Home » شیخ ابن عربی اور قدم عالم بصورت “حوادث لا اول لھا”
اسلامی فکری روایت زبان وادب شخصیات وافکار فلسفہ کلام

شیخ ابن عربی اور قدم عالم بصورت “حوادث لا اول لھا”

اس تحریر میں ہم اس موضوع پر شیخ ابن عربی (م 638 ھ) کی چند عبارات پیش کریں گے کہ شیخ اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ اس عالم اکوان میں اشیاء ازل سے یکے بعد دیگرے ظاہر ہورہی ہیں، یعنی اس بات کی نفی کہ سلسلہ حوادث کا کوئی آغاز نہیں۔ ان عبارات میں سے بعض “حوادث لا اول لھا” کے اس تصور کی نفی پر بالکل صریح ہیں اور بعض کی دلالت ضمنی ہے، تاہم مجموعی طور پر مل کر یہ بات واضح کردیتی ہیں۔ چونکہ شیخ کے نظام فکر سے اکثر و بیشتر مناسبت نہیں ہوتی لہذا عبارت کی تفہیم آسان کرنے کے لئے کچھ ضروری پس منظر مباحث کی طرف اشارہ کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

• پہلا اقتباس

کتاب “الفتوحات المکیۃ” کی ابتدا میں شیخ نے اپنے عقائد ذکر کئے ہیں۔ سب سے پہلے آپ متکلمین کے طرز پر اور پھر بعض صوفی روایات کی طرز پر انہیں لائے ہیں۔ چنانچہ آپ لکھتےہیں:

يتضمن ما ينبغي أن يعتقد في العموم وهي عقيدة أهل الإسلام مسلمة من غير نظر إلى دليل ولا إلى برهان ۔۔۔ فيا إخوتي ويا أحبائي رضي الله عنكم أشهدكم عبد ضعيف مسكين فقير إلى الله تعالى في كل لحظة وطرفة وهو مؤلف هذا الكتاب ومنشئه أشهدكم على نفسه بعد أن أشهد ۔۔۔ إن الله تعالى إله واحد لا ثاني له في ألوهيته منزه عن الصاحبة والولد مالك لا شريك له ملك لا وزير له صانع لا مدبر معه موجود بذاته من غير افتقار إلى موجد يوجده بل كل موجود سواه مفتقر إليه تعالى في وجوده فالعالم كله موجود به وهو وحده متصف بالوجود لنفسه لا افتتاح لوجوده ولا نهاية لبقائه بل وجود مطلق غير مقيد قائم بنفسه ليس بجوهر متحيز فيقدر له المكان ولا بعرض فيستحيل عليه البقاء ولا بجسم فتكون له الجهة والتلقاء مقدس عن الجهات والأقطار ۔۔۔ ليس له مثل معقول ولا دلت عليه العقول لا يحده زمان ولا يقله مكان بل كان ولا مكان وهو على ما عليه كان خلق المتمكن والمكان وأنشأ الزمان ۔۔۔ أبدع العالم كله على غير مثال سبق ۔۔۔ علم الأشياء منها قبل وجودها ثم أوجدها على حد ما علمها ۔۔۔ والعالم معدوم غير موجود وإن كان ثابتا في العلم في عينه ثم أوجد العالم من غير تفكر ولا تدبر عن جهل أو عدم علم

مفہوم: “اس فصل میں ان عمومی عقائد کا بیان ہے جو دلیل و برھان (کی ضرورت) کے بغیر اھل اسلام کے مسلمہ عقائد ہیں ۔۔۔ میرے پیارے بھائیو، الله تم سے راضی ہو، اس کتاب کا مصنف جو ایک کمزور، مسکین اور الله کا عاجز بندہ ہے وہ ہر لمحے تمہیں، اپنے رب کو، اس کے فرشتوں کو، حاضرین اور سب سننے والوں کو اپنے اوپر گواہ بناتا ہوئے یہ گواھی دیتا ہے کہ ۔۔۔ الله ایک ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، وہ بیوی اور بیٹے سے پاک ہے، وہ مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ ہے اس کا کوئی وزیر نہیں، وہ صانع ہے اس کے ساتھ تدبیر کرنے میں کوئی شامل نہیں، وہ از خود کسی موجود کرنے والے کی ضرورت کے بغیر موجود ہے، اس کے سو ہر موجود ہونے میں اس کا محتاج ہے اور یہ سارا عالم اسی کے ذریعے موجود ہے، وہ اکیلا اپنے وجود کے ساتھ متصف ہے، اس کے وجود کی کوئی ابتدا نہیں اور اس کے بقا کی کوئی انتہا نہیں، وہ غیر مقید وجود مطلق ہے اور اپنی ذات میں قائم ہے، نہ وہ جوھر کی طرح متحیز ہے کہ جس کے لئے مکان فرض کیا جاسکے اور نہ عرض ہے کہ اس کا باقی رہنا محال ہو اور نہ جسم ہے جس کے لئے اطراف متعین کی جاسکیں کہ وہ جہات و حدوں سے پاک ہے ۔۔۔ نہ اس کی کوئی مثال ہے جو عقل میں آسکے اور نہ عقلیں (اس کی حقیقت) کی طرف اشارہ کرسکتی ہیں، نہ زمانہ اسے محدود کرسکتا ہے اور نہ وہ مکان میں سما سکتا ہے بلکہ وہ تھا جبکہ کوئی مکان نہ تھا، اور جیسا وہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے، مکان اور اس کے باشندے سب اس کی تخلیق ہیں اور اس نے زمانے کو پیدا کیا ۔۔۔ اس نے عالم کو بغیر کسی سابق مثال از سر نوع پیدا کیا ۔۔۔ وہ چیزوں کو پیدا کرنے سے پہلے انہیں جانتا تھا، پھر اس نے انہیں اپنے علم کے مطابق پیدا کیا ۔۔۔ یہ عالم معدوم تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا اگرچہ یہ اپنے اعیان کے لحاظ سے علم الہی میں ثابت تھا، پھر اس نے غور و فکر (کی محتاجی) کے بغیر اسے موجود کیا۔”

یہاں الفاظ “یہ عالم معدوم تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا اگرچہ یہ اپنے اعیان کے لحاظ سے علم الہی میں ثابت تھا، پھر اس نے غور و فکر (کی محتاجی) کے بغیر اسے موجود کیا ” ہمارے مدعا سے متعلق ہیں۔

• دوسرا اقتباس

متکلمین کا کہنا ہے کہ عدم سے تخلیق ذات باری کی خاصیت ہے اور اس بنا پر ان کا کہنا ہے کہ جواہر کی تخلیق الله تعالی سے متعلق ہے (نوٹ: یہاں جوہر سے مراد ہمارے دور میں فزکس میں مراد لیا جانا والا جوہر نہیں)۔ شیخ ایک مقام پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس بنا پر کسی مخلوق کی عبادت کرے کہ اسے خرق عادت کے طور پر ہی سہی جواہر کو تخلیق کرنے کی قدرت حاصل ہے، تو کیا اس دلیل سے وہ عند الله معذور سمجھا جاسکتا ہے؟ آپ کا جواب نفی میں ہے جس کی وجہ آپ یہ بیان کرتے ہیں:

فإن قيل فإن أقدر أحد على جهة خرق العادة على خلق جوهر فعبده أحد لذلك هل يعذر أم لا قلنا لا یعذر فإنه يشهد أنه يقبل الحوادث ولا يخلو عنها وما لا يخلو عن الحوادث يستحيل أن يتقدمها على الجملة وإذا لم يتقدم الحوادث على الجملة كان حادثا مثلها ومن شأن الإله أن يكون أقدم من كل ما يحدث على الجملة فلا بد أن يكون الحادث متأخرا عنه بأي نسبة كان من نسب التأخر فلما فاته هذا القدر من العلم وكان جاهلا به لم يعذر (2 / 612)

مفہوم: “اگر (مخلوقات میں سے) کسی کو خرق عادت کے طور پر جوہر خلق کرنے کی قدرت ہو اور اس بنا پر کوئی اس کی عبادت کرے تو کیا ایسا شخص (عند الله) معذور ہوسکتا ہے یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ معذور نہ ہوگا کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ (یعنی ایسی قدرت کے حامل) کو بھی حوادث لاحق ہو رہے ہیں اور وہ ان سے خالی (یعنی ماوراء) نہیں ہے، اور (یہ اصول ثابت ہے کہ) جو شے حوادث سے خالی نہ ہو اس کا تمام حوادث سے مقدم ہونا محال ہوتا ہے اور جب وہ حوادث کے مجموعے سے ماقبل نہیں ہوسکتا تو لازما ان کی طرح حادث ہی ہوگا، یہ ذات باری ہی کی شان ہے کہ وہ جمیع حوادث سے مقدم (و ماوراء) ہے، پس تم تاخر کے جس بھی تصور یا نسبت سے دیکھو گے یہ بات لازم ہے کہ حادث (قدیم سے) متاخر ہوگا۔ جو شخص اس بات کا بھی لحاظ نہ رکھے اور اس سے جاھل ہو وہ معذور نہیں ہوسکتا۔”

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ شیخ جواب میں متکلمین کی دلیل حدوث کے مشہور زمانہ مقدمے سے استدلال کررہے ہیں کہ جو شے حوادث سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے اور یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ مقدمہ وجود عالم کے آغاز کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شیخ کہہ رہے ہیں کہ خرق عادت کے طور پر ہی سہی لیکن جس شخص سے یہ عمل رونما ہورہا ہے صاف نظر آرہا ہے کہ وہ محل حوادث ہے اور جو محل حوادث ہو اس کا قدیم ہونا محال ہے، پس جو قدیم نہ ہو وہ حادث ہوتا ہے اور حادث محتاج ہوتا ہے۔ لہذا اس دلیل کی بنا پر اسے خدا سمجھ کر عبادت کرنے والا قیامت والے روز معذور نہیں ہوگا (اس کے بعد البتہ شیخ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص تک سرے سے نبی کی بات ہی نہ پہنچی ہو تو الگ بات ہے)۔ یہاں پیش کردہ دلیل اور اس سے اخذ کردہ نتیجہ دونوں متکلمین کے منہج کے مطابق ہے۔

• تیسرا اقتباس

متکلمین کے مطابق عالم ذات باری کے اختیاری افعال کا اثر ہے جس کی وجہ سے یہ قدیم نہیں ہوسکتا۔ شیخ کے نظام فکر میں وجود کئی مراتب یا درجات پر جلوہ گر ہوا ہے جس میں وجود مطلق سب سے اوپری جبکہ یہ عالم کون و مکان سب سے نچلے درجے پر ہے البتہ یہاں تعیینات و تخصیصات کی تفصیل سب سے زیادہ ہے۔ شیخ اس معاملے کو اپنی اصطلاحات میں تاہم کچھ الگ طرح بھی بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں صفات و اسماء بھی دراصل وجود کی تجلی کا ایک درجہ یا تعیین ہے اور ان اسماء سے جو افعال متفرع ہورہے ہیں وہ وجود کا بذریعہ افعال ایک حال سے دوسرے حال (یعنی ایک درجہ تعیین سے دوسرے درجہ تعیین) میں تحول کرنا ہے۔ اس پس منظر میں گفتگو کرنے کے بعد آپ لکھتے ہیں:

ولولا ذلك ما صح للعالم ابتداء في الخلق وكان العالم مساوقا لله في الوجود وهذا ليس بصحيح في نفس الأمر فكما قبل تعالى الظهور لعباده في صور مختلفة كذلك أيضا لم يخلق ثم خلق فكان موصوفا في الأزل بأنه عالم قادر أي متمكن من إيجاد الممكن لكن له أن يظهر في صورة إيجاده وأن لا يظهر فظهر في إيجاد صورة الممكن لما شاء ولا فرق بين الممكنات في النسبة إليه سبحانه ونحن نعلم أن زيدا ما أوجده الله مثلا إلا أمس أو الآن فقد تأخر وجوده مع كون الحق قادرا فكذلك يلزم الحكم في أول موجود من العالم أن يكون الله يتصف بالقدرة على إيجاد الشئ وإن لم يوجده كما إنك قادر على الحركة في وقت سكونك وإن لم تتحرك ولا يلزم من هذا محال فإنه لا فرق بين الممكن الموجود الآن المتأخر عن غيره وبين الممكن الأول فإن الحق غير موصوف بإيجاد زيد في وقت عدم زيد فالصورة واحدة إن فهمت (۔۔۔) لما كان الوصف النفسي للموصوف لا يتمكن رفعه إلا ويرتفع معه الموصوف لأنه عين الموصوف ليس غيره وكان تقدم العدم للممكنات نعتا نفسيا لأن الممكن يستحيل عليه الوجود أزلا فلم يبق إلا أن يكون أزلي العدم فتقدم العدم له نعت نفسي (3 / 254)

مفہوم: اگر معاملہ یوں نہ ہوتا تو پھر تخلیق عالم کے آغاز کی بات درست نہ ہوتی اور عالم (قدیم ہونے کے لحاظ سے) وجود میں ذات باری کے مساوی ہوتا جبکہ یہ بات نفس الامر کے مطابق نہیں۔ جس طرح حق تعالی اپنے بندے پر خود کو ظاہر کرنے کے لئے (بااعتبار وجود نہ کہ بااعتبار ‘محل مظھر وجود’) مختلف احوال اختیار کرتا ہے، بالکل اسی طرح اس نے ابتدا سے کچھ تخلیق نہ کیا اور پھر تخلیق کیا۔ تو وہ ازل سے بایں معنی عالم و قادر کی صفات سے متصف تھا کہ وہ ممکنات کی ایجاد پر قدرت رکھتا تھا لیکن یہ اس کا اختیار تھا کہ خود کو عالم کی ایجاد کی صورت ظاہر کرے یا نہ کرے۔ پس جب اس نے چاہا وہ عالم امکان کی صورت گری کرکے ظاہر ہوا اور اس کے ساتھ نسبت ہونے کے لحاظ سے ممکنات کے مابین کوئی فرق نہیں (البتہ اپنی خاص تعیینات کے لحاظ سے وہ سب مختلف ہیں)۔ (ازل سے خلق نہ کرنے کے باوجود ذات باری کے قادر ہونے کے) اس معاملے کی مثال یوں ہے کہ الله نے زید کو کل تک یا آج تک پیدا نہیں کیا تھا، تو زید کی تخلیق اگرچہ مؤخر کی گئی تاہم ذات باری اس سے قبل بھی (زید کی تخلیق پر) قادر تھی۔ چنانچہ عالم کے اندر (ظاہر ہونے والے) پہلے موجود کے بارے میں بھی یہی حکم جاری کیا جائے گا کہ ذات باری اس پہلی شے کی ایجاد سے قبل اس (کی ایجاد) پر قادر تھی اگرچہ اسے ایجاد نہ کیا ہو۔ اسی طرح تم حالت سکون کے وقت اس پر قادر ہوتے ہو کہ حرکت کرسکو اگرچہ تم حرکت نہ کرو، ایسا ماننے میں عقلاً کوئی شے مانع نہیں۔ اس بات میں کہ ایک خاص وقت میں ظاہر ہونے والا ممکن اپنے سے ماقبل کسی ممکن سے مؤخر ہوتا ہے اور (عالم میں) ظاہر ہونے والے پہلے ممکن کی بات میں کوئی فرق نہیں کیونکہ پہلی صورت میں بھی ذات باری زید کو (ایک خاص تاخیر تک) عدم سے خلق نہیں کررہی ہوتی (مگر پھر بھی وہ خالق بمعنی قدرت علی الخلق ہوتی ہے)، یہ دونوں معالات یکساں ہیں اگر تم سمجھ سکو۔ (۔۔۔)۔ کسی شے سے اس کے وصف ذاتی کی نفی کرنا ممکن نہیں ہوتا، بصورت دیگر وہ شے ہی معدوم ہوجائے گی کیونکہ کسی شے کا وصف ذاتی اس کی حقیقت کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ممکنات کا ذاتی وصف مسبوق بالعدم ہونا ہے، اس لئے کہ ممکنات کا کسی ابتدا کے بغیر ازلی وجود رکھنا محال ہے۔ پس ازل میں یہ ممکنات معدوم تھیں اور ان کا مسبوق بالعدم ہونا ہی ان کا ذاتی وصف ہے۔”

یہ اقتباس اس مدعا پر صریح ہے کہ عالم میں حوادث کے سلسلے کا آغاز ہے اور شیخ نے بالکل متکلمین، مثلاً عقیدہ طحاویہ، کے طرز پر اس بات کوبیان کیا ہے کہ ذات باری کچھ خلق کرنے سے قبل بھی بایں معنی خالق تھی کہ وہ تخلیق پر قادر تھی۔

• چوتھا اقتباس

متکلمین کا کہنا تھا کہ عالم عدم سے وجود میں آیا جبکہ مسلم فلاسفہ کا کہنا تھا کہ یہ قدیم ہے جس کی دو تشریحات ہیں:

الف) ایک یہ کہ ذات باری کے سواء بھی کوئی شے ایسی ہے جو قدیم ہے اور عالم کی تمام موجودات میں مشترک ہے، اسے وہ ھیولی (یا مادہ) کہتے تھے،

ب) دوسری یہ کہ کائنات میں کوئی شے قدیم نہیں بلکہ یہاں ایک کے بعد دوسرا فرد عدم سے ظاہر ہوتا رہا ہے اور اس سلسلے کا کوئی آغاز نہیں (کیا یہ دوسری تشریح پہلی سے فرق ہے بھی یا نہیں، فی الوقت اسے اگنور کیجئے)

شیخ اپنے نظام فکر کے مطابق ان کے مابین یہ موقف لیتے ہیں کہ عالم بایں معنی حادث ہے کہ عدم سے موجود ہونے والی اشیاء کا یہ سلسلہ لامتناہی نہیں بلکہ اس کا آغاز ہے، البتہ عدم سے مراد عدم محض (absolute             nothingness) نہیں ہے بلکہ اعیان کا وہ درجہ ثبوت ہے جو علم باری میں ازل سے ثابت ہے اور وہ بھی ایک درجہ وجود ہے۔ شیخ کے ہاں صفر درجہ وجود صرف محال کا ہے، باقی سب درجات عدم اضافی (relative             nothingness) ہیں۔ پس اعیان ثابتہ پر اسمائے الہیہ کی وجودی تجلی پڑنے سے قبل ظہور سے محروم ہونے کی بنا پر وہ معدوم و شعور وجود سے محروم تھے تاہم خود اسماء کے عکوس ہونے کے اعتبار سے موجود بمعنی ثابت تھے۔ ذیل کے اقتباس میں شیخ اپنے موقف کے تحت متکلمین و فلاسفہ کے مواقف میں انہی خطوط پر تطبیق پیدا کرتے ہیں:

العالم مدرك لله في حال عدمه فهو معدوم العين مدرك لله يراه فيوجده لنفوذ الاقتدار الإلهي فيه ففيض الوجود العيني إنما وقع على تلك المرئيات لله في حال عدمها فمن نظر إلى وجود تعلق رؤية العالم في حال عدمه وإنها رؤية حقيقية لا شك فيها وهو المسمى بالعالم ولا يتصف الحق بأنه لم يكن يراه ثم رآه بل لم يزل يراه فمن قال بالقدم فمن هنا قال ومن نظر إلى وجود العالم في عينه لنفسه ولم يكن له هذه الحالة في حال رؤية الحق إياه قال بحدوثه (2 / 666)

مفہوم: “عالم حالت عدم میں بھی ذات باری کے لئے مشہود تھا، یعنی یہ اپنی ذات میں معدوم ہوتے ہوئے بھی الله کے ادراک میں ہے۔ وہ اسے (ازل سے) دیکھنے والا ہے، پھر اس نے اس پر اپنی قدرت کے نفوذ سے اسے موجود کیا۔ پس وجود کا یہ فیضان الله کے لئے (ازل سے) قابل رؤیت چیزوں پر ان کی حالت عدم میں پڑتا ہے۔ جب معاملے کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ عالم کی رؤیت اس کی حالت عدم میں بھی تھی اور اس رؤیت کے حقیقی ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ اس میں کہ (اس حالت رؤیت میں جو تھا) وہ عالم ہی تھا اور نہ ہی (یہ کہا جاسکتا ہے کہ) االله پہلے عالم کو دیکھنے والا نہ تھا اور پھر اس نے اسے دیکھا بلکہ وہ اسے ازل ہی سے اسے دیکھ رہا ہے، تو جس نے قدم عالم کی بات کی اس نے اس جہت سے معاملے کو دیکھا اور جس نے صرف وجود عالم کے پہلو سے معاملے کو دیکھا کہ جب وہ (صرف) ذات باری کے مشاہدے میں تھا تب اس پر یہ حالت (وجود طاری) نہ تھی اس شخص نے حدوث عالم کی بات کی۔”

پس اس اعتبار سے متکلمین کی بات درست ہے کہ ذات باری کے اسماء و صفات کی تجلیات سے اعیان کا خود شعور ہوکر ظاہر ہونے کا سلسلہ قدیم نہیں حادث ہے البتہ اس اعتبار سے فلاسفہ کی بات درست ہے کہ خود شعوری سے قبل کا حال کلی طور پر نیستی نہیں۔ متکلمین کے نزدیک اعیان ثابتہ کا حال کوئی مرتبہ وجود ہوسکتا ہے یا نہیں، اس بحث سے علی الرغم یہ اقتباس ظاہر کررہا ہے کہ شیخ حوادث لا اول لھا کی نفی کرتے ہیں نیز آپ قدم عالم کی درج بالا دونوں تشریحات کی تردید کرتے ہیں۔

• خلاصہ

ہمارے فہم کے مطابق شیخ ابن عربی “حوادث لا اول لھا” کے تصور کے قائل نہیں جو بعض محققین کی جانب سے ان کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے، شیخ اسے متکلمین ہی کی طرح محال کہتے ہیں اور دلائل بھی تقریباً اسی طرز پر دیتے ہیں (اگرچہ عدم کی ان کی تشریح کچھ مختلف ہے)۔ “حوادث لا اول لھا” کا نظریہ علامہ ابن سینا (م 427 ھ)، علامہ ابن رشد (م 598 ھ) اور علامہ ابن تیمیہ (م 728 ھ) کا موقف ہے۔ شیخ ابن عربی جس معنی میں عالم کے وجود کو قدیم کہتے ہیں، وہ الگ قسم کا تصور ہے اور اس کی بنیاد دراصل معتزلی عالم ابو ھاشم (م 321 ھ) کا “نظریہ حال” ہے جہاں وجود و عدم کو ان کے عام طور پر معروف معانی سے کچھ مختلف معانی میں برتا جاتا ہے۔ نظریہ حال کا مطلب یہ ہے کہ وجود اور عدم کے مابین بھی ایک واسطہ یا مقام ہے اور اس مقام پر فائز شے نہ موجود ہوتی ہے اور نہ معدوم۔ شیخ کی اعیان ثابتہ دراصل اس درجہ حال پر فائز ہوتی ہیں (اور ہمیشہ اسی پر فائز رہتی ہیں)۔ متکلمین چونکہ وجود و عدم کے مابین اس واسطے کے قائل نہیں لہذا ان کے نزدیک یہ مقام یا وجود کہلائے گا اور یا عدم۔ مزید تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شیخ اشیاء میں “دوئی” و “علیحدگی” کے تصور ہی کو الگ زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اس تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

والله اعلم بالصواب۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں