Home » مذہب اور سائنس کا باہمی تعلق : قسط اول
تاریخ / جغرافیہ سائنس کلام

مذہب اور سائنس کا باہمی تعلق : قسط اول

ڈاکٹر محمد رحمان 

“مذہب عقائد کا مجموعہ ہے جن پر اندھا یقین کیا جاتا ہے جبکہ سائنس حقائق پر مشتمل علم کا نام ہے اور ہم حقائق پر یقین رکھتے ہیں”۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے لادین طبقات بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں اور یہیں سے مذہب اور سائنس کی نوعیت اور باہمی تعلق کی بحث کا آغاز ہوتا ہے۔اس بحث میں سب بنیادی سوال یہی ہے کہ یہ دعوی کس حد تک درست ہے کہ سائنس کے نام پر پیش کیا گیا سارا کا سارا علم حقائق پر مشتمل ہے جبکہ مذہب عقائد پر اندھا یقین چاہتا ہے۔ اسی طرح ایک اور بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ سائنس اور مذہب کا باہمی تعلق کیسا ہے؟ انیس سو اٹھاسی میں Ian        Barbour نے مذہب اور سائنس کے درمیان چار طرح کے تعلقات کی نشاندھی کی۔

1) باہم برسر پیکار
2) لاتعلق
3) محو گفتگو
4) یکجائیت

باہم برسر پیکار
الحاد اپنی سرشت میں غیر عقلی اور غیر علمی پوزیشن پر ہے یہی وجہ ہے کہ الحاد سائنس کے پیچھے چھپ کر خود کو عقلی اور علمی ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ موجودہ دور میں سائنس کو عقل وشعور کا متبادل سمجھا جاتا ہے چنانچہ الحاد کے مبلغین کو لگتا ہے کہ مذہب کو سائنس مخالف ثابت کر کے الحاد علمی اور عقلی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رچرڈ ڈاکنز جیسے الحادی مبلغین اور انکے پیروکار زور وشور سے مذہب اور سائنس میں تصادم ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف مذہب پسندوں میں کچھ ایسے فرقے موجود ہیں جنکے بزرگوں کے اقوال (عیسائیت میں زمین کی شکل اور عمر اور مسلمانوں میں زمین کی حرکت وغیرہ) جدید سائنس سے متصادم ہونے کی وجہ سے یہ طبقات سائنس کا زور وشور سے انکار کرتے ہیں ۔ مذہب پسندوں کا یہ رویہ الحاد کو ایندھن فراہم کرتا ہے جسکی وجہ سے اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ مذہب اور سائنس باہم متصادم ہیں۔ بنیادی طور پر تین چیزیں اس تاثر کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔
1) مذہبی حلقوں کے سائنس دانوں پر کیے گئے ظلم کی سچی جھوٹی، داستانیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سائنس دانوں نے کوئی ایسی بات ایجاد کی جو مذہب مخالف تھی اس لیے ان پر ظلم کیا گیا۔
2) مذہب یا سائنس کی غلط تشریحات سے انہیں ایک دوسرے کے متضاد ثابت کرنا۔
3) مذہب اور سائنس دونوں کی مستند تعلیمات کا بظاہر متضاد نظر آنا۔

مذہبی حلقوں کے سائنس دانوں پر کیے گئے ظلم کی داستانیں
مذہب اور سائنس کے تصادم کی سب سے مشہور داستان چرچ کا گلیلیو پر کیا گیا ظلم ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گلیلیو کے ساتھ جو کیا گیا وہ غلط تھا لیکن ایسا کیوں کیا گیا ،اس سوال کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ۔ عمومی تاثر کے برعکس گلیلیو کو سزا اس وجہ سے نہیں دی گئی کہ اس نے کوئی ایسا نظریہ پیش کر دیا تھا جو بائبل یا مذہب سے متصادم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گلیلیو چرچ کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ زمین کی حرکت کا نظریہ گلیلیو دس سال پہلے ہی پیش کر چکا تھا۔گلیلیو کو چرچ میں پادری کے چہیتے Giovanni Ciampoli کی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے چرچ نے نہ صرف اس نظریے کی اشاعت کی منظوری دی بلکہ گلیلیو ان سالوں میں چرچ کا حصہ بھی رہا۔ گلیلیو اس بات کا قائل تھا کہ بائبل کے ایسے جملے، جہاں سائنس اور بائبل متصادم نظر آتے ہیں، کی تشریح لغوی اعتبار سے کرنے کے بجائے تمثیلی طور پر کرنی چاہیے اس طرح سائنس اور بائبل میں متصادم نظر آنے والی باتوں میں مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے ۔
عام حالات میں چرچ کا ردعمل اس معاملے میں شاید اتنی شدت اختیار نہ کرتا لیکن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے کی آپسی جنگ نے اس معاملے کو پیچیدہ بنا دیا۔ گلیلیو کا بائبل کی تشریح کا پیش کردہ انداز نیا نہیں تھا لیکن چرچ اس معاملے میں چشم پوشی اس لیے نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ چیز پروٹیسٹنٹ فرقے کے لیے نئی راہیں ہموار کرتی۔ چرچ کا نکتہ نظر اس معاملے میں بڑا واضح تھا۔ چرچ کے لیے بائبل کی تشریح کا کوئی بھی نیا انداز بدعت کے زمرے میں آتا تھا اور ہر بدعت غلط تھی۔ یہی وہ نکتہ تھا جسکی بنا پر کیتھولک چرچ نے پروٹیسٹنٹ فرقے کی راہیں مسدود کر رکھیں تھیں ۔ چرچ اگر گلیلیو کے پیش کردہ بائبل کی تشریح کے انداز پر چشم پوشی کرتا تو بدعت کا رستہ کھلتا جس کا فائدہ پروٹیسٹنٹ فرقے کو ہوتا۔
گلیلیو کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس نے ایک خطاب کے دوران کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اس نے پادری کو بے وقوف کہا ہے۔ یہ بات پادری کی انا پر ناگوار گزری اور اس نے بائبل کی تشریح کے معاملے کو بنیاد بنا کر گلیلیو کے ساتھ وہ کیا جو نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اس بارے میں زیادہ تفصیلات آپ ایلیسٹر مک گراتھ کی کتاب Religion and Science میں دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک اور نسبتاً کم معروف واقعہ برونو کا ہے جہاں چرچ نے برونو کو زندہ جلانے کا حکم دیا تھا۔ اپنی سرشت میں انتہائی ظالمانہ سزا ہونے کے باوجود اس واقعہ کی وجہ سائنس دشمنی نہیں بلکہ برونو کے مذہبی شخصیات پر براہ راست حملے تھے ۔ برونو نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے نعوذ بااللہ جادوگر جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔
کہتے ہیں کہ جب آپ کے پاس صرف ہتھوڑا موجود ہو تو آپ کو ہر مسلہ کیل نظر آتا ہے ۔ چرچ نے بھی ہر مسلے کو کیل سمجھ کر ٹھوکنے میں ہی عافیت جانی لیکن چرچ کے اس ظالمانہ طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب مخالف قوتوں کو پنپنے کا موقع ملا۔ مسلم معاشرے میں بھی مذہب مخالف قوتیں اسی طرح کے واقعات کی متلاشی ہیں اور وقتاً فوقتاً تاریخ سے کچھ خود ساختہ مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں کہ فلاں مسلمان سائنسدان کا فلاں حشر کیا گیا اور فلاں کے ساتھ فلاں رویہ رکھا گیا۔ گلیلیو والے واقعے کی طرح مسلمان سائنسدانوں کے بارے میں دی گئی زیادہ تر مثالوں کی حقیقت یہی ہے کہ وہ لوگ سیاست کی نذر ہوئے۔
اس بحث سے قطع نظر کہ گلیلیو اور اس طرح کے باقی واقعات سچ تھے یا نہیں ، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ان واقعات کو واقعی سائنس اور مذہب میں تصادم قرار دیا جا سکتا ہے ؟ آپ کے پاس کوئی پیمانہ ایسا نہیں کہ ان واقعات کی اصل جان سکیں اور نہ ہی ان واقعات کے سچ ثابت ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے متصادم ہیں ۔

مذہبی یا سائنسی تعلیمات کی غلط تشریح
گلیلیو جیسے واقعات کے بعد دوسری چیز جو مذہب اور سائنس کے تصادم کا تاثر پیدا کرتی ہے وہ ہے سائنس یا مذہبی علوم کی غلط تشریحات ۔ ہزاروں مثالیں ایسی ہیں جہاں مذہبی کتب کے ایک ہی جملے کو پڑھنے والے اس کی تشریح پر اتفاق نہیں کر پاتے اور ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں ایسے میں کچھ بعید نہیں کہ ایک مذہبی کتب کی کسی خاص تشریح کے قائلین کو سائنسی تعلیمات مذہب سے متصادم نظر آئیں۔ دوسری طرف،اگرچہ سائنس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس پر سب سائنس دان اتفاق کرتے ہیں اور مستند سائنس کے لیے یہ کسی حد تک سچ بھی ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر وہ چیز جسے سائنس کے لبادے میں پیش کر دیا جائے وہ ٹھیک ہی ہو گی۔ عوام کی اکثریت سائنس دانوں کے ذاتی خیالات کو بھی سائنس ہی سمجھتی ہے ۔ اس طرح بہت ساری مثالیں ایسی مل سکتی ہیں جہاں مفروضہ جاتی سائنس اور سائنس دانوں کے ذاتی خیالات پر مبنی تعلیمات مذہبی تعلیمات سے بظاہر متصادم نظر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک پر سستی شہرت کے بھوکے دانشور کی وال پر آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک ایسی مثال نظر آئے گی جہاں مذہبی تعلیمات یا سائنسی نظریات کی تحریف شدہ تشریح کے ذریعے دونوں میں زبردستی تصادم ثابت کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سائنس اور مذہب کے کسی چیز پر تصادم کا فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں۔ حتیٰ کہ ایسے معاملات جہاں مستند سائنسی نظریات اور مذہب کی مستند تعلیمات آمنے سامنے نظر آئیں وہاں پر بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

مذہب اور سائنس کی مستند تعلیمات کا بظاہر متضاد نظر آنا

سائنس اور مذہب کو آمنے سامنے دیکھنے کے خواہش مند بہت جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔ زیادہ تر معاملات میں مذہب اور سائنس ایک دوسرے سے الگ الگ راستوں پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں ۔ بہت کم معاملات ایسے ہیں جہاں دونوں کے راستے باہم ملتے ہیں ۔ یہ معاملات زیادہ تر فطری مظاہر کی تفصیلات کے بارے میں ہیں جیسا کہ کائنات اور زندگی کی تخلیق کے مراحل وغیرہ ۔الہامی کتابوں میں ان مظاہر کو بیان کرتے ہوئے مذہب کا مطمہ نظر یہ نہیں کہ تخلیق کے مراحل بیان کئے جائیں بلکہ یہ کہ خالق کی موجودگی پر دلیل دی جائے۔ الہامی کتابوں میں فطری مظاہر کا بیان ایسے ہے جیسے ایک تصویر کا خاکہ بنا دیا جائے جسکی لکیریں بالکل واضح ہوں لیکن رنگ کا انتخاب دیکھنے والا اپنی مرضی سے کر سکے۔ الہامی کتابوں کے بنائے گئے فطری مظاہر کے خاکے کی تفصیلات اس دور میں رائج سائنسی علوم سے آتی ہیں ۔ جب انسان اپنے روزمرہ مشاہدات کی بنا پر سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اسکے گرد گردش کرتا ہے تب الہامی کتابوں کے بنائے گئے خاکے میں رنگ بھرنے والوں نے زمین کو ساکن اور سورج کو زمین کے گرد گردش کرتے دکھایا ۔ بدقسمتی سے رنگ بھرنے والے اس چیز سے آشنا نہیں تھے کہ مستقبل میں نئے مشاہدات ان رائج علوم میں تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے بہترین مثال زمین کی عمر کے بارے میں پیش کیا گیا حساب کتاب ہے۔ بائبل میں کہیں بھی زمین کی عمر براہِ راست چھ یا سات ہزار سال درج نہیں لیکن بائبل کے چند جملوں سے اس وقت کی سمجھ بوجھ کے مطابق بلواسطہ طور پر حساب لگا کر یہ اخذ کیا گیا کہ زمین کی عمر چھ یا سات ہزار سال ہے۔ ایک عام کرسچن کے لیے ایک انسان کا کیا گیا حساب ایک انسان کے الفاظ نہیں بلکہ خدا کے الفاظ ہیں ۔ اسکے لئے زمین کی عمر کڑوروں سال ماننا خدا کے علم کو غلط ماننا ہے ۔ یوں وہ ایک پکڈنڈی پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف مستند سائنس ہے اور دوسری طرف مذہب ۔ یہی حال زمین کی حرکت، زمین کی ساخت اور بگ بینگ تھیوری کے ساتھ ہے۔ دیکھا جائے تو بگ بینگ تھیوری نے کلام آرگومنٹ کو ایک نئی چمک عطا کی ہے لیکن کچھ روایتی مذہبی حلقے بگ بینگ تھیوری کو مذہب مخالف سمجھ کر اسکا انکار کر رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ انکے پسندیدہ لکھاریوں نے کائنات کی تخلیق کے الہامی خاکے میں جو رنگ بھرے ہیں وہ بگ بینگ تھیوری کے مطابق نہیں ۔
یاد رہے کہ سائنسی نظریات ہوں یا مذہبی تعلیمات ، انکی تشریح کے لیے ایک خاص علمی پس منظر چاہیے ہوتا ہے۔ کسی نظریے یا تعلیم کی تشریح تب تک ہی درست رہتی ہے جب تک وہ علمی پس منظر درست رہتا ہے ۔ ایک نظریہ پس منظر کا محتاج ہے اور پس منظر کی درستگی نظریہ کی مرہون منت، جو نئی معلومات کی بنا پر مکمل طور پر غلط ہو سکتا ہے چنانچہ سائنسی نظریات ہوں یا قدرتی مظاہر کے بارے میں مذہبی تعلیمات دونوں کی تشریحات میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ مذہب پسندوں میں کچھ طبقات ایسے ہیں جو کئی صدیاں پہلے کے تعلیمی پس منظر میں کی گئی تشریحات کے قائل ہیں اور فطری مظاہر کے بارے میں مذہبی تعلیمات کو موجودہ علمی پس منظر میں دیکھنا نہیں چاہتے جسکا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہب کی یہ تشریحات سائنس سے متصادم نظر آتی ہیں ۔ دوسری طرف سائنسی علوم میں ایسی معلومات ہو سکتی ہیں جو موجودہ علمی پس منظر کے حساب سے مذہب سے متصادم ہوں لیکن پیراڈایم شفٹنگ کے بعد جب انہیں ایک نئے زاویے سے دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس میں مطابقت نظر آئے۔
اس ضمن میں دوسرا زاویہ یہ ہے کہ ایسے معاملات جن کا براہِ راست مشاہدہ ممکن نہیں وہاں سائنس اور مذہب ماڈلز کا سہارا لے کر صورتحال واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ماڈلز کے وضع کرنے میں غیر ضروری معلومات سے چھٹکارا حاصل کر کے ایسی زبان اور تصورات کا سہارا لیا جاتا ہے جو آسانی سے سمجھ آ سکیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ماڈلز کے ذریعے جس چیز کو بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ حقیقتاً ہوبہو ویسی ہی ہو جیسی اس ماڈل میں بیان کی گئی ہے ۔چنانچہ ان تفصیلات کا ایک دوسرے کے مطابق نہ آنا اس بات کی دلیل نہیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک لازمی طور پر غلط ہے ۔
ساری گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ بلوغت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے آپ کو یہی لگے گا کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے متصادم ہیں لیکن جیسے جیسے آپ یہ سیڑھیاں چڑھتے جائیں گے آپ کو سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کے نئے زاویے نظر آنا شروع ہو جائیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر محمد رحمان نے یونیورسٹی آف کانٹیبریا ، سپین سے پارٹیکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر علمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں