کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ تمام علوم میں ہر آنے والی نسل پہلی نسل سےعلم، استعداد، صلاحیت اور قوت اجتہاد میں بڑھ کر ہوتی ہے سوائے دینی علوم کے کہ یہاں ایک زوال مسلسل ہے. اگر آپ “أحبار و رھبان” سے پوچھیں تو وہ حفاظت خود اختیاری کے طور پر آپ کو اس کی وجہ یہ بتائیں گے کہ
“جتنا عہد نبوی سے فاصلہ بڑھتا رہتا ہے اتنا انحطاط بڑھتا رہتا ہے ”
گویا اس میں ان کی کسی کوتاہی کا کوئی عمل دخل نہیں. مجھے یہ سوال طویل عرصے تک پریشان کرتا رہا. آخر کار ” امام ابوحنیفہ کی مجلس تدوین فقہ” کی تالیف کے دوران مجھ پر یہ راز کھلا کہ ایسا کیوں ہے؟
آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے؟
جب کہ یہ قانون فطرت کے بھی خلاف ہے؟
بہت سال پہلے کی بات ہے میں نے امام ابوحنیفہ کی مجلس تدوین فقہ پر ایک مختصر کتاب مدون کی تھی. تب مجھے یہ سوال بہت پریشان کرتا رہتا تھا کہ جس قدر علمی مآخذ و مصادر ہمیں دست یاب ہیں اور جس قدر علمی تحقیقات کے لئے ہمیں وسائل اور سازگار حالات میسر ہیں قرون اولی کے اہل علم کو اس کا عشر عشیر بھی میسر نہیں تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ کئی صدیوں سے مادران علم و تحقیق بانجھ ہو گئی ہیں جبکہ فطرت کا اصول یہ ہے کہ کل یوم ھو فی شان یعنی آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون.
اسی اثنا میں اچانک مجھے معلوم ہوا وہ سب لوگ اپنی راتیں تلاوت اور تدبر وتفکر قرآن سے منور رکھتے تھے. ان کی عبادات میں سب سے بڑا حصہ قرآن سے تعلق کا ہوتا اور اس ضمن میں ان کے مبالغہ آمیز معمولات سے سوانح مزین ہیں.
ممکن ہے میری رائے غلط ہو لیکن مجھے احساس ہوا کہ شاید ہمارے زوال و انحطاط کا سبب ترک قرآن ہے . اگر قرآن سے ہمارا تعلق ہے بھی تو محض رسمی کہ روزانہ اتنی تلاوت کر لی جائے تاکہ حفظ برقرار رہے یا ثواب سمیٹ لیا جائے.
ایسا کیوں ہوا؟
امت مسلمہ کی سیاسی، سماجی اور علمی تاریخ کے. مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار پر خاندانی تسلط اور ملک عضوض کی کارفرمائی کے بعد امت کے ذہین طبقے نے متبادل کی تلاش شروع کی، معاصر امتوں میں رہبانیت، ترک دنیا، یوگ وغیرہ کی مستحکم روایات موجود تھیں جن کی بدولت پرسکون زندگی اور خلق خدا کی تسخیر کی دوگونہ چاشنی میسر آتی تھی . اسی سٹرکچر کو مشرف بإسلام کر کے متوسلین کو وظائف، ذکر و اذکار، مراقبوں اور چلوں پر لگا دیاگیا اور سیاسی نظم ریاست سے خلافت، دربار، خلعت وغیرہ کی اصطلاحات مستعار لے کر ایک مستحکم اور مربوط روحانی ریاست قائم کر دی گئی اس طرز حیات میں اس قدر سکون، امن اور پندار تقوی کا خمار تھا کہ تقریباً تمام ذہین طبقہ قرآن کو چھوڑ کر اس کام پر لگ گیا جس کی بنا پر فرشتوں کے استحقاق خلافت کو اللہ نے جھٹک دیا تھا. (نحن نسبح بحمدک ونقدس لک)قرآن حکیم کے تصور تزکیہ اور سیرت طیبہ کے طرق زہد و رقاق سے ہٹ کر اتنا ضخیم اور متنوع لٹریچر تیار کر دیا گیا، جس میں نفس کشی کے ایسے ایسے مجاہدے متعارف کروائے گئے جو ایک طرف کتاب و سنت کے ناکافی اور نامکمل ہونے کی فکر کی آبیاری کرتے تو دوسری طرف انہیں پورا کرنے کے بعد انسان کے پاس سماجی، اخلاقی، اقتصادی، سیاسی اور عمرانی فرائض ادا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ نہیں بچتا. جبکہ اللہ نے انسان کو جس مقصد کے لیے خلیفہ بنایا تھا وہ یہ تھا کہ اللہ کی زمین پر قرآن کے مطابق زندگی گزاری جائے اور ساری خلق خدا کے لیے اس مطلوب زندگی کے لئے حالات تخلیق کئے جائیں.
للہ نے زمین پر خلیفہ بنانے کا آئیڈیا جب فرشتوں سے ڈسکس کیا تو انہوں نے اس پر دوگونہ ردعمل دیا. ایک تو اس کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم جو ہیں، شب وروز تیری تسبیح و تقدیس کرنے والے پھر کسی اور کی ضرورت ہی کیا؟؟ دوسرے اس کا مجوزہ سٹرکچر یہ بتاتا ہے کہ یہ زمین کو فساد سے بھر دے گا. اللہ نے دلائل سے انہیں مطمئن کرنا ضروری نہیں سمجھا لیکن اپنے آئیڈیا پر کام جاری رکھا. جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پروگرام میں کسی ایسی مخلوق کی تخلیق نہیں تھی جو سراپا عبادت، ذکر و تسبیح و سجود ہو. اسی وجہ سے جن مذاہب نے اس پہلو پر زور دیا کہ انسان ترک دنیا کر کے یاد الہی میں ہمہ تن مصروف رہے، اللہ نے ان کے اس عمل کو قبولیت عطا نہیں کی. گویا خلیفہ کے ذمے کچھ اور کام تھے جو فرشتے نہیں کر سکتے تھے.
وہ کام کیا تھے؟
ان کی وضاحت کے لیے اللہ نے ایک ٹیسٹ رکھا، جس میں آدم پاس ہوگیا اور فرشتے ناکام ہو گئے. ٹیسٹ کیا تھا؟ اللہ نے آدم میں اشیاء کے خواص جاننے کی صلاحیت رکھ دی. علم آدم الأسماء کلھا کایہ مطلب نہیں کہ اللہ نے آدم کو پیپر بتا دیا اور فرشتوں کو تاریکی میں رکھ کر امتحان لے لیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ کہتا ہے علمہ البیان، اللہ نے انسان کو بولنا سکھایا یعنی اس میں گفتگو کی صلاحیت رکھ دی. یا سب کو رزق دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لقمے توڑ توڑ کر کھلاتا ہے بلکہ اس نے کمانے اور کھانے کی صلاحیت رکھ دی. سو دنیا میں موجود اشیاء کے خواص جاننے کی صلاحیت اللہ نے آدم اور قیامت تک کی نسل آدم میں رکھ دی اور مستحق خلافت ہونے کے لئے یہی مہارت درکار ہے. فرشتوں میں وہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ تجربات کریں، لیبارٹریز بنائیں، سورج کی شعاعوں کو گرفتار کریں، ہواؤں اور بادلوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں، اس صلاحیت کی بنا پر خلافت آدم کو تفویض ہوئی.
اس کائنات کا سارا نظام فرشتوں کے ذریعے govern ہوتا ہے ،اس لئیے ساری کائنات کو آدم اور اولاد آدم کے استعمال کے لیے available کرنے کا اظہار اس طرح کیا گیا کہ کائنات کا نظم چلانے والوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر انہیں آدم کے ماتحت کر دیا گیا کہ انسان جیسے چاہے اس کائنات اور اس میں موجود اشیاء کا استعمال کرے، فرشتے رکاوٹ نہیں ڈالیں گے. اسی کو کہا گیا سخر لکم ما فی السموات وما فی الارض
گویا بطور خلیفہ انسان کا اصل کام اشیاء کے خواص جاننا اور انہیں استعمال میں لانا ہے، اسی لئے قرآن نے (سورہ فاطر، 27_28)عالم فلکیات، ارضیات اور پہاڑوں اور پرندوں یعنی زمین، آسمان اور فضا تینوں کے بارے میں غور و خوض کر کے ان کو انسانی استعمال میں لانے والوں کے لئیے العلماء (اہل علم) کی اصطلاح استعمال کی ہے.
گویا بطور خلیفہ انسان کی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اصل مالک نہیں بلکہ اصل مالک کا خلیفہ سمجھے اور اس کائنات کی گہرائیوں میں کھو کر تحقیقات کے ذریعے اشیاء کو خلق خدا کے لیے مفید بنائے.
سو میرے خیال میں قرون اولی کے اہل علم قرآن سے وابستہ تھے اور قرآن کی روشنی میں سماج کی ضروریات پوری کرنے اور رہنمائی فراہم کرنے میں مصروف رہتے تھے. ہم نے قرآن کو چھوڑ کر مراقبوں، چلوں وغیرہ کا آسان راستہ اختیار کر لیا. زعم تقوی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو گیا اور قرآن کی رو سے ہم
اما الزبد فیذھب جفاء کا مصداق ہو گئے
کمنت کیجے