ڈاکٹر ساجد علی
علامہ اقبال کے متعلق ایک بات کئی جگہ پڑھنے کو ملی ہے کہ جب انھوں نے اپنی نظم “شکوہ” تحریر کی تو مولویوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ چنانچہ مولویوں کو مطمئن کرنے کی خاطر اقبال کو جواب شکوہ لکھنا پڑا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سارا قصہ کہانی مبنی بر حققیت نہیں ہے۔
یہ بات درست ہے کہ خدا سے براہ راست شکوہ کرنا اردو شاعری میں نئی اور انوکھی بات تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اس نظم کو مکمل رازداری میں رکھا تھا۔ انجمن کے جلسے میں روایت کے مطابق نظم چھپوا کر نہیں لائے تھے کہ جس کی فروخت سے چندہ اکٹھا کیا جاتا۔ کئی ہزار افراد کے مجمع میں یہ نظم سنائی گئی جس پر سامعین کی طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔
چونکہ نئی بات تھی اس لیے یقیناً کچھ لوگ معترض بھی ہوئے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کسی غیر معروف ملائے مکتبی نے فتویٰ بھی جڑ دیا ہو لیکن اس کے مقابلے میں نظم کی تعریف و توصیف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ کسی چھوٹی موٹی مخالفت کا اقبال کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔
مثلاً، شکوہ کی اشاعت کے چند مہینے بعد ہی 29 ستمبر کو اٹلی نے طرابلس پر حملہ کر دیا۔ 26 اکتوبر کو بادشاہی مسجد میں طرابلس کے لییے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے جلسہ ہوا۔ ہزاروں کا مجمع تھا جس کے سامنے اقبال نے اپنی وہ نظم سنائی جو اب بانگ درا بحضور رسالت مآبﷺ کے عنوان سے موجود ہے۔ جب اقبال نے آخری شعر پڑھا:
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
تو سارا مجمع رو رہا تھا اور ہزاروں کا چندہ جمع ہو گیا تھا۔
اگلے برس سنہ 1912ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے اپنی نظم “شمع اور شاعر” دو نشستوں میں سنائی تھی۔ یہ نظم کئی ہزار کی تعداد میں چھاپی گئی تھی۔ نظم سنانے سے پہلے اقبال نے کہا:
“جو نظم پچھلے سال لکھی تھی وہ شکوہ تھا اور اس میں خدا سے شکایت تھی۔ اور بعض لوگوں نے اسے برا خیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ میں نے بھی یہی خیال کیا لیکن وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف کے میرے پاس آ چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو کہ لوگوں کے دلوں میں تھی وہ ظاہر کر دی گئی لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ میرا شکوہ بھی خدا کو پسند آیا۔
اسی سال موچی دروازے کے جلسے میں “اقبال نے “جواب شکوہ” پڑھنا شروع کی۔ ایک ایک صفحہ بکنے لگا۔ قیمتیں پچاس روپیہ فی صفحہ تک پہنچیں۔ وطن والے مولوی انشاء اللہ خان نے دو صفحے ایک سو دس روپے میں خریدے۔( یہ تمام معلومات خرم علی شفیق کی کتاب “اقبال: تشکیلی دور سے ماخوذ ہیں۔)
اقبال نے اگر جواب شکوہ لکھا تو اس کا سبب مولویوں کا خوف نہ تھا بلکہ شکوہ لکھتے وقت اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس نے جواب بھی لکھنا ہے۔ اب اگر جواب شکوہ زیادہ کامیاب نہیں تو تاریخ ادب اس کا جواب یہ دیتی ہے کہ شاید ہی کوئی فنکار ایسا ہو جو دوسری کاوش میں پہلی سے آگے نکلنے میں کامیاب ہوا ہو۔ شاید اس میں آورد کا پہلو کچھ زیادہ ہو جاتا ہے۔ اقبال اپنی زندگی میں کبھی کسی مولوی سے مرعوب نہیں ہوا تھا۔ “بانگ درا” کی نظم ‘زہد اور رندی’ سے لے کر “ارمغان حجاز” میں شامل قطعہ ‘حسین احمد’ اس امر کا بین ثبوت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ساجد علی صاحب پنچاب یونیورسٹی کے شعبہء فلسفہ میں تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے