Home » موسیقی: ایک جائزہ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار فقہ وقانون

موسیقی: ایک جائزہ

حافظ حسن علی

موسیقی کی حرمت سے متعلق ہمارے ہاں جو سخت عمومی رویہ اختیار کر لیا گیا ہے گہرے تجزیے میں ناقابل اعتبار ہے۔ کیونکہ موسیقی کے حوالے سے علماء دین کے بیچ اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اور اصول شرعی یہ ہیکہ جس مسئلے کی شرعی توجیه و تشریح سے متعلق علماء دین کی آراء مختلف ہوں اس مسئلہ کی عملی تنفیذ و تعمیل میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مطلب اس اختلافی عمل کرنے والے شخص پر سخت توبیخ و تنقید نہیں کی جاتی ۔

پھر چونکہ موسیقی” کا تعلق انسان کی داخلی تخلیقیت سے ہے۔ اور یہ انسان کے گہرے جذبات و احساسات کی بے لفظ ترجمان ہوتی ہے ۔ اور انسان کے جمالیاتی ذوق کو جلا بخشتی ہے ۔ اسلیے ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کا اختیار کردہ مؤقف انتہائی اہمیت کے حامل ہے ۔ کیونکہ آپ کے نزدیک  موسیقی داخلی و صوتی زینت ہے ۔ اور زینت بالعموم اپنی تمام تر جزئیات و تفصیلات کے ساتھ حلال کی گئی ہے ۔

دراصل موسیقی سے متعلق مسلم روایت میں قدیم زمانے سے اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ اور مسلم روایت کی بعض انتہائی نامور قدیم علمی شخصیات نے موسیقی سے متعلق رائج حرمت کے فتوے سے اختلاف کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیاہے ۔

ذیل میں ہم باختصار انکا موقف پیش کرتے ہیں ۔

امام غزالی رحمہ اللہ 

آپ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ” احیاء علوم الدین” کے آٹھویں باب میں آلات موسیقی کے بارے انتہائی بسیط گفتگو کرنے کے بعد اپنا شرعی موقف یوں پیش کیا ۔

إن الآلة إذا كانت من شعار أهل الشرب أو المخنثين، وهي المزامير والأوتار وطبل الكوبة، فهذه ثلاثة أنواع ممنوعة، وما عدا ذلك يبقى على أصل الإباحة؛ كالدف وإن كان فيه الجلاجل، وكالطبل والشاهين والضرب بالقضيب وسائر الآلات]

اسکا خلاصہ یہ ہیکہ اہل شرب و مخنث طبقات کے ہاں استعمال ہونے والے آلات موسیقی کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ باقی ماسوا اسکے تمام آلات موسیقی کا سننا و سنانا جائز ہے ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ 

امام شوکانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” نیل الاوطار” میں ایک حدیث نقل کی ۔ جسکا مفہوم تھا کہ آدمی کا اپنی زوجہ سے کھیلنا ، اپنے گھوڑے کی تربیت کرنا ،اور اپنی کمان سے تیر پھینکنے کی مشق کرنا بے فائدہ نہیں ۔ باقی ما سوا اسکے تمام افعال” لہو”باطل ہیں ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لفظ ” باطل” کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ باطل سے مراد یہاں “بے فائدہ” ہے “باطل” سے مراد “حرمت و ممانعت ” نہیں ہے ۔ پھر فرماتے ہیں کہ بے فائدہ امور مباحات میں شمار ہوتے ہیں ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ نے اسی ذیل میں ایک باب “(باب ما جاء من آلة اللهو) کے عنوان سے باندھا ہے ۔ اور اس باب میں موسیقی کی حرمت و ممانعت و جواز و اباحت کے قائلین کے دلائل ذکر کیے ہیں ۔ اور پھر آخر میں مذکورہ بالا حدیث کی تشریح یوں کی جس سے مترشح ہوتا ہے کہ آپ رحمہ کا ذاتی رجحان جواز کی طرف تھا ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے اس مقام پر اپنے ایک رسالے کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ جس میں انہوں نے موسیقی کی حرمت پر اجماع کا دعویٰ کرنے والے علماء کا ابطال کیا ہے ۔ رسالے کا نام ہے ۔

إبطال دعوى الإجماع على تحريم مطلق السماع“.

(یہ رسالہ پڑھنے کے لائق ہے)

امام ابن حزم رحمہ اللہ 

“المحلی” میں ابن حزم رحمہ اللہ نے موسیقی سے متعلق اپنا فیصلہ یوں سنایا ہیکہ موسیقی کی حرمت و اباحت نیت پر موقوف ہے ۔ اگر کوئی شخص محض نشاط نفس کی خاطر موسیقی سنتا ہے ۔ تاکہ اسے عبادات و ریاضات پر قدرت حاصل ہوں تو ایسی صورت میں اسکا موسیقی سننا باعث ثواب ہے ۔ اور اگر موسیقی سننے والا شخص بغیر کسی سابقہ نیت و ارادے کے موسیقی سن رہا ہے تو ایسی صورت میں اسکا یہ عمل محض ‘ جائز ” کی حد تک محدود و محصور رہے گا۔

چنانچہ ابن حزم کا کلام افادہ عام کی خاطر نقل کر دیا جاتا ہے ۔

وفي “المحلى لابن حزم: [أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إنما الأعمال بالنيات ولكل امرئ ما نوى». فمن نوى استماع الغناء عونًا على معصية الله تعالى فهو فاسق، وكذلك كل شيء غير الغناء، ومن نوى به ترويح نفسه ليقوى بذلك على طاعة الله عز وجل وينشط نفسه بذلك على البر فهو مطيع محسن، وفعله هذا من الحق، ومن لم ينوِ طاعةً ولا معصية فهو لغو معفو عنه، كخروج الإنسان إلى بستانه متنزهًا، وقعوده على باب داره متفرجًا] اهـ.

شیخ عبد الغنی بابلی الحنفی 

شیخ صاحب موسیقی کے جواز پر   پورا ایک رسالہ تحریر کیا ہے ۔ جسکا عنوان ہے ۔

إيضاح الدلالات في سماع الآلات

اس رسالے کی خوبی یہ ہیکہ اس میں شیخ صاحب نے موسیقی کی حرمت سے متعلق وارد ہونی والی تمام تر احادیث کا جائزہ لیا ہے ۔ اور واضح کیا ہیکہ موسیقی کی حرمت پر دال تمام احادیث مطلقاً موسیقی کو حرام قرار نہیں دیتی ۔ بلکہ محض اس صورت میں موسیقی کو حرام قرار دیتی ہیں جب فعل موسیقی دیگر محرمات مثلاً شراب نوشی وغیرہ کے ساتھ متصل ہوں۔  اس بناء پر شیخ صاحب کے ہاں موسیقی تب ممنوع و مذموم ہے جب یہ دیگر حرام امور کے ساتھ مل کر وجود پذیر ہوں۔ محض موسیقی بحثیت موسیقی حرام نہیں ۔

محمد بن طاهر بن علي بن أحمد بن أبي الحسن الشيباني أبو الفضل المقدسي المعروف بابن القيسراني

امام ابن القیسرانی نے “کتاب السماع” میں موسیقی و آلات موسیقی کے جواز کو ثابت کیا ہے ۔ اور مخالفین کے دلائل کا بخوبی مناقشہ کیا ہے ۔ آپ رحمہ اللہ “ظاہری ‘ مسلک و مذہب کی پیروی کرنے والے تھے ۔

ان چند مشہور شخصیات نے مندرجہ ذیل اساسی دلائل پر اپنے مؤقف کی بناء رکھتے ہوئے موسیقی سے متعلق شرعی گنجائش پیدا کی ہے ۔

قرآنی دلائل :

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾ الأعراف

تم فرماؤ: اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے؟ اور پاکیزہ رزق کو

اس آیت کے ذیل موسیقی کے جواز کے قائلین لکھتے ہیں کہ موسیقی ایک صوتی زینت ہے ۔ یعنی آواز کا حسن ہے ۔ اور زینت و حسن کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی اکثر صورتوں میں حلال ٹھرایا ہے ۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ

تم فرماؤ، میرے رب نے تو ظاہری باطنی بے حیائیاں اور گناہ اور ناحق زیادتی کو حرام قرار دیا ہے ۔

اس آیت کے ذیل میں علماء نے لکھا ہیکہ اللّٰہ تعالیٰ اشیاء کی ظاہری صورتوں کو حرام قرار نہیں دیا ۔ بلکہ محض ان صورتوں کو ممنوع و مذموم قرار دیا جو ظاہراً یا باطناً فحاشی و عریانی کا سبب بنتی ہیں ۔ اسلیے جو موسیقی اپنی مجموعی ھیئت میں انسان کے اندر نفسانی و بہیمانی خواہشات و شہوات کا ناجائز ابھال پیدا کرے محض وہ ممنوع و مذموم ہے ۔

احادیث :

“أنها زَفَّت امرأة من الانصار إلى رجل من الأنصار، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أما كان معكن من لهو؛ فإن الأنصار يعجبهم اللهو». وهذا الحديث أورده البخاري في “صحيحه” في “كتاب النكاح“]

اس حدیث کا خلاصہ یہ ہیکہ شادی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھا سے موسیقی سے متعلق استفسار فرمایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے تھے کہ انصار موسیقی کو پسند کرتے ہیں ۔

ضُرِبَ بين يدي النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم دخل المدينة، فهمَّ أبو بكر رضي الله عنه بالزَّجر، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «دعهن يا أبا بكر حتى تعلم اليهود أن ديننا فسيح». فكنَّ يضربْنَ ويقُلْنَ: نحن بنات النجار حبذا محمد من جار

اس حدیث کا خلاصہ یہ ہیکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں چند بچیاں گا رہی تھیں ۔ اس اثناء میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ داخل ہوئے ۔ آپ رضی عنہ نے بچیوں کو ڈانٹا اور کہا کہ”شیطان کی بانسری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں ؟

جسپر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو منع فرماتے ہوئے کہا کہ ابو بکر انہیں چھوڑ دوں ۔یہ موقع عید ہے ۔

مَن نَذَرَت أن تضرب بالدف بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إن رده الله سالمًا من إحدى الغزوات، وقد أذن لها عليه صلوات الله وسلامه بالوفاء بالنذر والضرب بالدف“.

اس حدیث کا خلاصہ یہ ہیکہ ایک عورت نے دف بجانے کی منت مان لی۔ جسے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجا کر پورا کیا ۔

مزاج شریعت:

دراصل شریعت کا مجموعی مزاج ہیکہ انسان کے ودیعت شدہ قدرتی احساسات و میلانات کا بالکلیہ استیصال نہ کیا جائے ۔ بلکہ ان میلانات و خواہشات “کا ایک جائز مصرف و محل متعین کیا جائے ۔ اسلیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے اجازت طلب کرنے کے باوجود”اختصاء” کی اجازت نہیں دی ۔ بلکہ نکاح کی ترغیب و تشویق دلائی۔ البتہ فحش کام”بدکاری ” کو گناہ کبیرہ بتلایا ۔

یہی اصول شریعت کے تمام اوامر و نواہی میں کارفرما ہے ۔ اور انہی اصولوں کے پیشِ نظر علماء کہتے ہیں کہ انسان کے ذوق سماع کو تسکین بخشنے کے لیے اور اسکی باطنی تروتازگی محفوظ رکھنے کے لئے موسیقی کی ایک مناسب “صورت”کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ البتہ اس میں بھی فحاشی و عریانی  کو حرام ٹھہرایا گیا ہے ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں