نعمان احمد
یہ شاید ایک انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی خاص مقصد کے حصول کیلیے کوئی ظاہری عمل اختیار کرتا ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ اصل مقصد کو بھول کر اسکے ظاہری پہلو کو ہی اصل سمجھنے لگتا ہے۔ اسی کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے اور اسی کیلیے وہ کئی سارے عقلی مقدمات بھی بنا لیتا ہے۔
انسانی زندگی کے اکثر معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانی سماج بہت سارے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ انبیاء کرام علیھم السلام ،مصلحین، مفکرین و دانش دراصل انہی “اصل مقاصد” کی طرف توجہ دلانے اور انکو عملا رائج کرنے کیلیے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں اور اس کیلئے موزوں حکمت عملیاں اپنانے ہیں۔ انسانی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہے کہ جس کی حکمت عملی جتنی بہتر ہوتی ہے وہ سماج کیلیے اتنی مؤثر دکھائی دیتی ہے۔
دین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دین کی دیگر تعلیمات سے صرفِ نظر کر کے ہم یہاں دین کے کچھ عبادات اور انکے مقاصد کے پہلو سے بات کر لیتے ہیں۔
نماز کو عبادات میں سے پہلا اور بنیادی درجہ حاصل ہے۔ نماز کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک باطنی پہلو یعنی اسکا اصل مقصد۔ نماز کے ظاہری پہلو میں قیام، رکوع و سجود اور کچھ تسبیحات آجاتی ہیں جبکہ نماز کے مقاصد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک گہرا قلبی تعلق، روز پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار اور اپنے اعمال پر جواب دہی کا احساس۔
انہی مقاصد کو بیان کرتے ہوئے اللّہ تعالیٰ نے کہا ہے جسکا مفہوم ہے کہ بے شک نماز فحاشی اور برائی سے روکتی ہے۔
دوسری جگہ فرمایا کہ جو لوگ نماز میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے کی بجائے نماز میں غفلت اور ریاکاری سے کام لیتے ہیں ان کیلیے تباہی ہے۔
ہم جب اپنی نمازوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ظاہری پہلو تو صاف دکھائی دیتا ہے لیکن نماز کے مقاصد کو دیکھ لیں تو وہ پورے نہیں ہو رہے۔ ہم نماز پڑھنے کے باوجود دوسرے بہت سارے سماجی و اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسکی بڑی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے ظاہری پہلو کو اختیار کر کے باطنی پہلو کو بلکل نظر انداز کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے ہم یہ بات بھی فخریہ کہتے ہیں کہ نماز ایک اچھی ورزش ہے اور پھر اسکے بہت سارے جسمانی فائدے بیان کرتے ہیں گویا یہی نماز کا اصل مقصد ہو اور ترغیب کا ذریعہ ہو۔
اسی طرح اگر روزے کو دیکھا جائے تو اسکا ظاہری پہلو یہ ہے کہ فجر سے غروب آفتاب تک کھانا پینا اور ازدواجی تعلق ممنوع ہے۔ جب اسکا مقصد اللہ تعالیٰ نے تقوی بتایا ہے اور احادیث میں روزے کا مقصد صبر، اعتدال اور کئی دوسرے اخلاقی مقاصد بیان ہوئے ہیں۔ لیکن ہم دیکھیں تو ہم روزے کا ظاہری پہلو تو اختیار کرتے ہیں لیکن اسکے مقاصد نظر نہیں آتے۔ ہم روزے میں غصہ بھی کرتے ہیں، لڑائی بھی کرتے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح دیگر کئی ساری برائیوں کا بھی ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔
اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم ظاہری پہلو کو اختیار کر کے اسکے باطنی پہلو کو بلکل نظر انداز کر چکے ہیں لہذا مقاصد پورے نہیں ہو رہے۔
رمضان میں عموما چونکہ قرآن مجید کی تلاوت کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے تو اس پر بھی اسی پہلو سے بات کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کا بھی ایک ظاہری پہلو ہے یعنی ایک خاص ماحول بنا کر اسکو پڑھنا اور ختم کرنا۔ تلاوت کا اصل مقصد اور باطنی پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا، قرآن مجید کی تعلیمات پر غور کرنا اور اس کو عمل زندگی کا حصہ بنانا۔
جبکہ ہم اپنا جائزہ لیں تو ہماری پوری توجہ تلاوت کے ظاہری پہلو پر رہتی ہے اور باطنی پہلو کو بلکل نظر انداز کر چکے ہیں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن مجید سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب تو بن جاتی ہے لیکن اسکے ساتھ سب سے کم سمجھی جانے والی کتاب بھی بن جاتی ہے، ہم اس کو ایک متبرک کتاب کی حیثیت سے تو قبول کر لیتے ہیں لیکن قرآن مجید کے عملی تعلیمات سے بہت دور نظر آتے ہیں۔
اسی طرح زكاة و حج کا معاملہ بھی ہے جسکو تحریر کی طوالت کے خوف سے کسی اور موقع پر زیر بحث لایا جائے گا۔
ہمیں یہ بات بھی گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب معاشرے میں دینی تعلیمات یا عبادات کے ظاہری پہلو کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ محض سماجی فخر (سوشل سٹیٹس) کا نام رہ جاتے ہیں۔
پھر یہی ہوتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ان ظاہری پہلوؤں کو جمع کر کے انکو سماجی فخر کے طور پر پیش کرتے ہیں اور معاشرے میں انہی بنیادوں پر اپنا سماجی رتبہ متعین کرتے ہیں۔
گویا دین پہلے اپنے مقاصد سے علیحدہ ہو کر ایک ظاہری رسم رہ گیا، پھر اس ظاہری رسم نے سماجی حیثیت اختیار کر لی اور ہم اسی کو معیار سمجھ کر اپنا سماجی مقام و مرتبہ بھی متعین کرنے لگے۔ یہ دراصل وہ نفسیات ہیں جو پیچھے کار فرما نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ہم زیادہ سے زیادہ نوافل، زیادہ سے زیادہ اذکار اور بار بار قرآن مجید کو ختم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے بھی اسکا اظہار ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہمارا سماجی رتبہ بلند ہو اور دوسرے لوگ ہم سے اِس کام میں “آگے” نہ نکل جائیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر کسی کے ظاہری حلیے کو دیکھ کر ہی اسکے دینی و سماجی مقام کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
باطنی پہلوؤں سے چونکہ سماجی رتبہ حاصل نہیں ہوتا اسلیے وہ ہمارے ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہوتے لہٰذا دین کے اصل مقاصد ہماری زندگی سے غائب ہو جاتے ہیں۔
بقول اقبال “رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی”
رب ذوالجلال ہمیں دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلو پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعمان احمد کوہاٹ کے رہائشی ہیں اور کوہاٹ یونیورسٹی میں ایم۔فل علومِ اسلامیہ کے طالبعلم ہیں ۔
کمنت کیجے