Home » کیا امام رازی فلاسفہ کی طرح عالم کے احتیاج کی بنیاد “حدوث” نہیں “امکان” کہتے ہیں ؟
فلسفہ کلام

کیا امام رازی فلاسفہ کی طرح عالم کے احتیاج کی بنیاد “حدوث” نہیں “امکان” کہتے ہیں ؟

امام رازی (م 1210 ء) کی شخصیت اس حوالے سے دلچسپ ہے کہ قدم عالم کے حامیین بھی ان پر اعتراض کے لئے انہی کی کتب میں مذکور دلائل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آپ کا طریقہ یہ ہے کہ مسائل کلام پر آپ نے بہت زیادہ تفصیل سے لکھا ہے اور آپ نہ صرف وہ اعتراضات نقل کرتے ہیں جو متکلمین کے موقف پر پہلے سے وارد شدہ ہوں بلکہ مخالف کی طرف سے ان کے مذھب کے مطابق کئی دلائل خود سے سوچ کر بھی لکھتے اور ان کا جواب دیتے ہیں۔ مثلا اگر آپ نھایۃ العقول میں حدوث عالم کی بحث پڑھیں تو یہ مقدمہ آپ نے 3 طریقوں یا مناھج سے ثابت کیا ہے۔ پہلے منھج پر بحث تقریبا 121 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جس کا سٹرکچر کچھ یہ ہے:

  • 6 صفحات، اپنے مقدمات کی دلیل کا بیان
  • 63 صفحات، ہر ہر مقدمے پر فلاسفہ کے قول کے مطابق قدم عالم کے قائلین کے اعتراضات و شبہات کا بیان
  • 52 صفحات، ان اعتراضات و شبہات کا جواب

خواجہ طوسی اسماعیلی (م 1274 ء) امام رازی کے شارح اور قدم عالم کے قائلین میں سے ہیں اور قدم عالم والوں کی جانب سے جو دلائل امام صاحب نے نقل کئے ہیں وہ انہیں لے لیتے ہیں۔ ہمارے دور کے بعض شیعہ محققین جو قدم عالم کے قائل ہیں وہ خواجہ طوسی کی کتاب سے ان دلائل کو لیتے ہیں لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ امام رازی نے یہ سب دلائل نھایۃ العقول، مطالب العالیۃ نیز الاربعین وغیرہ میں لکھے اور ان کے جوابات دئیے ہیں۔ مثلا ہمارے یہ محققین ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ متکلمین کے موقف کے مطابق عالم کو ایک علت کی احتیاج ہونے کی بنیاد “امکان” نہیں بلکہ “حدوث” ہونا ہے اور چونکہ حدوث کو علت احتیاج کہنے میں چند طرح کے مسائل ہیں لہذا حدوث اس احتیاج کی بنیاد نہیں ہوسکتی بلکہ ماننا ہوگا کہ یہ وجہ “امکان” ہے (اس کی تفصیل کو فی الوقت ایک طرف رکھئے، اس کے ساتھ اگلی بات فلاسفہ یہ ملاتے تھے کہ جب احتیاج کی بنیاد امکان ہے تو یہ بات معلوم ہے کہ یہ امکان ازلی ہے جس سے معلوم ہوا کہ عالم کا ازلی ہونا ممکن ہے نہ کہ محال۔ یہ استدلال خلط مبحث ہے جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے)۔

یہ اعتراض امام رازی نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ احتیاج کی بنیاد حدوث نہیں امکان ہے۔ ان کے جواب کے اتنے حصے کو ہمارے یہ محققین اچک لیتے ہیں کہ “دیکھو آپ کے امام رازی کو بھی ماننا پڑا کہ عالم کے احتیاج کی بنیاد حدوث نہیں امکان ہے اور یہی تو فلاسفہ کہتے تھے، افسوس کہ تم لوگ اپنے متکلمین کو بھی نہیں پڑھتے”۔ لیکن یہ محققین اس کے ساتھ یہ بات یا جانتے نہیں اور اگر جانتے ہیں تو پھر اسے بیان کرنے میں خیانت کرتے ہیں کہ امام رازی کا پورا جواب یہ ہے کہ عالم کے حدوث کی بنیاد “امکان بشرط حدوث” ہے، جو شے قدیم ہو وہ ممکن ہوتی ہی نہیں۔ یہ ہے امام صاحب کا موقف لیکن کچھ ماہرین آدھی بات کو بیان کرتے ہیں۔ “نھایۃ العقول” میں یہ بات آپ نے ناقد کے اس اعتراض کے جواب میں بھی واضح کی ہے جیسا کہ آپ نے لکھا:

نحن لا نجعل علة الحاجة هي الحدوث، بل علة الحاجة هي الإمكان ولكن بشرط كون الممكن مما سيحدث

یعنی ہم احتیاج کی علت حدوث قرار نہیں دیتے بلکہ احتیاج کی علت امکان ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ممکن حادث ہونے والا ہو۔

اس کا مزید واضح ثبوت “عالم کے حادث ہونے” کے اثبات کا وہ دوسرا منھج ہے جسے آپ نے اختیار کیا، آپ کے الفاظ میں اس دلیل کی ساخت یہ ہے:

  • العالم ممکن (عالم ممکن ہے)
  • وکل ممکن محدث (اور ہر ممکن حادث ہوتا ہے)
  • فالعالم محدث (پس عالم حادث ہے)

پھر آپ نے ہر ہر مقدمے کےدلائل دئیے اور ہر مقدمے کے خلاف ناقدین کے دلائل ذکر کرکے ان کے جوابات دئیے ہیں۔ پس یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام رازی قطعاً یہ بات نہیں کہتے کہ عالم کی احتیاج کی بنیاد اس معنی میں امکان ہے جس معنی میں قدم عالم کا موقف رکھنے والے اسے امکان کہتے ہیں، اس بارے میں فلاسفہ کا موقف “امکان بدون شرط حدوث” تھا۔ قدم عالم کے نظرئیے پر امام غزالی (م 1111 ء) و رازی اور دیگر متکلمین کا یہی تو اعتراض ہے کہ جو قدیم ہو وہ ممکن نہیں واجب ہوتا ہے نیز قدیم پر عدم محال ہوتا ہے جبکہ ممکن وہ ہے جس پر عدم اور وجود دونوں جائز ہوں۔ بجائے اس اعتراض کا جواب دینے کے کہ آخر قدیم ممکن کیسے بنتا ہے، فلاسفہ کے قول کے مطابق قدم عالم کے غیر معقول موقف کے حامی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خود متکلمین بھی امکان کو احتیاج کی بنیاد مان کر اس کے قائل ہوگئے!

اگر عالم ازل سے ممکن تھاتو یہ ازلی کیوں نہیں؟

کائنات کو کسی نہ کسی صورت قدیم اور اس کے عدم سے وجود میں آنے کے تصور کو غلط ثابت کرنے والے مفکرین کی ایک دیرینہ دلیل وہ رہی ہے جسے ایک دوست نے ہمارے دور کے بعض اسماعیلی حضرات کی جانب سے پیش کیا۔ دلیل کی ساخت یوں ہے:

  • یہ بتاؤ کہ کیا کائنات کا ہونا ازل سے ممکن تھا یا محال؟
  • اگر تم کہو کہ اس کا ازل سے ہونا محال ہے تو مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا ہونا پہلے محال تھا اور جب یہ وجود میں آئی تو یہ ممکن ہوگئی۔ مطلب یہ بنا کہ جو پہلے محال تھا پھر وہ ممکن ہوگیا، یعنی عالم کے امکان کا آغاز ہوا۔ چونکہ یہ انقلاب حقائق کا دعوی کرنا ہے (یعنی محال کا ممکن ہوجانا)، تو یہ بدیہی طور پر غلط ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں۔
  • اور اگر تم کہو کہ اس کے ہونے کا امکان ازل سے ہے تو اس کا مطلب یہ ماننا ہے کہ اس کا ازل سے ہونا محال نہیں۔ پس تم نے مان لیا کہ یہ ازل سے ممکن تھی جس سے معلوم ہوا کہ قدم عالم کو محال کہنا غلط ہے۔
  • پس متکلمین کا یہ کہنا غلط ہے کہ عالم کا قدیم ہونا محال ہے اور حادث کائنات کا ان کا تصور متضاد امور پر مبنی ہے۔

یہ مسلم فلاسفہ کی متکلمین کے خلاف دیرینہ دلیل ہے جسے شیخ ابن تیمیہ بھی دہراتے ہیں۔ امام رازی نے اس کا جواب متعدد کتب میں دیا ہے جیسے “نھایۃ العقول” اور “الاربعین” وغیرہ۔ جواب بالکل آسان ہے:

  • کائنات کا ہونا ازل سے ممکن تھا، اس شرط کے ساتھ کہ یہ حادث ہو۔ یعنی یہ بات ازل سے ممکن ہے کہ ایک حادث کائنات وجود میں آجائے اور یہ بات ازل سے محال ہے کہ ایک قدیم کائنات ہو۔ پس قدیم عالم ازل سے محال جبکہ حادث عالم ازل سے ممکن ہے۔ یہاں کسی قسم کا انقلاب حقائق نہیں۔
  • امام رازی بات کو سمجھانے کے لئے معین حادث کی مثال لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم کسی خاص حادث مثلاً زید کے بارے میں کیا کہتے ہو، یہ کہ جب وہ حادث ہوا اس وقت اس کے ہونے کے امکان کا آغاز ہوا یا اس کا یوں حادث ہونا ازل ہی سے ممکن تھا؟ یہ تو تم بھی نہیں کہتے کہ زید پہلے محال تھا اور پھر حدوث کے وقت ممکن ہوگیا بلکہ تم یہی کہتے ہو کہ زید کا حادث ہونا ازل ہی سے ممکن تھا۔ پس یہی معاملہ کائنات کے ممکن ہونے کا ہے کہ یہ حدوث کی شرط کے ساتھ ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ مسبوق بالعدمیت کے ساتھ شے کا ازلی ہونا محال ہے۔
  • جب قطعی دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ فعل کا اثر قدیم ہونا محال ہے نیز عالم کے قدیم ہونے کے مفروضے سے کئی محال امور لازم آتے ہیں تو معلوم ہوگیا کہ کائنات کے قدیم ہونے کا کوئی امکان نہیں، امکان اس کے حادث ہونے کا ہے اور یہ امکان قدیم ہے۔ الغرض عالم کے ہونے کے ازلی امکان (ازلیۃ الامکان) سے اس کے ازلی ہونے کا امکان (امکان الازلیۃ)ثابت نہیں ہوتا۔

دراصل اس دلیل میں “ممکن ہونے” اور “وجود خارجی ہونے” کو ہم معنی فرض کرلیا گیا ہے جبکہ یہ غلط مفروضہ ہے، اگر یہ درست ہو تو سارا عالم ہی قدیم ہونا چاہئے تھا اور کچھ بھی حادث نہ ہو۔

“یہاں یہ بات یاد رہے کہ امام رازی جس شرط کی بات کررہے ہیں اس کا تعلق مفعول سے ہے، یعنی وہی مفعول فعل کا اثر ہوسکتا ہے جو حادث ہو کیونکہ فعل کے اثر کا قدیم ہونا محال ہے۔”

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں