Home » سیاسی اسلام کی ناکامی
انگریزی کتب تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

سیاسی اسلام کی ناکامی

زبیر حفیظ 

اولیور راوئے فرانسیسی محقق اور پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں ۔۔۔مشرق وسطی کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ،سیاسی اسلام اور مسلم بنیاد پرستی پر بھی خاصی گرفت رکھتے ہیں ،ان موضوعات پر اولیور روائے نے کئی کتابیں لکھیں ،سیاسی اسلام پر ان کی سب سے جامع کتاب ہے ”      The       failure        of political       Islam ۔۔کتاب کیا ہے ،انکشافات اور تجزیات کا سیلاب ہے ۔۔کتاب میں Oliver       roy ایک دلچسب انکشاف کرتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ:
“تیسری دنیا کے ممالک میں بیسویں صدی کے اوائل میں سیاسی اسلام کی شروع ہونے والی تحریکیں سوشلسٹ انقلاب سے متاثر تھیں”
اولیور روائے اپنے دعویٰ پر کوئی ٹھوس دلائل دیئے بغیر ہی آگے بڑھ جاتا ہے مگر مجھے اس جملے نے جکڑ لیا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو سیاسی اسلام کی تحریکیں شروع ہونے کا زمانہ اور روس میں اشتراکی انقلاب کے برپا ہونے کا زمانہ آگے پیچھے کا ہی تھا۔
برصغیر میں مودودی ،مصر میں حسن البناء ،سید قطب ،ایران میں خمینی یہ سب لوگ تقریبا ایک دوسرے کے ہم عصر تھے ۔۔۔کیا وجہ ہے کہ سیاسی اسلام کا نعرہ تاریخ کے ایک ہی مرحلے میں ایک ہی وقت میں بلند ہوتا ہے ،اٹھارویں صدی میں مغلوں کو کدھیڑ دیا انگریز نے ،پورے مشرق وسطی پر مغرب کی نوآبادیاتی طاقتوں نے پنچے گاڑ دیئے مگر کسی کو سیاسی اسلام کی خیال نہ آیا ،یہ اچانک سے بیسویں صدی میں ایسا کیا ہوا کہ مصر میں اخوان المسلمین ،ہندوستان میں جماعت اسلامی ،ایران میں خمینی کو سیاسی غلبہ یاد آگیا ۔

مشرق میں سامراج کے خلاف بغاوت کی ابتدا روس سے ہوئی ،لینن نے سوشلزم کا صور پھونک کے روسیوں کو جگا دیا ،یہ ایک کامیاب بغاوت ثابت ہوئی ،اسی بالشویک انقلاب نے انقلابی لٹریچر میں رومان انگیز خواب بھرے ،ایک وقت تھا اشتراکیت کا بڑا غلغلہ تھا ،یہ اشتراکی نظریات عمومآ کالج ،یونیورسٹیوں کے طلبا کے لیے بڑے رومان پرور ہوتے ،دوسرا یہ کہ تیسری دنیا کالیونیل ازم کے تسلط میں رہ رہ کر فرسٹیڈ ہو گئی تھی ،یہ فرسٹیشین کہیں پر سوشلزم کی صورت میں نکلی ،کہں نیشنلزم کی شکل میں تو کہیں سیاسی اسلام کی شکل میں ۔
مودودی صاحب کسی مدرسے سے پڑھ کر نہیں نکلے تھے ،سید قطب نے بھی امریکہ سے پڑھائی کی تھی ،ان کا سامنا یقیناً سوشلسٹ ریلے سے ہوا ہو گا جو دنیاوی تعلیم کے اداروں میں بہتا تھا ۔۔روس کے کامیاب انقلاب نے ان سیاسی اسلام کے علمبرداروں کے لاشعور پر ضرور اثر کیا تھا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اشتراکی بغاوت کو ان سیاسی اسلام کی تحریکوں نے مشرف با اسلام کر لیا تھا ۔

اس کا رنگ آپ کو غلام احمد پرویز کا ہاں ملے گا ،پرویز صاحب بھی سیاسی اسلام کے قائل تھے مگر انھوں نے اس ۔نظام ربوبیت کو داس کیپٹل کی گٹھی دے دی تھی ۔۔۔مودودی صاحب نے بیسویں صدی کے مسلمانوں کے گاڈ فادر تھے ،وہ سیاسی اسلام کے بارے میں خاصے کلیئر تھے ،وہ مذہب اور دین میں فرق روا رکھتے۔۔۔مذھب وہ تھا جو عبادتگاہ تک محدود رہتا ہے اور دین وہ ہے جو مسجد سے نکل کر معاشرت،معشیت اور سیاست ہر جگہ نافذ ہو جاتا ہے ۔۔۔اس لیے اسلام مذھب نہیں دین ہے۔۔۔یہی وجہ ہے جب بھی کسی جماعتئے سے متھا لگ جائے تو اسے کچھ اور پتہ ہو یا نہ ہو تبلیغیوں کے چھ نمبروں کی طرح یہ جملہ ضرور رٹا ہوتا ہے کہ ” مذھب اور دین دو الگ چیزیں ہیں۔۔”۔مگر ان سے جب بندہ پوچھے حضرت یہ فرق تو مودودی صاحب کر کے گئے ہیں قرآن تو مذھب اور دین کی اصطلاحات میں کوئی ایسا فرق روا نہیں رکھتا جیسے سورہ الکافرون میں ہے
لکم دینکم ولی دین (تمھارے لئے تمہارا دین (بت پرستی)اور میرے لیے میرا دین (اسلام)
یہاں تو خدا مشرکوں کے مذھب کے لئے بھی دین کا لفط استعمال کر رہا ہے ۔۔۔لگتا ہے مودودی صاحب پر کوئی آسمانی ڈکشنری الگ سے اتری تھی ۔مودودی صاحب نے اسلام کو ترووڑ مروڑ کر ریاستی آئین کی کتاب بنا دیا ،معشیت اور سیاست کے ایسے ایسے فلسفے کھود کر نکالے جس سے خود سابقون اولاون بھی ناواقف تھے بقول وحید الدین خان کے ۔۔
“مودودی صاحب نے اسلام کے سیاسی پہلو کو حد سے زیادہ نمایاں کر کے اس کے اخلاقی پہلو کو ہی دبا دیا تھا”
انبیا اخلاق سدھارنے آتے ہیں ،وہ سیاسی گتھیاں نہیں سلجھایا کرتے ،معشیت کے فلسفے نہیں دیا کرتے ۔۔۔خلافت راشدہ کے دور کو مثال بنا کر سیاسی اسلام کا مینوفیسٹو نہیں تیار کیا جاسکتا ،میں اس تیس سال دور کو عربوں کے پولیٹیکل شاک کا زمانہ کہتا ہوں ،جیسے ایک دم دولت آنے سے معاشرہ کلچرل شاک میں چلا جاتا ہے ویسے ہی قبیلوں میں بٹے عربوں کے ہاتھ یک دم عالمی طاقت آنے سے انھیں سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ وہ گورنننس کیسے کریں ،خلافت راشدہ کا دور تجربات کا دور تھا چار خلیفہ منتخب ہوئے مختلف طریقوں سے ،چار میں سے دو خلیفہ خانہ جنگی کا شکار ہو گئے ،تگڑی گورننس تو مسلمانوں کو جا کے امیر معاویہ ہے دور میں ملی۔

تو بات مودودی صاحب کی ہو رہی تھی ،سیاسی اسلام کی گنگا مودودی صاحب ہی ہیں ،سید قطب ہوں ،خمینی ہوں سب اسی گھاٹ سے پانی پیتے نظر آتے ہیں۔۔خمینی بھی سیاسی اسلام کے داعی تھے ،یہاں یہ بات بتانی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ خمینی کے دور میں ہی سلفی ازم کے بانی رشید رضا ،سید قطب اور مولانا مودودی کی کتابیں امام خمینی کے حکم پر فارسی میں ترجمہ کر کے پھیلائی جاتی تھیں ۔۔۔۔جب خمینی ایران میں اقتدار میں آئے تو میاں طفیل کی قیادت میں جماعت اسلامی کا وفد خمینی کو مبارکباد دینے ایران گیا تھا ۔۔جماعت اسلامی جس اسلامی انقلاب کی کامیابی کی مبارک باد دینے گئی تھی ،اس کے نیتجے میں ہزاروں سنیوں کا قتل عام ہوا تھا ایران میں۔

منتظمین

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • ایک عمیق موضوع پر عامیانہ بلکہ سوقیانہ طرز تحریر ۔۔۔ پہلی بات یہ کہ شیخ الہند کی سیاسی تحریک کیسے اٹھی ؟ اس سے پہلے محمد بن عبدالوہاب نے کس اثر کے تحت یہ سیاسی تحریک کا آغاز کیا ۔۔ ماضی قریب کے علاوہ ماضی بعید اور دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی وقت کوئی سیاسی تحریک اٹھی ہے کیا یہ سب کمیونزم سے متاثر تھے ؟
    جماعتئے جیسے الفاظ آپ کو کسی محقق مزاج آدمی کے تحریر میں نہیں ملیں گے ۔
    نیز ایران کو مبارکباد دینے میں اس وقت امریکی نواز شاہ سے جان خلاصی اور ایک مقامی دینی سوچ کا قوت میں آنا ایک سبب ہوسکتا تھا۔
    مولنا مودودی رح آپ جیسے سطحی علم کی بنیاد پر اتنی بڑے دعوے نہیں کرتے جس طرح آپ اغیار کے متعصبانہ تحقیق پر جگالی کرتے ہوئے کر رہے ہیں کہ ان کو دین جیسے بنیادی قرآنی تصور کا علم نہیں تھا ۔۔ اور دلیل میں بھی لکم دینکم ولی دین پیش کیا ہے ۔۔۔ اليوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔ ان الدین عند اللہ الاسلام۔۔۔ کی آیات کس طرح مسلمان کی سیاسی رہنمائی اپنے اندر شامل نہیں رکھتی ؟

    • محمد بن عبد الوہاب نے تو بادشاہت کو قبول کیا تھا کیا مولانا مودودی بھی بادشاہت کو قبول کرتے؟