Home » حوادث لا اول لھا” کی معنویت پر تبصرہ”
اسلامی فکری روایت کلام

حوادث لا اول لھا” کی معنویت پر تبصرہ”

متکلمین اسلام کے مطابق عالم حادث ہے، یعنی یہ نہ تھا اور پھر ہوا۔ قدم عالم کے حامیین کا اس پر اعتراض تھا کہ اس نظرئیے کی رو سے اللہ کی قدرت کی تعطیل (suspension) لازم آتی ہے، یعنی پہلے وہ صرف بالقوۃ (potentially) خالق تھا اور پھر بالفعل (actually) خالق ہوا۔ اس بنا پر ان کا کہنا ہے کہ عالم کے بارے میں “حوادث لا اول لھا” (ایک کے بعد دوسرے حادث وجود کا لامتناہی سلسلہ)ماننا ہی درست عقیدہ ہے، یعنی اللہ تعالی ازل سے بلا تعطل ایک کے بعد دوسری مخلوق ظاہر کئے چلے جارہا ہے۔ ان دوستوں کے مطابق:
الف) نہ صرف یہ کہ “حوادث لا اول لھا ” ایک بامعنی جملہ ہے
ب) بلکہ اس سے قدم عالم بھی لازم نہیں آتا
ج) نیز نہ ہی اس سے کوئی محال امر لازم آتا ہے
چونکہ حوادث لا اول لھا سے مخلوق قدیم ہونے کا الزام آتا ہے، تو اس پر شیخ ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ نوع یا کلی کا خارج میں وجود نہیں ہوتا اس لئے “مجموعہ افراد کی ابتداء نہ ہونے” کا جو تصور ذہن میں ابھرتا ہے دراصل اس مجموعے کا کوئی خارجی وجود نہیں بلکہ یہ صرف ذہن کی پیداوار ہے، لہذا اس نظرئیے سے جو “قدم نوعی” ثابت ہوتا ہے اس سے قدم عالم لازم نہیں آتا۔

تبصرہ
یہاں ہم (الف) اور (ب) مقدمات پر بات کرتے ہیں، (ج) پر ہم پہلے بھی متعدد مرتبہ گفتگو کرچکے ہیں کہ حوادث لا اول لھا سے کئی طرح کے محال امور و تضادادت لازم آتے ہیں۔
“حوادث لا اول لھا” کا تصور ایک متضاد بات ہے جسے متعدد طرح سمجھایا جاتا ہے۔ حادث کا تصور دو امور سے عبارت ہے: ماقبل عدم اور پھر وجود، ان دو کے بغیر حادث کا تصور بنتا ہی نہیں۔ عدم کا معنی وجود کی نفی ہے، تو حادث دو امور سے عبارت ہوا: کسی وجود سے قبل اس وجود کا نہ ہونا۔ حدوث کا یہ تصور تبھی بامعنی ہے جب آپ یہ مانیں کہ کوئی “پہلا حادث” ہے تاکہ اس سے ماقبل عدم کہا جاسکے اور یوں حادث کا تصور ممکن ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ نے یہ کہا کہ ہر حادث کے پیچھے ایک حادث ہے تو آپ نے دو میں سے کوئی ایک بات کہی:
الف) اس ماقبل عدم کے ساتھ ایک وجود ہے، لیکن یہ محال ہے کیونکہ جب ایک ماقبل وجود موجود ہے تو عدم کا کوئی مطلب نہیں (عدم وجود کا نہ ہونا ہے، تو ماقبل عدم تب متحقق ہوگا جب وجود نہ ہو)
ب) اس ماقبل حادث سے قبل کوئی وجود نہیں بلکہ عدم ہے۔ اس صورت میں یہ حادث اول ہوگا اور اگر اس سے قبل بھی وجود ہے تو پھر پہلی صورت لوٹ آئی
گویا حادث لا اول لھا (being       without       beginning) بیک وقت عدم لا اول لھا (non-being       without       beginning) کا قول ہے اور یہ تضاد ہے (یعنی اگر حادث کا وجود لا اول لھا ہوگا تو عدم بھی لا اول لھا ہوگا، کہ ان دونوں کا تحقق ہوئے بغیر حادث کا تصور ہی نہیں بنتا)۔ حادث لا اول لھا کی بات حادث کے تصور ہی کی نفی ہے اس لئے کہ حادث لا اول لھا اصل میں “وجود لا اول لھا” کے ہم معنی ہے (کہ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر وجود سے متصل ایک اور وجود ہے اور سلسلہ انفرادی وجود کا کوئی آغاز نہیں) اور “وجود لا اول لھا” مسبوق بالعدمیت کی نفی ہے۔ پس یہ نظریہ خود اپنی نفی (oxymoron) ہے۔ مخلوق کو حادث کہنا تبھی بامعنی ہے جب یہ کہا جائے کہ اس کی ابتدا ہے۔ الغرض یہ دو متضاد تصورات کو جمع کرکے ایک بامعنی تصور بنانے کی کوشش بن جاتی ہے۔
اس کے جواب میں یہ کہنا کہ مخلوق کا ہر فرد چونکہ حادث ہے اور “نوع مخلوق کے وجود” کا کوئی خارجی وجود نہیں، یہ اس تضاد کو حل نہیں کرتا کیونکہ تضاد “ہمہ وقت وجود” کے دعوے سے پیدا ہورہا ہے جسے یوں دیکھا جاسکتا ہے:

الف موجود ہے، اس سے متصل الف کا ابو ب موجود ہے، ب کا ابو ج موجود ہے، ج کا ابو د موجود ہے، ۔۔۔ (اور یہ سلسلہ بدون ابتدا چل رہا ہے)

بتائیے اس میں “ماقبل عدم” کہاں ہے؟ کیا ایسا ہوا کہ جب کوئی نہ کوئی مخلوق خارج میں موجود نہ ہو؟ ہرگز نہیں، اسے ہی وجود لا اول لھا کہتے ہیں اور یہ عالم کو قدیم کہنا بن جاتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جسے “مخلوق بطور نوع” کہا جارہا ہے وہ اس کے ہر ہر فرد سے خارج میں متحقق ہوتی ہے، یعنی الف بھی مخلوق ہے، ب بھی مخلوق ہے، ج بھی اور د بھی وغیرہ، چاہے یہ سب الگ الگ پائی جائیں یا ایک ساتھ، اور خارج میں اس کے وجود نہ ہونے کا کوئی مطلب نہیں جبکہ مخلوق کا کم از کم ایک فرد خارج میں بلا تعطل موجود ہوتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے درج بالا کو یوں لکھئے:

مخلوق موجود ہے، اس سے متصل مخلوق موجود ہے، اس سے متصل مخلوق موجود ہے، ۔۔۔ (اور یہ سلسلہ بدون ابتدا چل رہا ہے)

اس مقام پر شیخ ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ افراد کے اس مجموعے سے جو ایک ایسا “کلی” (universal) وجود متصور ہورہا ہے جس کی ابتدا نہیں تو یہ صرف ذہنی وجود ہے جس کا خارج میں کوئی تحقق نہیں۔ تاہم شیخ کا یہ کہنا کہ قدم نوعی سے عالم (ما سواء اللہ) کا قدیم ہونا لازم نہیں آتا، یہ قابل فہم گفتگو معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ تسلسل مخلوق کا قول ہےیعنی وہ صاف طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ مخلوق ہمیشہ سے اللہ کے ساتھ ہے ۔ اسی بنا پر محققین کا کہنا ہے کہ شیخ دراصل عالم کے عدم سے تخلیق ہونے (creation       ex nihilo) کے نہیں بلکہ مخلوق کے مخلوق سے تخلیق ہونے (creation       ex creatione) کے قائل ہیں۔

“خارج میں نوع کا وجود نہیں ہوتا”، شیخ کا یہ دعوی جس نامینل اسٹ فلسفے پر مبنی ہے، اس پر ان شاء اللہ الگ سے بات کریں گے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں