپیل کی جو مسترد ہو گئی۔
جب غازی علم الدین والا واقعہ ہوا اس وقت بھگت سنگھ والا واقعہ بھی ہوا۔ اس کیس کے بارے میں چند ضروری باتیں کتاب کا حصہ بھی ہیں۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا گرفتار ہونا پھر بھگت سنگھ کا بھوک ہڑتال کرنا، جس سے اس کا ایک ساتھی جیل میں دم توڑ دیتا ہے۔ بعد میں کانگریسی قیادت کی کوشش سے بھگت سنگھ نے دو ماہ سے جاری بھوک ہڑتال ختم کی۔ بھگت سنگھ کے مقدمے کے کے لیے حکومت انگلشیہ آرڈننس جاری کیا جس کی روشنی میں خصوصی ٹریبونل قائم ہوا جس نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو سزا دی۔ تین رکنی ججوں میں جسٹس سر عبد القادر بھی شامل تھے جنہوں نے ۱۹۱۱ میں اقبال کا ترانہ ہندی شائع کی تھی۔ اقبال اس ٹریبونل کو غیر قانونی سمجھتے تھے۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد اس کے چاہنے والوں نے کراچی میں کانگریسی رہنماؤں کے خلاف احتجاج کیا اور ان کو بھگت سنگھ کا قاتل کہا۔ چونکہ بھگت سنگھ کے واقعے کا اقبال سے براہ راست تعلق نہیں اس لیے کتاب میں اس بارے میں اس طرح کی تفصیلات نہیں ملتیں جو راجپال والے کیس کی ملتی ہیں۔ لیکن یہ اس عہد کا ایک اہم واقعہ تھا اور پنجاب میں پیش آیا تو اس کا ذکر ضروری تھا. مصنف نے بتایا ہے کہ جب بھگت سنگھ کو ٹریبونل کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے بسمل عظیم آبادی کی نظم کے اشعار پڑھے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
جناح اور اقبال کے مابین تعلق اور وقت کے ساتھ اس کا مضبوط سے مضبوط تر ہونے کا بھی اس کتاب سے پتہ چلتا ہے۔ یہ اس عہد سے متعلق ہے کہ جب مسلم لیگ دو حصوں شفیع لیگ اور جناح لیگ میں تقسیم ہو گئی۔جناح لیگ کو کلکتہ گروپ جبکہ شفیع لیگ کو لاہور گروپ کہا جاتا تھا۔ اقبال شفیع لیگ میں تھے۔ اس وقت سائمن کمیشن ہندوستان آیا جس کا جناح نے بائیکاٹ کیا مگر شفیع لیگ کا اس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ چلا مگر بعد کے نتائج نے ثابت کیا کہ جناح اس بارے میں درست ثابت ہوئے۔ بعد میں ان مسلم لیگیوں کا ایک ہونا اور پھر جناح اور اقبال کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہونا جو بتدریج بڑھتی چلی گئی حتی کہ اقبال کی امیدوں کے محور بھی جناح بن گئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں قائدین پہلے ہندو مسلم اتحاد کے شدید حامی تھے مگر کانگریس کی قیادت کی جانب سے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے بارے میں غیر سنجیدگی نے ان دونوں کی سوچ میں تبدیلی لائی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ ایک اہم مسئلہ تھا جس کو کانگریس نے سنجیدگی سے نہیں دیکھا حتی کہ ۳۷ کے انتخابات میں جیتنے کے باوجود جواہر لعل نہرو نے اس کا اعتراف بھی کیا۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے ان کو حصہ دینے پر راضی نظر آتی ہیں نہ ہی جداگانہ انتخابات کو قبول کرتی ہے۔ جناح اور اقبال دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مغربی جمہوریت کا نظام جو کہ کانگریس کی خواہش تھی برصغیر میں من و عن قابل عمل نہیں، پہلے اس کے لیے اقلیت کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔ جس میں ان کی نشستوں میں ان کو زیادہ سے زیادہ حصہ ملے۔
اقبال کے انتقال کے بعد جناح نے متعدد جگہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا اور پاکستان کو اقبال کی منزل کہا۔ ان کے کلام کی تعریف کی اور مسلم بیداری کے حوالے سے اقبال کے کردار کی تعریف کی۔
جہاں تک کانگریسی قیادت کا تعلق ہے تو اقبال کے جواہر لعل نہرو سے تعلقات میں ہمیں کوئی تلخی نظر نہیں آتی۔ بلکہ ان دونوں کے مابین مراسلت بھی ہوئی اور اقبال کے انتقال سے تین ماہ پہلے نہرو اقبال سے ملنے لاہور بھی آئے۔ جبکہ دوسری جانب اقبال گاندھی کے حوالے سے شاکی نظر آتے ہیں۔ کئی جگہ وہ گاندھی کی مبہم پوزیشن پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی پر ان کا اعتماد کم ہے۔ گاندھی نے ایک دو جگہ ذاتی حیثیت میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی ذمہ داری لی مگر اقبال تب تک اس پر راضی نہ ہوئے جب تک کانگریس کی مجلس عاملہ اس پر یقین دہانی نہ کرائے کیونکہ گاندھی جی کئی دفعہ اپنی ذاتی یقین دہانیاں کرانے کے بعد یہ عذر پیش کر چکے تھے کہ کانگریس کی مجلس عاملہ اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ مصنف نے اقبال کے انتقال پر اظہار افسوس کرنے والے لوگوں کی جو فہرست دی ہے اس میں نہرو کا نام تو ہے مگر گاندھی کا نام نہیں لکھا ہوا۔
اقبال نے فکر اسلامی کے اوپر خطبات بھی اس ہی زمانے میں دئیے۔ اس کے علاوہ بھی کئی جگہ انہوں نے خطبات دئیے جن میں مسلم ثقافت اور اجتہاد پر خصوصی گفتگو کی، ثقافت اسلامیہ اور اجتہاد پر مفصل گفتگو یوں تو انہوں نے اپنے خطبات میں کی ہے۔ لیکن ان خیالات کا اظہار انہوں نے اور بھی کئی جگہ کیا۔ اقبال اپنے خطبات کے اردو ترجمہ کے بارے میں کئی دفعہ سید نذیر نیازی سے پوچھتے ہیں اور نیازی صاحب بتاتے ہیں کہ کام چل رہا ہے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ اقبال کی زندگی میں خطبات کا ترجمہ نہیں ہو سکا ، اگر یہ ترجمہ ہو جاتے اور اقبال کی نظر سے گزر جاتے تو پھر ان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔ ممکن تھا کہ ترجمہ میں بھی کچھ پیش رفت ہوتی۔ سید نذیر نیازی صاحب کا ترجمہ خطبات انتہائی مشکل ہے کہ کئی اہل علم کے لیے سمجھنا اس کو مشکل ہے۔ اس کے بعد اس کے مزید تراجم ہوئے جن میں ڈاکٹر وحید عشرت صاحب کا ترجمہ زیادہ سہل ہے۔ لیکن اگر یہ ترجمہ اقبال کی زندگی میں ہو جاتا اور وہ ان کو دیکھ لیتے تو اس میں بہت سی باتوں کی وضاحت ان کی اپنی طرف سے ہو جاتی۔
اقبال کے بارے میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ وہ اپنی کتابیں کسی کو نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ نذیر نیازی صاحب نے ان سے کتاب الطواسین لی تو وقت پر واپس نہ کرنے پر نیازی کو بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ کی ، جس کے بعد نیازی صاحب نے کتاب واپس کی۔
خطبہ آلہ آباد بھی اس ہی عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ جب یہ خطبہ دیا گیا تو ہندؤ اور مسلم قوم پرستوں نے اس پر بہت برا منایا۔ اس خطبہ میں اقبال نے شمالی ہندوستان میں مسلم ریاست کی بات کی، لیکن بعد میں اقبال نے وضاحت کی کہ ان کی مراد مسلم صوبہ تھا ان کی مراد علیحدہ وفاق یعنی تقسیم ہند ہرگز نہیں۔ اقبال نے کئی لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کی، حتی کہ جب اس خطبہ پر چوہدری رحمت علی نے پاکستان کا منصوبہ پیش کیا تو اقبال متفق نہ ہوئے، جس پر چوہدری رحمت علی نے پمفلٹ لکھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اقبال کی رائے تبدیل ہوئی اور انہوں نے ایک علیحدہ وفاق پر مشتمل شمالی ہندوستان کی بات کی۔ جب قرار داد لاہور پیش ہوئی تو وہاں اقبال کی اس سوچ کا ذکر ہوا کہ انہوں نے اس خاکہ دس سال قبل پیش کیا۔ اس پر جواہر لعل نہرو نے کہا کہ اقبال کبھی بھی تقسیم کے حامی نہیں تھے۔ اس پر خرم صاحب نے لکھا ہے کہ اگر نہرو کی یہ بات درست ہوتی تو وہ دو سال خاموش کیوں رہے ، اقبال سے آخری ملاقات کے بعد انہوں نے اقبال کی زندگی میں ایسی بات نہیں کی۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ نہرو کی بات درست نہیں ہے۔
اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں ان کا مولانا حسین احمد مدنی سے مسئلہ قومیت پر اختلاف ہوا جس پر اقبال نے اشعار بھی کہے۔ خرم علی شفیق کہتے ہیں کہ بعد میں جب مولانا مدنی نے اپنی بات کی وضاحت کی تو اقبال نے کہا کہ اب میرا اختلاف نہیں رہا۔
اقبال جہاں برصغیر کے سیاسی حالات سے خصوصی دلچسپی رکھتے تو اس کے ساتھ ان کا افغانستان کی صورتحال سے بھی تعلق رہا۔ جب وہاں امان اللہ خان کی حکومت کا تختہ الٹ کر بچہ سقا کی حکومت قائم ہوئی تو اقبال نے اس کے خلاف نادر شاہ جو کہ امان اللہ کے خاندان سے تھے کی مالی امداد کی اور باقی مسلمانوں سے بھی اس کی اپیل کی، جب نادر شاہ کی فوجوں نے بچہ سقا کو شکست دی تو حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ نادر شاہ کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ بعد میں مولانا سید سلیمان ندوی کے ساتھ اقبال نے افغانستان کا دورہ بھی کیا۔ وہاں کی سادگی نے ان کو خصوصی متاثر کیا بالخصوص وہاں حکمران اور عوام کے درمیان تعلق کو انہوں نے سراہا۔ انہوں نے ایک مشاہدہ کیا کہ مسجد میں حاکم کی آمد پر لوگوں نے اس کا اتنا نوٹس نہیں لیا اور وہ عوام کے درمیان بیٹھا۔ افغانستان میں تعلیم کی ضرورت پر اقبال نے بعد میں زور دیا اور کہا کہ مسلم عوام کو وہاں یونیورسٹی کے قیام کے لیے مالی امداد کرنی چاہیے۔
اقبال اسلام پر مستشرقین کی لکھی ہوئی کتابوں کا دلچسپی کا مطالعہ کرتے تھے۔ تو اس کے ساتھ ہی مسلم صوفیاء اور متکلمین کی کتابیں ان کی خصوصی توجہ کا مرکز تھیں بالخصوص مسئلہ زمان و مکان کے حوالے سے کئی صوفیاء کے افکار کو وہ خاص اہمیت دیتے تھے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی فکر کے بارے میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو خط بھی لکھا۔ اس کے علاوہ سید سلیمان ندوی سے مختلف موضوعات پر خطوط لکھے۔
اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں اقبال دو کتابیں لکھنے کے خواہشمند تھے ایک قرآن مجید کے مطالعہ اور اس کے نوٹس پر جبکہ دوسری اسلام کے تعارف جس میں جدید فقہی احکام کو بھی شامل رکھنا تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آخری چھے ماہ میں ان کتابوں کا ذکر کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ کافی فکر مند ہوتے ہیں کہ ان کو لکھنا ضروری ہے تاکہ یورپ میں بھی اسلام کا تعارف پیش کیا جائے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں کام مکمل نہیں ہو سکے۔ اس کے علاوہ اقبال کی ایک اور خواہش حج اور مدینہ منورہ حاضری کی تھی وہ بھی ادھوری رہی۔
کتاب میں اور بھی چھوٹے بڑے موضوعات ہیں جن پر مزید بات ہو سکتی ہے۔ بالخصوص اقبال کی ذاتی زندگی ان کا منیرہ اور جاوید سے تعلق ، اس کے ساتھ سردار بیگم سے تعلق اور ان کی وفات کا اقبال پر اثر، خرم صاحب نے ان کے اوپر بھی معلومات فراہم کی ہیں پھر جاوید منزل کی ملکیت اور اقبال کی جائیداد کے حوالے سے آفتاب اقبال کے مثبت کردار کا ذکر بھی کیا ہے۔
تحریک پاکستان اور پھر جناح کا قائد اعظم بننے کا سفر، اقبال کی علمی زندگی سمیت بہت سے اور پہلو اس کتاب میں شامل ہیں جن پر مفصل گفتگو کی گنجائش ہے۔
خرم علی شفیق کا کام قابل تحسین ہے اور بالخصوص جو انہوں نے اس وقت کے اخبارات کے ذریعے واقعات کو دستاویزی ثبوت کے طور پر قلمبند کیا ہے۔ اس سے اقبال کی زندگی کے ساتھ اس وقت کے حالات کی جانکاری بھی حاصل ہوتی ہے اور تقسیم ہند جیسے بڑے واقعے کے محرکات اور اس کا تاریخی پس منظر بھی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ امید ہے کہ خرم صاحب کی اس سیریز کی باقی دو کتابیں بھی اپنے اندر معلومات کا خزانہ لیے ہوئے ہوں گی
کمنت کیجے