Home » شیخ عبد السلام بھٹوی رح اور وحدت الوجود
شخصیات وافکار کلام

شیخ عبد السلام بھٹوی رح اور وحدت الوجود

دوست کا سوال ہے کہ کیا شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ وحدت الوجود کے قائل تھے؟

جواب: شیخ عبد السلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ اہل الحدیث کے جید علماء میں سے ہیں۔ ان کی تفسیر “تفسیر القرآن الکریم” معاصر تفاسیر میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ اس میں انہوں نے کافی کچھ نکتہ رسی کی ہے جو ان کے وسعت مطالعہ کی دلیل ہے۔ یہ تفسیر دار الاندلس لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ قرآن مجید کے سنجیدہ طلباء کو چاہیے کہ اسے اپنے مطالعہ میں ضرور رکھیں۔

ہر دور میں دین کا علم حاصل کرنے والوں میں اکثر وبیشتر طبقہ روایتی سوچ کا حامل ہوتا ہے جو لگی بندھی دینی تعبیر سے ہٹ کر سوچنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ایسے میں مروجہ مسلکی دینی تعبیر سے ہٹ کر کوئی گہری علمی نکتہ رسی کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اور یہاں سے ہی علم میں جمود پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات علماء کی کثیر تعداد تک کو کسی عالم کی گہری بات سمجھ میں کم ہی آ پاتی ہے۔ تاریخ میں ہر دور میں گہری سوجھ بوجھ رکھنے والے علماء کو اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حوالے سے آزمائش تو بہت معروف ہے کہ وقت کے بعض بڑے محدثین جیسا کہ امام ذہلی رحمہ اللہ وغیرہ ان کے کلام “ولفظی بالقرآن مخلوق” کو سمجھ نہ پائے اور اسے خلق قرآن کا عقیدہ بنا کر انہیں اس بدعت اور گمراہی سے رجوع پر مجبور کیا حالانکہ یہ خلق قرآن کا عقیدہ ہر گز نہ تھا۔ لیکن ہم آج یہ بات آسانی سے کر سکتے ہیں جبکہ اس وقت پورے خراسان میں سے ایک عالم کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ امام ذہلی رحمہ اللہ سے اختلاف کر کے امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ کھڑے ہوتے سوائے امام مسلم رحمہ اللہ کے کہ جو ان کی بھری مجلس سے اس وقت اٹھ کر چلے گئے تھے کہ جب امام ذہلی رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ جس نے بخاری رحمہ اللہ کے پاس جانا ہے تو وہ ہماری مجلس سے اٹھ جائے۔

شیخ عبد السلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ نے سورِۃ الحدید کی آیت “وھو معکم این ما کنتم” کی تفسیر میں لکھا ہے کہ سلف کا کہنا ہے کہ معیت سے مراد اللہ عزوجل کا اپنے علم، رویت اور قدرت کے ساتھ ہمارے ساتھ ہونا ہے جبکہ معیت علم، قدرت اور رویت کے علاوہ ایک مستقل صفت باری تعالی ہے۔ انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی طرف اس کی نسبت کی ہے کہ یہ حضرات بھی صفت معیت کے حقیقی معنی مراد لیتے تھے۔ ہماری رائے میں شیخ صاحب کی یہ تمام باتیں درست ہیں۔ یہ بھی کہ ان اہل علم نے معیت کو حقیقی معنی میں لیا ہے۔ اور یہاں معیت کی صفت سے مراد اس کا حقیقی معنی ہی ہے۔ اور یہ وحدت الوجود ہر گز نہیں ہے کہ ساتھ ہونے میں اور ہر جگہ موجود ہونے میں فرق ہے۔ ساتھ ہونے سے وحدت کیسے ثابت ہو سکتی ہے کہ یہ تو دوئی کا اعلان صریح ہے۔

ہم نے اپنی کتاب وجود باری تعالی کے آخری باب میں صفت معیت پر مستقل بحث کی ہے کہ اللہ عزوجل کی معیت سے مراد “معیت ذاتیہ فوقیہ” ہے یعنی یہ ایسی معیت ہے جو علو کی جہت سے ہے جیسا کہ سورج چاند کی معیت زمین پر بسنے والے انسانوں کے ساتھ۔ اصل میں محل اختلاف یہ ہے کہ سلفی اہل علم اللہ عزوجل کی صفات میں تاویل نہیں کرتے۔ لیکن یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جہاں وہ کھل کر تاویل کر جاتے ہیں یعنی اپنے اصول کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں حالانکہ اس اصولی خلاف ورزی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح بقیہ اسماء وصفات کو ان کے حقیقی معنی میں جاری کیا جائے گا، اسی طرح اللہ عزوجل کی صفت معیت کو بھی اس کے حقیقی معنی میں ہی جاری کیا جائے گا۔ تاویل کا مطلب ہے کہ پھر صفات میں کسی بھی جگہ تاویل کا رستہ کھول دیا جائے۔

دیکھیں، علم کثرت اقوال کا نام نہیں ہے۔ علم گہری سوجھ بوجھ کا نام ہے۔ ایک سلفی عالم دین کے ساتھ اسی موضوع پر بحث ہو گئی تو وہ سلف کے اقوال کی لائن لگانے لگ گئے کہ دیکھیں، سلف نے یہاں معیت سے مراد علم اور قدرت کی معیت مراد لی ہے نہ کہ ذات کی۔ میں نے صرف ایک سوال کیا تو اس کے جواب میں وہ خاموش ہو گئے۔ میں نے کہا کہ جس الوہی علم کی معیت ہمیں حاصل ہے، وہ علم ذات سے جدا کوئی مجرد علم ہے یا کسی ذات کی صفات ذاتیہ میں سے ہے۔ اب جسے یہ سوال سمجھ آ جائے گا، وہ خاموش ہو جائے گا۔ باقی بحث کرتے رہیں گے۔ تو جو سلف نے کہا تو یہ قول اس کے مخالف ہر گز نہیں ہے بلکہ اسی کی تاکید مزید ہے۔ اللہ عزوجل سمجھ عطافرمائے۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں