گل رحمان ہمدرد
ابوالکلام آزاد کا تصور حکومت الہیہ معروف معنوں میں کوٸ مذہبی تصور نہ تھا بلکہ یہ بالکل وہی چیز تھی جس کو گاندھی جی رام راج کہا کرتے تھے۔یعنی انگریز کی غلامی سے آزادی اور ہندوستانیوں کی اپنی آزاد و خودمختارجمہوری حکومت کاقیام جس میں مذہب ہر مذہبی کمیونٹی کا پراٸیویٹ معاملہ ہو اورریاست کا نظام اعلیٰ اخلاقیات پراستوار ہو۔گویا ان کے نزدیک جسطرح خدا کو قرض دینے کا مطلب بندگانِ خدا کو قرض دینا ہے,خدا سے دوستی کا مطلب بندگانِ خدا سے دوستی کرنا ہے اسی طرح خدا کی حکومت سے مراد بندگانِ خدا کی آزاد وخودمختار حکومت ہے۔اپنی کتاب آزادی ہند میں ابوالکلام نے بتایا ہے کہ 1906میں ہی وہ اس انقلابی فکر کے علمبردار بن چکے تھے جب آزادی ہند کےلیۓ جدوجہد کرنے والی ہندوٶں کی انقلابی تنظیم میں وہ شامل ہوۓ تھے۔وہ لکھتے ہیں۔:
”میرے سیاسی خیالات میں بھی تبدیلی شروع ہوئی۔لارڈ کرزن اس وقت ہندوستان کے وائسرائے تھے۔ان کے آمرانہ رویے اور انتظامی اقدامات نے ہندوستان کے سیاسی اضطراب کو نئ بلندیوں تک پہنچا دیا۔اس اتھل پتھل(بے چینی/مضطرب) کا سراغ سب سے زیادہ بنگال میں ملتا تھا کیونکہ لارڈ کرزن اس صوبے کی طرف خصوصی توجہ کرتے تھے۔سیاسی اعتبار سے یہ ہندوستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ تھا اور بنگال کے ہندوؤں نے ہندوستان کی “سیاسی بیداری” میں نمایاں ترین حصہ لیا تھا۔1905ء میں لارڈ کرزن نے اس صوبے کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا،یہ سوچ کر کہ اس طرح ہندو کمزور پڑ جائیں گے اور بنگال کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ایک مستقل بٹوارہ قائم ہو جائے گا۔
بنگال نے اس اقدام کو چپ چاپ تسلیم نہیں کیا۔سیاسی اور انقلابی جوش و خروش کا ایک طوفان پھٹ پڑا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔سری اربندو گھوش بڑودہ چھوڑ کر کلکتے آگئے تاکہ اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا سکیں۔ان کا اخبار،”کرم یوگن” قومی بیداری اور احتجاج کی ایک علامت بن گیا۔
یہی زمانہ تھا جب “شری شیام سُندر چکرورتی” سے میرا رابطہ قائم ہوا،جو اس دور کے اہم”انقلابی کارکنوں“ میں سے تھے۔ان کے توسط سے میں دوسرے “انقلابیوں” سے بھی ملا ۔مجھے یاد ہے کہ دو یا تین موقعوں پر “سری اربندو گھوش” سے بھی ملاقات ہوئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ “انقلابی سیاست” (یعنی آزادی ہند کی جدوجہد)کی طرف کھنچنے لگا اور “انقلابیوں” کے ایک گروپ میں شامل ہوگیا۔ان دنوں “انقلابی گروپ” صرف ہندوؤں کے متوسط طبقے سے بھرتی کیے جاتے تھے۔دراصل تمام “انقلابی گروپ” اس زمانے میں سرگرم طور مسلم مخالف تھے۔انہوں نے دیکھا کہ “برطانوی حکومت” مسلمانوں کو ہندوستان کی “سیاسی جدوجہد کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور مسلمان حکومت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔مشرقی بنگال ایک علیحدہ صوبہ بن گیا تھا اور “بیم فیلڈ فُلر”،جو اس وقت لیفٹیننٹ گورنر تھا،کھل کہتا تھا کہ “حکومت” کی نظر میں “مسلمانوں” کی حیثیت چہیتی بیوی کی ہے۔”انقلابی” یہ محسوس کرتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی کے حصول میں مسلمان ایک رکاوٹ ہیں ۔“
(مولانا ابوالکلام آزاد،آزادی ہند،ص 15)
ہندوستان کی آزادی کے اس جہاد اعظم کےلیۓ انہوں نے 1912 میں الہلال جاری کیا جس میں اسلامی تعلیمات کو بطورِ آلہ استعمال کرتے ہوۓ مسلمانوں کو آزادی ہند کی انقلابی جدوجہد کی طرف ماٸل کرنے کی کوشش کی۔بعدازاں مسلمانوں کو اس جدوجہد کےلیۓ تیار کرنے کےلیۓ حزب اللہ کے نام سے ایک دعوتی وجہادی جماعت بھی بناٸ جسے گاہے ”انقلابی جماعت“ بھی کہا جاتا تھا ۔الہلال اور تحریک حزب اللہ کی انقلابی دعوت رنگ لے آٸ اور مسلمان 1857 کے بعد پہلی مرتبہ آزادی ہند کی جدوجہد کےلیۓ تیار ہوگیۓ اور 1919 میں جمیعت علماۓ ہند قاٸم ہوگٸ تو ابوالکلام نے اس جماعت کے قیام کو اپنا یوسفِ مقصود قراردیا :
”آج آپ کی یہ مقدس و مبارک جمعية العلماء جس مقصد کی جستجو میں منعقد ہوئی ہے،میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ وہی “یوسف مقصود” ہے،جس کے فراق میں 1911ء سے متصل “وااسفا علی یوسف” کی فغان سنجی کررہاہوں اور جس کے لئے میں “الہلال مرحوم” کے صفحوں کو کبھی اپنے “چشم خونی” کے آنسوؤں سے رنگا ہے، اور کبھی اس کے “سواد و حروف” کے اوپر اپنے “دل و جگر” کے ٹکڑے بچھا دیئے ہیں.1911ء سے لے کر آج تک یہ مقصد میرے “دل” کی تمناؤں اور آرزووں کا مطلوب اور میری “روح”کی عشق و شیفتگی کا “محبوب” رہا ہے.خدا کی کوئی صبح مجھ پر ایسی طلوع نہیں ہوئی،اس مقصد سے میرا دل خالی رہا ہو،اور کوئی شام مجھ پر ایسی نہیں گزری ،جب میں نے اس تمنا میں اپنے “بستر غم واندوہ”پر بے قراری کی “کروٹیں” نہ بدلی ہوں.میں نے اپنی “آزادی” کی تمام فرصت اسی کے “عشق” میں بسر کی اور نظر بندی و قید کے چار سال بھی اس کے “فراق” میں کاٹے.
یذکرنی طلوع الشمش صخرا
و اذکرہ لکل غروب الشمس
(مولانا ابوالکلام آزاد ، خطبات آزاد،ص 83)“
جبکہ جمیعت علماۓ ہند کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے قیام کے اولین روز سے ہی سیکولرازم کی علمبردار رہی ہے۔اس کو الہلال کا اور اپنی جدوجہد کا یوسفِ مقصود قراردینا معنی خیز ہے۔
مسلمانوں میں اپنی انقلابی دعوت عام کرنے کے بعد ”کچھ اور چاہیۓ وسعت میرے بیاں کے لیۓ “ کے مصداق انہوں نے 1920 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی تاکہ ہندوستان کی تمام اقوام کو اس ”انقلابی جدوجہد “ کے لیۓ تیار کرسکیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے ایک رہنما کی حیثیت سے سیکولر وژن کے مطابق متحدہ ہندوستان کی آزادی اور بعد ازاں اس میں سیکولر نظام کے قیام کے پرزور حامی تھے۔فطری طور پر ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا رہا کہ اسلام کا نظام جیسا کہ ہمارے دینی علماء ہمیں بتاتے ہیں ”نظامِ خلافت“ ہے ,تو سیکولر ہندوستان میں مسلمان اپنے اس نظام کو تو نافذ نہیں کرسکیں گے؟۔ضروری تھا کہ اس اشکال کو ایڈریس کیا جاتا۔پس 1924 میں ابوالکلام نے اس مسلہ پر روشنی ڈالتے ہوۓ مسلمانوں کو سمجھایا کہ نظام خلافت کوٸ الگ نظام نہیں ,یہ حکومت کے لفظ کا محض ایک عربی مترادف بس۔اس کے سوا کچھ نہیں۔ابوالکلام کے اپنے الفاظ میں پڑھیۓ,وہ لکھتے ہیں:
”اسلامی خلافت“ سے مقصود دراصل ”اسلامی حکومت“ ہے اور ”خلیفہ“ وہ ہے جو اس حکومت کا ”رئیس“ ہو۔۔۔پس اگر “اسلامی حکومت” موجود ہے تو “اسلامی خلافت” بھی موجود ہے۔ان میں باہم تعدد کی نسبت نہیں ہے کہ ایک کی موجودگی دوسرے کے لیے مستلزم نہ ہو،ترادف ہے(یعنی یہ مترادف الفاظ ہیں)،جس کی وجہ سے ایک کی موجودگی دوسرے کی موجودگی کے ہم معنی ہوگی۔۔۔اسلام میں پوپ اور کلیسا کی طرح روحانی اقتدار کی کوئی جگہ نہیں۔نہ اس طرح کوئی دینی اقتدار ہے. (مولانا ابوالکلام آزاد،تبرکات آزاد ص 183 تا 225، 12جون 1924ء)
ابوالکلام آزاد کی یہ تحریر 1924 کی ہے جبکہ وہ آل انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی حیثیت سے عوام سے مخاطب تھے اور کانگریس کی فکر کی دعوت مسلمانوں میں پھیلانے کےلیۓ محنت کررہے تھے۔ابوالکلام نے اپنی اس مذکورہ تحریر میں مسلمانوں کو سمجھایا کہ وہ اسلامی نظام یا اسلامی خلافت کے جو تصورات پیش کررہے ہیں,اسلام میں اس قسم کے دینی اقتدار کا کوٸ تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے(اوپر آخری لاٸن کو زرا غور سے پڑھیں )۔۔۔۔آسان الفاظ میں آپ یوں سمجھ لیں کہ غامدی اور خضریاسین کی طرح ابوالکلام کا موقف بھی یہ ہے کہ خلافت مذہب کی کوٸ اصطلاح نہیں بلکہ عربی زبان کا ایک عام
لفظ ہے جو حکومت و اقتدار کےمعنوں میں بولا جاتا ہے اور بس۔
مولانا ابوالکلام آزاد جماعت اسلامی کی فکر کے بارے میں کیا راۓ رکھتے تھے؟۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کے صاحبزادے سید حسین فاروق مودودی لکھتے ہیں :
” جب ہمارے والد نے جماعت اسلامی بنانے کا ارادہ باندھا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے جماعت کا مینی فیسٹو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا
چنانچہ مولانا عبدالسلام نیازی رح کے ترکمان گیٹ دہلی والے حجرے میں انہوں نے فراہم کردہ مینی فیسٹو کا بغور مطالعہ کیا اور ٹھنڈی آہ بھر کر کہا
ابوالاعلیٰ ! اخلاصِ نیت کے باوجود اس مینی فیسٹو سے جو جماعت معرض وجود میں آئے گی وہ ایک فاشسٹ جماعت ہوگی ۔ مذہبی جرائم پیشہ افراد سانپ بچھو بن کر تمہارے گرد اکٹھے ہوجائیں گے اور ان کی اصلاح ممکن نہ ہوگی “
(آفتاب علم و عرفان :سید ابوالاعلیٰ مودودی ,
مصنف ۔ سید حسین فاروق مودودی,صفحہ 197)
تحریک پاکستان بھی ایک لحاظ سے اسلام کے انقلابی فہم پر مبنی سیاسی تحریک تھی جس میں یہ دعوت دی جاتی رہی کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس نظام حیات کے عملی اطلاق کےلیۓ مسلمانوں کو ایک الگ ملک درکار ہے ۔مزید یہ کہ مسلمان ایک الگ قوم ہے جو ہندوٶں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کے بارے میں 1946میں نامور صحافی اور ادیب شورش کاشمیری سے گفتگو کرتے ہوۓ ابوالکلام نے فرمایا:
“پاکستان کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے- سوال یہ ہے کہ اسلام نے کب اور کہاں دین کے نام پر جغرافیائ تقسیم کا مطالبہ کیا ہےاور کفر واسلام کی بستیاں بسايئں ہیں؟-کیا یہ تقسیم قرآن میں ہے کہ حدیث میں؟ ۔ صحابہ نے کس مرحلے پر اس کی نیو[بنیاد] اٹھائ؟ ۔ فقہاۓ اسلام میں سے کس نے خداکی زمین کو کفر و اسلام میں بانٹا؟ ۔اگر اسلام میں کفر واسلام کے اصول پر زمین کی تقسیم ہوتی تو اسلام دنیا کے ہر ملک میں داخل ہوتا۔؟ ۔ خود ہندوستان میں اسلام داخل ہوتا؟—-اسلماََ یا قرآناََ جغرافیائ تقسیم کا جواز کوئ نہیں اورکہیں نہیں۔ مسلمان اسلام کی اشاعت کیلیۓ ہیں یا سیاست کی اساس پر کفر و اسلام کی جغرافیائ تقسیم کیلیۓ؟ ۔۔۔آپ اسلام کا نام ایک ایسی چیز کےلیۓ بول رہے ہیں جو اسلام ہی کی رو سے درست نہیں۔۔۔کسی بھی مقصدِ باطل کےلیۓ کوٸ سا کلمہ حق درست نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔کیا دس کروڑ مسلمان آزادی کے بعد اتنے بےبس ہوجایئں گےکہ ان کا دین ان سے چھین لیا جاۓ گا؟انگریز ایک عالمی عیسائ طاقت ہونے کے باوجود مسلمانوں سے اسلام چھین نہیں سکا تو ہندوؤں کے پاس ایسی کونسی طاقت ہےکہ وہ آپ سے اسلام چھین لیں گے؟—جغرافیاٸ تقسیم لیگ کی اختراع ہے۔وہ اس کو سیاسی موقف قرار دے تو اس طرح بحث ونظر کا جواز ہوسکتا ہے لیکن اسلامََ یا قرآناََ اس کا جواز کہیں نہیں اور کوٸ نہیں۔مسلمان اسلام کی اشاعت کےلیۓ ہیں یا سیاست کی اساس پر کفر واسلام کی جغرافیاٸ تقسیم کےلیۓ؟۔۔۔وہ چیز جس نے اس معاشرے میں اسلام کی داغ بیل ڈالی اور اسکی آبادیوں میں سے اپنی طاقتور اقلیت پیدا کی,اس تقسیمی سیاست کی پرزور نفرت کے باعث وہ چیز ہی رک گٸ ہے۔اب ہندوٶں اور مسلمانوں کی سیاسی منافرت نے اشاعت اسلام کے دروازے اسطرح بند کردیۓ ہیں کہ ان کے کھلنے کا سوال ہی نہیں رہا۔۔۔ہم نے سیاسی نزع پیدا کرکے تبلیغ اسلام کے دروازے اسطرح بند کیۓ گویا اسلام اشاعت کےلیۓ نہیں سیاست کےلیۓ ہے۔۔۔۔۔“
کیا ہندو اور مسلمان ایک مشترکہ اجتماعی نظام پر متفق ہوجاٸیں گے؟۔ابوالکلام کا جواب ہے کہ بالکل متفق ہوں گے کہ اس کے علاوہ جو بھی راہ اختیار کی جاۓ گی وہ ”غیر فطری“ ہوگی۔ان کا موقف ہے کہ اسلام جب برصغیر میں آیا تو ایک مدت تک جمنا اور گنگا کی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے دریا الگ الگ بہتے رہے۔ایک مدت بعد ”فطرت کے قانون کے عین مطابق“ یہ دونوں تہذیبیں (داراشکوہ کےفکری عہد میں )یک جاں و دو قالب بن گٸیں ۔جس روز اس واقعہ کا ظہور ہوا تھا وہ ”نیۓ ہندوستان“ کے معرضِ وجود میں آنے کا پہلا دن تھا۔وہ مارچ 1940میں لکھتے ہیں:
”ہندوستان کے لیے قدرت کا یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں، مختلف تہذیبوں، اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے۔ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی۔اور پھر ایک بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کے لیے جگہ نکالی۔ان ہی قافلوں میں آخری قافلہ ہم پیروان اسلام کا بھی تھا۔یہ بھی پچھلے قافلوں کے نشان راہ پر چلتا ہوا یہاں پہنچا۔اور ہمیشہ کے لیے بس گیا۔یہ دنیا کی دو مختلف قوموں اور تہذیبوں کے دھاروں کا ملان تھا۔یہ جمنا اور گنگا کے دھاروں کی طرح پہلے ایک دوسرے سے الگ الگ بہتے رہے،لیکن پھر جیسا کہ قدرت کا اٹل قانون ہے،دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا۔ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔جس دن یہ واقعہ ظہور میں آیا،اسی دن سے قدرت کے مخفی ہاتھوں نے،”پرانے ہندوستان“ کی جگہ ” نئے ہندوستان” کے ڈھالنے کا کام شروع کر دیا۔
(مولانا ابوالکلام آزاد،خطبات آزاد،ص 218،مارچ 1940م)
ہمارےعہد کے سب سے بڑے ماہر آزادیات سید حنیف رسول کاکا خیل مولانا آزاد کی سیاسی وعمرانی فکر پر تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
”جنوبی ایشیاء کی جدید تاریخ دو اہم ادوار اور چار اہم شخصیات کی تاریخ ہے: دو اہم ادوار سترہویں صدی کا دوسرا نصف(second half of 17th century) اور بیسویں صدی کا پہلا نصف(first half of 20th century) ہیں؛ اور چار اہم شخصیات دارا شکوہ ، اورنگ زیب ، مولانا ابوالکلام آزاد ، اور محمد علی جناح ہیں۔ پہلے دور میں اگر اورنگ زیب کی بجائے دارا شکوہ مسند حکومت پر متمکن ہوتا تو جنوبی ایشیاء کی بعد کی تاریخ مذہبی ہم آہنگی، روشن خیالی اور ترقی پسندی کی تاریخ ہوتی۔ اسی طرح دوسرے دور میں اگر بر صغیر کے مسلمانوں نے محمد علی جناح کی فرقہ پرست سیاست پر ابوالکلام آزاد کی eclectic سیکولر سیاست کو ترجیح دی ہوتی تو نہ صرف جنوبی ایشیاء (بلکہ غالبا دنیا کی) بعد کی تاریخ انسانیت دوستی اور مذہبی رواداری کی تاریخ ہوتی۔ “
ابوالکلام آزاد کی سیاسی وعمرانی فکر انہی تین بنیادوں پر کھڑی ہے جن پر کہ مولانا وحیدالدین خان, جاوید احمدغامدی اور خضریاسین کی فکر کھڑی ہے۔یعنی یہ کہ:
١۔اسلام سیاست,معیشت اور معاشرت کا کوٸ نظام نہیں دیتا بلکہ معدودے چند احکام دیتا ہے۔ابوالکلام کے اپنے الفاظ میں”حدیث انسانی سوساٸٹی کےلیۓ قانون کا سوتا نہیں ہوسکتی۔عالمگیر ہدایت کا ضامن قرآن ہے اور قرآن (نظامِ حیات نہیں دیتا)بلکہ معدودے چند قوانین کا حامل ہے۔اسلیۓ کہ کوٸ قانون بھی اختلاف ازمنہ و حالات کی وجہ سے ساری دنیا پر نہ نافذ ہوسکتا ہے نہ مفید ہوسکتا ہے۔“
٢۔مذہب اور عقل کا داٸرہ کار الگ لگ ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
” مذہب اور عقل کے میدان بالکل الگ الگ ہیں، اور دونوں کی ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ ان کو باہم مخالف سمجھ کر توڑنے یا جوڑنے کی کوشش کی جائے۔“
(بحوالہ ذکرِ آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی )
٣۔مذہب کا مقصد اولیٰ سیاسی وعمرانی انقلاب برپا کرنا نہیں ہے بلکہ روحانی نجات ہے۔نومبر 1956 میں ایک صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد کے نام اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی ,معاشی و معاشرتی انقلاب برپا کرنا ہوتا ہے۔اس کے جواب میں مولانا آزاد نے فرمایا کہ:
”آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی و معاشرتی مقاصد ہیں۔انبیاء کی بعثت کا مقصد روحانی زندگی کی پاکیزگی اور معنوی نجات کا حاصل کرنا ہے۔روحانی پاکیزگی کا اثر ہماری زندگی کے تمام اعمال پر پڑتا ہے لیکن وہ اثر بالذات نہیں بالغیر ہے۔۔۔مذہب کی تعلیم کا اصل مقصود روحانی نجات ہے۔اس چیز کو سامنے رکھ کر معاملے پر غور کرنا چاہیۓ ورنہ سخت الجھاٶ پیدا ہوں گے“
(افاداتِ آزاد ,صفحہ 196,سن تحریر نومبر 1956)
یادررہے کہ مولانا وحید الدین خان نے اپنی مشہور کتاب ”تعبیر کی غلطی“ (جو غالبا“ 1963 میں شاٸع ہوٸ)میں ٹھیک یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مذہب کا مقصد سیاسی,معاشی یا معاشرتی نظام قاٸم کرنا نہیں ہے۔بلکہ اس کا اصل مقصد تزکیہ نفس و روحانی پاکیزگی و روحانی نجات ہے۔ مذہب کے مقصدِ اولیٰ کے بارے میں صوفیاء کا موقف بھی بالکل یہی ہے۔۔۔
اس میں شبہ نہیں کہ ابوالکلام آزاد نے الہلال میں حکومت الہیہ کی اصطلاح استعمال کی تھی ۔لیکن اس سے ان کی مراد کوٸ مذہبی حکومت نہ تھی بلکہ اس سے مراد بالکل وہی چیز تھی جس کو گاندھی جی رام راج کہا کرتے تھے۔یعنی انگریز کی غلامی سے آزادی اور ہندوستانیوں کی اپنی آزاد و خودمختارجمہوری حکومت کاقیام جس میں مذہب ہر مذہبی کمیونٹی کا پراٸیویٹ معاملہ ہو اورریاست کا نظام اعلیٰ اخلاقیات پراستوار ہو۔چنانچہ آزادی کے بعد انڈیا میں اسی طرح کا نظام قائم کردیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔
کمنت کیجے