ابوبکر المشرقی
قرآن کریم میں نکاح کی نسبت صرف لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے
و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی۔۔ الخ ترجمہ: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں ، دو دو ، تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرط عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں ۔ یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو ” (القرآن)
اس ایت کریمہ میں نکاح کی نسبت لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے (کیونکہ لڑکی کی رضا و اجازت لازمی ہے) لہٰذا پسند کی شادی (Love Marriage) قرآن کی رو سے ہر لڑکے لڑکی کا حق بلکہ فرض ہے کیونکہ یہ شرعی امر ہے۔ قرآن مجید میں درج ذیل مقامات پر بھی نکاح کی نسبت لڑکے لڑکی کی طرف کی گئی ہے:
1. وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں‘‘
(النساء، 4: 22)
2. وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ.
’اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں۔‘‘
(البقره، 2: 221)
3. فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهٗ مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ط فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّـآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.
’’پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہء زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لیے بیان فرماتا ہے۔‘‘
(البقرہ، 2: 230)
یہاں بھی نکاح کرنے کی نسبت عورت کی طرف ہے، ولی کی طرف نہیں۔
4. فَلاَ تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ.
’’تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘
(البقره، 2: 232)
یہاں بھی طلاق یافتہ عورتوں کو پسند کے خاوند سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
5. فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
’’جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں۔‘‘
(البقره، 2: 234)
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر تستاذن. قالو! یارسول الله ﷺ کیف اذنها قال ان تسکت.
’’غیر شادی شدہ لڑکی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرامl نے کہا: یارسول اللہ ﷺ اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ (وہ شرماتی ہے) فرمایا: اس کی خاموشی بھی اجازت ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)
ملا علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
فذھبوا جمعیا الی انه لا یجوز تزویج البالغة العاقلة دون اذنها.
’’علماء اس طرح گئے ہیں کہ عاقل بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔‘‘
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا:
فخیرها النبي (ﷺ)
سو رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکی کو (قبول یا رد کرنے کا اختیار دے دیا) (ابوداؤد)
ایسا ہی واقعہ خنساء بنت خذام سے پیش آیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا نکاح رد کردیا۔ (بخاری)
اب یہ بات واضح ہو گئی کہ عاقل بالغ لڑکا لڑکی خود مختار ہیں اور اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں اور کوئی ان پر جبر نہیں کر سکتا
عاقل بالغ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے اور قرآن و حدیث کے تمام دلائل اس کی تائید کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح باطل ہے، ان کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجر وا فالسلطان ولی من لاولی له.
’’جو عورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کرلی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘
(احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجه، دارمی)
یہ مذکورہ حدیث ان حضرات کی سب سے مضبوط دلیل ہے مگر غور کریں تو اس سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا نکاح باطل ہے، یہ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے جس کے ہم قائل ہیں مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی ہوجاتا ہے، اسی لئے فرمایا کہ اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر کے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی، نہ نکاح ہوتا، نہ حق مہر لازم ہوتا۔
ہمارے نزدیک ۔ بلکہ کامن سینس کی بات ہے کہ “نہی ، عدم مشروعیت پر دلالت نہیں کرتی”
یعنی شریعت میں کسی چیز کے نا کرنے کا حکم اس حکم کو واقع ہونے سے نہیں روک سکتا ۔
مثلاً کسی آدمی کو تلوار سے قتل کرنے سے روکا گیا ہے تو کیا اگلا بندہ تلوار سے قتل ہی نہیں ہوتا ؟ ہو جاتا ہے
تین طلاق ایک ساتھ دینے سے منع کیا گیا ہے ، اگر کوئی دے دے تو واقع ہی نہیں ہوتیں ؟ ہو جاتی ہیں ۔
اسی طرح
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے سے روکا گیا ہے مگر اگر کر لیا جائے تو نکاح ہو جائے گا۔
(یہ تحریر نکاح سے پہلے ناجائز تعلقات کی حوصلہ افزائی کے لیے نہیں بلکہ ناگزیر صورت حال اور مجبوری کی حالت میں کیے جانے والے نکاح کے متعلق ہے)
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوبکر المشرقی صاحب ماہنامہ فکر بھاولپور کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ گونج اور نوائے وقت کے مستقل لکھاری ہیں ۔ آپ کی دلچسپی کا میدان علم کلام ہے۔
کمنت کیجے