عامر خاکوانی
ہمارے ایک محترم دوست نے ایک تحریر لکھی۔ جس میں خلع، تنسیخ نکاح وغیرہ پر بات کی اور اس میں لکھا کہ عدالت جو طلاق دلاتی ہے وہ تنسیخ نکاح نہیں ہوتا جب تک مرد طلاق نہ دے ، تنسیخ نکاح نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔
مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔
میرے نزدیک تو صورتحال بڑی واضح ہے۔ اسلامی ملک کی عدالت عورت کو جو خلع دلاتی ہے، وہ تنسیخ نکاح ہی ہے۔ ورنہ اگر عورت کو عدالتی خلع کے بعد اگر مرد کے ترلے اور اس کے آگے گڑگڑانا ہی ہے طلاق کے لئے تو یہ نہایت عجیب وغریب اور غیر منطقی بات ہے۔
یاد رہے طلاق کے معاملے کی تین صورتیں ہیں۔ مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے، اس کا ایک طریقہ کار ہے جو شریعت میں بھی بیان کیا گیا اور ہمارے عدالتی قوانین میں بھی وہی اختیار کیا گیا۔
مرد عورت کو بھی طلاق کا حق تفویض کر سکتا ہے، ہمارے ہاں پرت نکاح ہی میں اس کا اندراج ہوجاتا ہے۔ ایسے میں عورت بھی مرد کو طلاق دے کر علیحدہ ہوسکتی ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ عورت طلاق چاہتی ہے، مگر مرد طلاق نہیں دے رہا۔ عورت اس قدر زچ آ جائے کہ وہ عدالت میں تنسیخ نکاح کے لئے درخواست دائر کر دے اور کہے کہ اس کے لئے میں اپنے حق مہر وغیرہ سے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہوں۔ تب عدالت اسے خلع یعنی تنسیخ نکاح کرا دیتی ہے۔ عدالت پہلے میاں بیوی میں مصالحت کی کوشش کرتی ہے، دو تین پیشیاں دی جاتی ہیں، جج خود بھی دونون کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ گھر چلانے کی کوشش کر کے دیکھ لو۔ عورت اگر مصر رہے اور کہے کہ شوہر کے ساتھ رہنے کے بجائے مجھے مر جانا قبول ہے تو پھر عدالت الگ کرا دیتی ہے اور خاتون اس کے بعد کسی بھی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے۔
یہ ہے قانونی پوزیشن ۔ باقی بعض مولوی صاحبان کی رائے میں مرد سے طلاق لینا ضروری ہے۔ یہ بات اس لئے سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی بدبخت مرد اپنی بیوی کو ذلیل کر رہا ہے، اس کا جینا اجیرن کر رکھا ہے، اس کے ظلم وستم، سختی ، بدمزاجی سے تنگ آ کر عورت طلاق کے لئے عدالت گئی ہے۔ اگر عدالت سے دلوائی گئی طلاق کے بعد بھی عورت کو اسی مرد کے آگے گڑگڑانا، ترلے کرنا پڑیں تو یہ ظلم کی انتہا نہیں ہوجائے گی ؟
بہرحال کوئی کسی مفتی کے کہنے پر عمل کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے، ایسی خواتین اگر اپنے مردوں کے آگے ذلیل ہونے، خجل خوار ہونے کو تیار ہو توضرور ایسا کریں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے قوانین ایسے نہیں۔
پاکستان کے قانون کے مطابق عدالت جب خاتون کو خلع دلواتی ہے تو وہ تنسیخ نکاح ہی ہے۔ اس خاتون کو پھر الگ سے اس مرد سے طلاق لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ مقررہ مدت گزارنے کے بعد کہیں پر بھی نکاح کر سکتی ہے یا چاہے تو مطلقہ کی حیثیت سے اپنی باقی زندگی گزار سکتی ہے۔
کسی نے کہا کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے اس پر ویڈیو کی ہے کہ نہیں عدالت سے دلوائی گئی خلع طلاق نہیں ہے، اس کے بعد کی گئی شادی غلط ہے وہ زنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
تو بھیا جی کسی کو اگر مفتی طارق مسعود صاحب اس قابل لگتے ہیں کہ ان کی رائے اسلامی ملک کی عدالتوں اور قوانین سب پر بھاری ہے تو یہ اس کی ذاتی رائے ہے ۔ ملکی قوانین کے آگے کسی بھی مفتی کی ذاتی رائے زرا برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔
میرا خیال ہے کہ ہمارے مولوی صاحبان کو بھی ان معاملات کو عقلمندی اور دانشمندی کے ساتھ حل کرنا چاہیے، ہمارے ہاں عورت پہلے ہی بہت سی مشکلات کا شکار ہے ۔ اسے وراثت میں حصہ نہیں ملتا، بہت سی جگہوں پر قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے یا کسی خاص برادری یا قوم میں شادی کے چکر میں وہ بے چاری بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ ان کی زندگیاں مزید مشکل نہ بنائیں۔ لوگ پہلے ہی دین سے متنفر ہو رہے ہیں، طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اب ہمارے بہت سے مولوی صاحبان کی ٹو مچ روایتی آرا بڑی مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔
نوٹ: واضح رہے کہ مجھے خلع کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیملی انسٹی ٹیوشن کو بچانا بڑا ضروری ہے ، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ترغیب اور تلقین کرنی چاہیے کہ کچھ برداشت اور تحمل سے اپنا رشتہ چلانے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کےساتھ ایڈجسٹ کریں۔ یہ مشورہ دونوں کے لئے ہے، صرف عورت کے لئے نہیں۔
تاہم میں اس کے حق میں ہوں کہ کوئی مظلوم عورت اگر عدالت میں جائے اور وہاں یہ موقف لے کہ وہ اپنے خاوند سے اس قدر تنگ آ چکی ہے، اتنی نالاں ہے کہ اس کے ساتھ رہنے کے بجائے موت تک قبول کر لے گی تو عدالت کو اسے ریلیف لازمی دلانا چاہیے ۔ ایسی مظلوم اور پریشان عورت کی زندگی آسان بنانی چاہیے۔
ویسے بھی ایسا کون سا عزت دار مرد ہوگا جو کسی ایسی عورت کے ساتھ زبردستی رہنا اور جسمانی تعلق قائم رکھنا چاہے جو اسے پسند نہیں کرتی، جسے اس کا ساتھ پسند نہیں اور وہ ہر قیمت پر الگ ہونا چاہتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہر عزت دار، باغیرت مرد ایسی عورت کو فوری طلاق دے کر خوش اسلوبی سے الگ کرنا چاہے گا۔ اگر کوئی بدبخت ایسا نہیں کرتا اور عورت کو ذلیل کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے تو پھر عدالت کو وہ ریلیف عورت کو دلوانا چاہیے۔
نوٹ نمبر ٹو: یہ ایک کمنٹ کے جواب میں لکھا ہے۔
لوگ دین سے برگشتہ ہو رہے ہیں۔ آئے روز ملحدین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو تب ہمارا دل جلتا ہے۔ آپ لوگوں کی عاقبت نااندیشی اور بات درست طریقے سے نہ سمجھانے کی وجہ سے جو لوگ دین چھوڑ رہے ہیں، ملحد ہو رہے ہیں متشکک ہو رہے ہیں ۔ مجھ جیسے لوگوں کو اپنی کم علمی کے باوجود سوالات مجبوراً اس لئے اٹھانے پڑتے ہیں کہ بات کھل کر ہو اور لوگوں کے شکوک دور ہوسکیں۔ مجھے عقل کے گھوڑے دوڑانے کا کوئی شوق نہیں ، مگر یہ ضرور ہے کہ آپ لوگ جو دین کے ٹھیکے دار بنے ہیں، وہ کم از کم بات ڈھنگ سے سمجھانا سیکھ جائیں۔
کمنت کیجے