Home » مذہب اور سائنس
سائنس شخصیات وافکار کلام

مذہب اور سائنس

محمد حسنین اشرف

اسٹفین جے گولڈ نے مذہب اور سائنس کی ڈومین سے متعلق کہا تھا کہ یہ ایسے دو میدان ہیں جو آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں۔ مذہب کی کچھ اپنی سچائیاں ہیں جنہیں وہ اپنے انداز میں بیان کرتا ہے اور سائنس کی کچھ اپنی سچائیاں ہیں جنہیں وہ اپنے انداز میں بیان کرتا ہے۔ اس پرپوزل سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مذہب کا اپنا میدان عمل ہے اسے سائنس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور سائنس کا اپنا میدان ہے اسے مذہب میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یوں سائنس و مذہب ایک سماج میں ہنسی خوشی رہ سکتے ہیں۔ دو ہزار دو میں ، اس بحث کے اٹھائے جانے سے لے کرہمارے ہاں بھی اکثر لوگ یہ حل پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حل بہ ظاہر بہت صاف ستھرا بھی دکھائی دیتا ہے۔

کیون پاڈیان نے دو ہزار اٹھارہ میں اس مسئلے کی مزید تنقیح کی اور اسٹیفن گولڈ کے اس بہت واضح دکھائی دینے والے حل میں ایک مزید شے کو شامل کیا۔

پاڈیان نے یہ اضافہ کیا کہ کسی بھی سماج میں دو نہیں تین ڈومینز ہوتی ہیں۔ ایک مذہب کی، ایک سائنس کی اور تیسری سیکولر۔ یہاں لفظ سیکولر سے متوحش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس کی وضاحت اگلی چند سطروں میں موجود ہے۔پاڈیان یہ کہتا ہے کہ سیکولر ڈومین وہ ہوتی ہے جہاں نہ تو سائنس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی مذہب کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو مستقل انفارم کرے یاروزمرہ میں مستقل مداخلت کرے۔ وہاں سائنس اور مذہب دنوں کی مداخلت کے بغیر معاملات چل جاتے ہیں الا یہ کہ آپ کسی تھیاکریسی (مذہبی ریاست:ایران) میں رہتے ہوں۔ اس کے لیے وہ مثالیں دیتا ہے کہ جیسے مثال کے طور پر ٹریفک کےقوانین، بچوں کو کس اسکول میں پڑھانا ہے، ووٹ کس کو دینا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب معاملات کسی بھی سماج کی سیکولر ڈومین سے متعلق ہوتے ہیں، اس میں بلاوجہ کی سائنسی یا مذہبی مداخلت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیون پاڈیان کے مطابق کسی بھی سماج کی زندگی کا نوے فیصدی حصہ اسی قسم کے سیکولر معاملات پر مشتمل ہوتا ہے جہاں مذہب یا سائنس کو overlapنہیں کرتے اور نہ انہیں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں مزید یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ سیکولر کی اس ڈومین میں، معاملات سماج کے عرف سے پیدا ہوتے ہیں جو کسی بھی سماج کے تہذیبی پس منظر سے پیدا ہوتا ہے۔ وہاں ان معاملات کو اسی عرف پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ ہمارے اندر مشنری رویہ اس قدر کوٹ کوٹ کر داخل کیا جاچکا ہے جو ہمیں ہر جگہ اصلاح گھسانے اور ان ڈومینز کو اوورلیپ کرانے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ہم، متعدد شناختوں کوان کی اپنی ڈومین کے اندر قبول کرنا شروع کردیں تو شاید اس سے ہمیں کچھ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

درج ذیل تصویر کیون کے ہی ایک پیپر سے لی گئی ہے جو دکھاتی ہے کہ کیسے مذہب اور سائنس دو مختلف ڈومین ہیں اور اس میں سیکولریٹی ایک سماج کا حصہ کیسے ہوتی ہے۔

برصغیر میں تھیاکریسی نہ ہونے کے باوجود مذہب کا دائرہ کار پھیل کر سائنس اور سیکولر دونوں کے خانوں میں داخل ہوگیا ہے۔ اب چونکہ مذہبی فکر شکست و ریخت کا شکار ہے تو ظاہر ہے اس تمام شکست و ریخت کا قصور وار انہی لوگوں کو ٹہرایا جائے گا جو ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔ ایک گروہ (مذہبی علما) کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں گھسنے سے یہی نقصان ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسنین اشرف جرمنی میں شعبہء فلسفہ و تاریخِ سائنس میں ایم اے کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں