برادر عمار ناصر صاحب کا فرمانا ہے کہ آیت قروء میں لفظ “قروء” حیض کے معنی میں ہونے کی دلیل یہ ہے کہ علامہ راغب اصفھانی کے مطابق اس لفظ کا اصل معنی “ناپاکی” ہونا ہے:
“راغب کی لغوی تشریح اور مذکورہ استعمالات سے واضح ہے کہ کسی موقع پر قرینے اور سیاق وسباق کی روشنی میں لفظ قرء، طہر یعنی پاکی کے لیے بھی آسکتا ہے، لیکن اس کی اصل وضع اور استعمال ناپاکی کے ایام کے لیے ہے”
یہ نتیجہ “اس کی اصل وضع اور استعمال ناپاکی کے ایام کے لیے ہے” علامہ راغب کی کس بات سے ماخوذ ہے ہم سمجھ نہیں سکے۔ ہم ان کی پوری عبارت پیش کرتے ہیں:
قرأ
قَرَأَتِ المرأة: رأت الدّم، وأَقْرَأَتْ: صارت ذات قُرْءٍ، وقَرَأْتُ الجاريةَ: استبرأتُها بالقُرء.
والقُرْءُ في الحقيقة: اسم للدّخول في الحيض عن طهر. ولمّا كان اسما جامعا للأمرين الطّهر والحيض المتعقّب له أطلق على كلّ واحد منهما، لأنّ كلّ اسم موضوع لمعنيين معا يطلق على كلّ واحد منهما إذا انفرد، كالمائدة: للخوان وللطّعام
ثم قد يسمّى كلّ واحد منهما بانفراده به. وليس القُرْءُ اسما للطّهر مجرّدا، ولا للحيض مجرّدا بدلالة أنّ الطّاهر التي لم تر أثر الدّم لا يقال لها: ذات قرء. وكذا الحائض التي استمرّ بها الدّم والنّفساء لا يقال لها ذلك۔
وقوله: يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ [البقرة/ 228] أي: ثلاثة دخول من الطّهر في الحيض. وقوله عليه الصلاة والسلام: «اقعدي عن الصّلاة أيّام أَقْرَائِكَ» «2» أي أيّام حيضك، فإنما هو كقول القائل: افعل كذا أيّام ورود فلان، ووروده إنما يكون في ساعة وإن كان ينسب إلى الأيّام. وقول أهل اللّغة: إنّ القُرْءَ من: قَرَأَ، أي: جمع، فإنّهم اعتبروا الجمع بين زمن الطّهر وزمن الحيض حسبما ذكرت لاجتماع الدّم في الرّحم
یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ لفظ ایک کیفیت (طھر) سے دوسری کیفیت (حیض) میں تبدیلی یا شفٹنگ سے عبارت ہے اور ان دونوں احوال کے جمع کی کیفیت لئے ہونے کی بنا پر یہ دونوں کے لئے بولا جاتا ہے (یعنی مشترک ہے)، نہ یہ اصلا پاکی کے لئے ہے اور نہ ناپاکی کے لئے۔ علامہ راغب یہ نہیں کہہ رہے کہ چونکہ یہ طھر سے حیض میں دخول کا مفہوم رکھتا ہے اس لئے اس کا اصل معنی حیض ہے، اگر ایسا ہوتا تو وہ یہ نہ کہتے:
وليس القُرْءُ اسما للطّهر مجرّدا، ولا للحيض مجرّدا
یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اپنی حقیقت یا اصل میں یہ لفظ ناپاکی کے لئے نہیں ہے۔ نیز علامہ راغب کے مطابق طھر کے لئے اس کا استعمال ضمنی طور پر نہیں ہے جسے مراد لینے کے لئے اضافی قرینہ چاھیے ہوتا ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اس کی حقیقت ان دو احوال کا تقاضا کرتی ہے اور اسی جمع کی وجہ سے یہ دونوں کے لئے مساوی طور پر استعمال ہوتا ہے:
ولمّا كان اسما جامعا للأمرين الطّهر والحيض المتعقّب له أطلق على كلّ واحد منهما
اور پھر وہ اصول لکھتے ہیں:
كلّ اسم موضوع لمعنيين معا يطلق على كلّ واحد منهما إذا انفرد
اسی حقیقت (كلّ اسم موضوع لمعنيين معا) کو مشترک ہونا کہتے ہیں۔ اور اس جمع کی بنا پر علامہ راغب کہتے ہیں کہ اہل لغت نے اسے دونوں کے لئے مراد لیا ہے:
وقول أهل اللّغة: إنّ القُرْءَ من: قَرَأَ، أي: جمع، فإنّهم اعتبروا الجمع بين زمن الطّهر وزمن الحيض
پھر آیت يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ کا مفہوم بھی وہ اسی شفٹنگ کے معنی میں کررہے ہیں نہ کہ حیض برخلاف جیسا کہ اس آیت سے متعلق عمار صاحب کا دعوی ہے۔ علامہ راغب کی بات سے تو شوافع کے موقف پر احناف کے اس مشہور اعتراض کا جواب ہوجاتا ہے کہ طلاق اگر طھر میں دی گئی تو تین کی گنتی کا مسئلہ ہوگا، کیونکہ شافعی کہہ سکتا ہے کہ قرء کا اصل مطلب طھر سے حیض میں تین مرتبہ شفٹنگ ہے، تو طھر میں طلاق کے بعد جب پہلا حیض آیا تو یہ پہلی شفٹنگ ہوئی۔ کسی خاص فقہی مذھب کی صحت و عدم صحت پر بحث یہاں مقصود نہیں (دیگر قرائن کی بنا پر اہل علم حیض کے قول کو ترجیح دے سکتے ہیں)، ہمارا احتجاج اس دعوے پر ہے کہ علامہ راغب گویا اسے مشترک نہیں کہہ رہے۔ ہمارے فہم میں جس طرح تمام فقہی مذاھب کے ماہرین نے اس لفظ کو مشترک سمجھا ہے، علامہ راغب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔
ہم نے جو یہ کہا کہ علامہ راغب اس لفظ قروء کو مشترک کا لفظ استعمال کئے بغیر مشترک ہی کہہ رہے ہیں نہ کہ اصلا حیض کے معنی میں، اس کی تصدیق علامہ ابن عاشور سے بھی ہوتی ہے:
وَالْقُرُوءُ جَمْعُ قَرْءٍ- بِفَتْحِ الْقَافِ وَضَمِّهَا- وَهُوَ مُشْتَرَكٌ لِلْحَيْضِ وَالطُّهْرِ. وَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: إِنَّهُ مَوْضُوعٌ لِلِانْتِقَالِ مِنَ الطُّهْرِ إِلَى الْحَيْضِ، أَوْ مِنَ الْحَيْضِ إِلَى الطُّهْرِ، فَلِذَلِكَ إِذَا أُطْلِقَ عَلَى الطُّهْرِ أَوْ عَلَى الْحَيْضِ كَانَ إِطْلَاقًا عَلَى أَحَدِ طَرَفَيْهِ، وَتَبِعَهُ الرَّاغِبُ
عمار صاحب نے علامہ جصاص رازی کی تحقیق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ علامہ جصاص کے نزدیک بھی یہ لفظ “قروٰء” محتمل المعانی ہونے کی بنا پر “مجمل مفتقر الی البیان” کی ایک صورت ہے (حنفی اصولوں کی رو سے مشترک اسی قسم کی ایک صورت ہے)۔ چنانچہ الفصول میں آپ لکھتے ہیں کہ وہ امور جن میں خبر واحد سے عام حکم کی تخصیص جائز ہے، ان صورتوں میں آپ ایک یہ بتاتے ہیں:
وَنَحْنُ نُبَيِّنُ الْآنَ سَائِرَ الْوُجُوهِ الَّتِي جَوَّزْنَا تَخْصِيصَهَا بِخَبَرِ الْوَاحِدِ عَلَى حَسَبِ مَا تَقَدَّمَ مِنَّا الْقَوْلُ فِيهِ۔ فَنَقُولُ: إنَّ اللَّفْظَ إذَا كَانَ مُحْتَمِلًا لِلْمَعَانِي فَخَبَرُ الْوَاحِدِ مَقْبُولٌ فِي إثْبَاتِ الْمُرَادِ بِهِ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الِاحْتِمَالَ يَمْنَعُ وُقُوعَ الْعِلْمِ بِالْمُرَادِ وَيَجْعَلُهُ مَوْقُوفَ الْحُكْمِ عَلَى الْبَيَانِ فَاحْتَجْنَا إنْ نَسْتَدِلَّ عَلَيْهِ بِغَيْرِهِ كَسَائِرِ الْأَشْيَاءِ الَّتِي لَا نَصَّ فِيهَا فَيُقْبَلُ خَبَرُ الْوَاحِدِ فِي إثْبَاتِ حُكْمِهَا وَذَلِكَ نَحْوُ قَوْله تَعَالَى: {ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ} [البقرة: 228] فِيهِ احْتِمَالٌ لِلْحَيْضِ وَالطُّهْرِ جَمِيعًا، وَرَوَى ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ قَالَ: «طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ» وَكَانَ مَقْبُولًا لِأَنَّهُ بَيَّنَ مُرَادَ الْآيَةِ (الْمُفْتَقِرَةِ إلَى) الْبَيَانِ وَبِمِثْلِ هَذَا قَبِلْنَا خَبَرَ الْوَاحِدِ فِي بَيَانِ الْأَلْفَاظِ الْمُجْمَلَةِ الْمُفْتَقِرَةِ إلَى الْبَيَانِ
چنانچہ علامہ جصاص بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ لفظ لغوی طور پر اصلا حیض کے معنی میں ہے (اگر ایسا ہوتا تو یہ لفظ “ظاھر” یا “نص” کے قبیل سے ہوتا اور امام جصاص اسے حدیث سے تخصیص کے تحت نہ لاتے) بلکہ یہ حیض و طہر دونوں کا احتمال رکھتا ہے اور اس مجمل لفظ کے ایک معنی کو ترجیح دینے کی وجہ ان کے نزدیک بعض روایات ہیں اور اس میں کوئی بحث نہیں کہ دو معانی میں سے کسی ایک کو کسی قرینے کی بنا پر ترجیح دی جاسکتی ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لفظ مشترک نہیں۔
کمنت کیجے