دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے المدینۃ العلمیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر ایک کتاب “آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری سیرت” شائع کی ہے جس کے مصنف مولانا محمد حامد سراج مدنی عطاری ہیں۔ ۱۵۶ صفحات پر مشتمل یہ کتاب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا ایک مختصر تعارف ہے۔اس کتاب کے پیش لفظ میں بھی ادارے نے لکھا کہ اس مختصر سیرت کا مقصد بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک مختصر اور آسان کتاب جس میں سیرت طیبہ کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔ میرے خیال سے یہ کتاب اپنے مقصد کی حد تک کافی کامیاب ثابت ہوتی ہے۔ آپ اس کو ابتدائی درجے کی کتاب بھی کہہ سکتے ہیں جس کے پڑھنے کے بعد مزید مطالعہ سیرت کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس کتاب کو حکومت پاکستان نے ۲۰۲۲ کے مقابلہ کتب سیرت میں بچوں کی کٹیگری میں اول انعام کا حقدار قرار دیا تھا۔
یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔
پہلے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا ذکر ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت ہے۔ نفس اور شیطان کے دھوکے کے باعث انسان اپنے اس بنیادی مقصد سے انحراف کرتا رہا ہے تو اس کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے کچھ انسانوں کو چنا جو کہ اس مقصد کی یادہانی کے لیے رب تعالیٰ نے مبعوث کیے۔ سرزمین عرب بھی اپنے اس بنیادی مقصد سے انحراف کر چکی تھی اور اس کے ساتھ مزید جہالت کے بادلوں کی وجہ سے وہ تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس وقت مکہ مکرمہ کی زمین پر سیدہ آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا کے گھر مسرتوں کا نور چمکا، اس نور مجسم نے فقط سیدہ آمنہ کو مسرور نہیں کیا بلکہ تمام غمزدوں اور درد کے ماروں کے لبوں پر مسکراہٹیں پھیل گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول پیر کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی۔ اس وقت واقعہ اصحاب فیل کو پچپن دن گزر چکے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے والدین کریمین کا ذکر بھی اس باب میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی نیک سیرتی و خوبصورتی میں بے مثال ہونے کا ذکر کیا ہے۔
دوسرا باب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے متعلق ہے۔ جس میں سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا آپ کی رضاعت کے لیے انتخاب اور پھر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آمد کی بعد جو برکات کا ظہور سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے کیا اس کا ذکر ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ یہ مکہ کے معزز لوگوں کا رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ماں کی گود میں پلتا دیکھنے کی بجائے صحرا میں رہنے والے قبیلوں کے پاس بھیج دیتے تھے تاکہ وہ دیہات کی خالص غذائیں کھائیں، جو ان کی جسمانی صحت کے لیے بھی مفید ہوتیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیدہ حلیمہ کا ایک جانب سے دودھ پینا غیر معمولی بات تھی جو کہ اس بات کا ثبوت تھا کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام عدل قائم کریں گے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ابتدائی کلام بھی حمد الٰہی تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنے رب کے ساتھ آپ کا رشتہ اس وقت بھی بہت مضبوط تھا۔ نیز آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی برکات کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے بکریاں اتنا دودھ دیتیں کہ ایک دن کا دودھ چالیس دن کے لیے کافی ہو جاتا۔ بکریوں کی تعداد میں بھی کثیر اضافہ ہوا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام جس جنگل میں جاتے وہ ہرا بھرا ہو جاتا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے چار سال بنو سعد کو اپنی برکات سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو سعد کی بکریاں چرائیں جو کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
تیسرا باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لڑکپن کے بارے میں ہے۔ اس میں چھے سال کی عمر میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی والدہ کے وصال کا بیان ہے، مقام ابواء پر آپ رضی اللہ عنہا کا دوران سفر انتقال ہوا۔ اس کے بعد حضرت عبد المطلب ہاشمی کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش ہوئی تو آٹھ سال کی عمر میں ان کا بھی وصال ہو گیا تو جناب ابو طالب ہاشمی نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پرورش کی ذمہ داری اٹھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیر و برکات کا ظہور جناب ابو طالب کے گھر میں بھی ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمدہ اخلاق کی گواہی جناب ابو طالب نے بھی دی۔ جناب ابو طالب ہاشمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اپنے بچوں سے بڑھ کر کی۔ دس سال کی عمر میں اپنے چچا جناب زبیر بن عبد المطلب ہاشمی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا سفر کیا۔ اس سفر میں ایک وادی میں ایک اونٹ لوگوں کو گزرنے سے روک رہا تھا جب اس اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اونٹ پر سوار ہوئے۔ واپس آئے تو وہ وادی پانی سے بھری ہوئی تھی۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا میرے پیچھے چلو ، آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وادی میں تشریف لے گئے تو پانی خشک ہو گیا۔ مکہ آ کر لوگوں نے یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ اس بچے کی شام ہی نرالی ہے۔ جناب زبیر بن عبد المطلب ہاشمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا تذکرہ اور ان کا آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی میں کردار کے بارے میں سیرت کی کتابوں میں کافی کم بات ہوئی۔ یہ کمی اس کتاب میں بھی ہے مگر چونکہ یہ کتاب ہی اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لکھی گئی تو اس حوالے سے اس کو گنجائش دی جا سکتی ہے۔ پھر اکثر کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سفر یمن کے بارے میں بھی کم بات کہ گئی ہے۔ اس لحاظ سے مصنف داد کے مستحق ہیں انہوں نے ایک کمی کو پورا کیا ہے۔
سفر یمن کے بعد جناب ابو طالب ہاشمی کے ساتھ سفر شام کا ذکر ہے جو کہ بارہ سال کی عمر میں ہوا۔ اس میں بحیرہ راہب جس کا نام برجیس تھا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامات نبوت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جان لیا اور جناب ابو طالب ہاشمی کو کہا کہ ان کو آگے مت لیکر جائیں، جس کو جناب ابو طالب ہاشمی نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی جان کی حفاظت کے پیش نظر قبول فرمایا۔ اس کے علاوہ مزید تجارتی سفروں کا بیان ہے مگر ان کی تفصیل نہیں بیان کی گئی۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کو تجارت کے طور پر لے جانے کا ذکر ہے۔ یہاں بھی مصنف نے تفصیل بیان نہیں کی۔ کئی سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنا مال مضاربت کے طور پر دیتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس مال تجارت کا معاملے مضاربت والا تھا۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کے حوالے سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دو یمن کے سفر کیے۔
معاہدہ حلف الفضول کا ذکر ہے جس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا جناب زبیر بن عبد المطلب ہاشمی کے ساتھ شامل تھے جس میں غریبوں کی امداد اور مظلوموں کی مدد کرنے پر سرداران قریش نے معاہدہ کیا۔ اعلان نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاہدے میں شرکت پر مسرت کا اظہار فرماتے تھے۔
چوتھا باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوانی کے بارے میں ہے۔ اس میں ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال تجارت کو شام لیکر جانے کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغام نکاح بھیجا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمایا۔ بوقت نکاح ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے بارے میں مشہور قول چالیس سال ذکر کیا ہے بہتر اس کے بارے میں دوسرے اقوال کا حاشیہ میں ذکر کر دیا جاتا۔ پھر اس ہی عرصے میں ایک اہم واقعہ تعمیر کعبہ کا ہوا جس میں حجرہ اسود کی تنصیب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دانشمندی اور فراست سے ایک بڑے نزاع کا تصفیہ کروایا جس سے تمام فریقین مطمئن ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چالیس سالہ زندگی کے بارے میں ایک مختصر خاکہ ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرافت اور تکریم والی زندگی گزاری۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت اور صداقت کی مکہ مکرّمہ کا ہر فرد گواہ تھا۔ آپ کا کردار اتنا صاف اور بے داغ تھا کہ کوئی بھی اس معاشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔
پانچواں باب آغاز وحی اور تبلیغ اسلام کے مراحل کے بارے میں ہے۔ وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو رات خواب میں دیکھتے دن کے اجالے میں اس کی تعبیر واضح ہو جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غار حرا معمول کے مطابق گوشہ نشین ہوتے رہتے تھے تو رمضان المبارک کے ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام رب کا روح پرور پیغام بصورت وحی لیکر آئے۔ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خفیہ طور پر ان لوگوں کو دعوت اسلام دی جن پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعتماد تھا۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو اس مرحلے پر دعوت اسلام پیش کی گئی اور انہوں نے قبول فرمائی۔
دوسرے مرحلے قریبی خاندان کے لوگوں تک اس دعوت کو پہنچانے کے لیے دعوت ذوالعشیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی خاندان والوں کو دعوت اسلام دی گئی۔ اس مرحلے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو لہب کا رویہ منفی تھا۔
اعلان نبوت کے چوتھے سال کھلم کھلا سب کو دعوت دین دی گئی۔ علی الاعلان بت پرستی اور شرک کی غلاظت کو بیان کیا گیا۔
جب دعوت اسلام کا سلسلہ کھلم کھلا شروع ہوا اور معبودانِ باطلہ کا براہ راست انکار کیا جانے لگا تو کفار مکہ نے اہل ایمان پر ستم کا سلسلہ شروع کیا۔ چھٹا باب اس سلسلے میں ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں پر کفار نے سختیاں شروع کر دیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کعبہ میں خطبہ دیا تو کفار و مشرکین آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو اتنا مارا کے منہ لہو لہان ہو گیا۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ بھی اولین اہل ایمان میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی گلی میں رسی ڈال کر بازاروں میں گھسیٹا جاتا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ان کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے حتیٰ کہ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے جام شہادت نوش کیا۔مصنف نے چند مثالوں سے بتانے کی کوشش کی ہے کہ توحید کے اعلان کے بعد کفار مکہ کی جانب سے کس قدر سختیاں اور مظالم کا سامنا کرنا پڑا مگر مومنین کے ایمان کو یہ متزلزل نہ کر سکے۔ کفار کے مظالم جب سلسلہ بڑھ گیا تو مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کی اجازت ملی تو کچھ مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے۔
کفار کے مظالم کا دائرہ فقط صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک نہ تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استقامت میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خاندان کا بائیکاٹ کر دیا۔ ساتواں باب اس ہی بارے میں ہے۔ شعب ابی طالب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محصور کیا گیا پھر جب یہ مقاطعہ ختم ہوا تو کچھ ہی وقت بعد جناب ابو طالب ہاشمی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھرپور حامی تھے کا انتقال ہوا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا تو اس کے ہفتے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مضبوط سہارا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی دنیا سے پردہ فرما گئیں۔ یہ دونوں ہستیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہت بڑا سہارا تھیں یوں ان کا رخصت ہو جانے کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت رنج ہوا۔ اس سال کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے عام الحزن قرار دیا۔
آٹھواں باب سفر طائف اور ہجرت مدینہ کے بارے میں ہے۔ طائف کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر نہیں کی اور ستم کا مظاہرہ کیا اس کا بیان ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سخت ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ طائف والوں نے تباہی وبربادی کو دعوت دی تھی مگر رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے ان سے عذاب ٹلا، اس امید کے ساتھ کے ان کی آنے والی نسلیں عقیدہ توحید اختیار کر کے شرک سے دوری اختیار کریں گے۔ سفر طائف سے واپسی پر مقام نخلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تہجد کی نماز ادا فرما رہے تو جنات کی جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت سن کر ایمان لے آئی۔ ان جنات کی تبلیغ سے جنات کے دیگر گروہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
اس کے بعد بیعت عقبہ اولی ، ثانیہ اور ثالثہ کا بیان ہے۔ ہجرت مدینہ کا حکم ہوا تو مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حضرت سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی۔ پھر مسلمانوں نے بھی آہستہ آہستہ مدینہ ہجرت شروع کی۔ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملکر ہجرت کی اور امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کی۔ اس عرصے میں ایک اہم واقعہ معراج کا ہوا۔ جس کا ذکر اس جگہ نہیں ہے۔ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ایک ڈیڑھ صفحہ میں اس کو بیان کیا جانا چاہیے تھا۔
نواں باب ہجرت سے لیکر صلح حدیبیہ تک کے واقعات کے بارے میں ہے۔ یہ اس کتاب کا سب سے طویل باب ہے۔ اس میں اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے دوران ہوئے کچھ اہم واقعات کو ذکر کیا گیا۔۔جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قباء میں آمد ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کی زمین پر مسجد قباء کی بنیاد رکھی۔ مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا انتظار پہلے سے ہو رہا تھا۔ مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے سات ماہ حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیام گاہ کے نزدیک بنو نجار کی ایک زمین جو دو یتیم بچوں کی تھی قیمتاً خریدی اور مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کی قیمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کی۔ اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ مسجد نبوی کی تیاری کے ساتھ ہی اس کے آس پاس حجرے تعمیر ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر سے وہاں منتقل ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواخات مدینہ کے تحت انصار اور مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا۔ یہ تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہے جہاں اس بنیاد پر قائم کیا گیا رشتہ خونی رشتے سے زیادہ مضبوط ہو گیا۔ قبلے کی تبدیلی ایک بڑا واقعہ تھا جو کہ ذکر ہوا ہے۔غزوہ بدر جو حق و باطل کا پہلا جنگی معرکہ تھا کے بارے میں قدرے تفصیل سے گفتگو ہوئی ہے۔اس جگہ ایک کنواں تھا جس کے مالک کا نام بدر تھا۔ اسی وجہ سے اس کا نام بدر پڑا۔ مصنف نے لکھا کہ کفار کے لشکر کی قیادت عتبہ بن ربیعہ کر رہے تھے، یہ بات مزید تحقیق طلب ہے کیونکہ ابو جہل کی قیادت کا بھی ذکر موجود ہے۔ بدر کے بعد غزوہ احد کا ذکر ہے۔مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان ہو چکے تھے، انہوں نے اپنا ایمان خفیہ رکھا ہوا تھا۔ کفار کی نقل و حرکت کی اطلاع انہوں نے مدینہ پہنچائی۔ غزوہ احد کے بعد رجیع اور بیر معونہ کے حادثات کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بنو نضیر کا محاصرہ اور ان کی مدینہ سے بے دخلی کو بیان کیا ہے۔ غزوہ بنو مصطلق اور واقعہ افک کو ذکر کرنے کے بعد غزوہ خندق اور اس کے بعد غزوہ بنو قریظہ کا ذکر ہے۔ آخر میں بیعت الرضوان اور صلح حدیبیہ کا ذکر ہے۔
دسواں باب حدیبیہ سے لیکر رحلت شریف تک کے واقعات پر ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا طویل باب ہے۔ اس باب میں مختلف حکمرانوں کی طرف خطوط ، غزوہ خیبر، ، غزوہ موتہ، فتح مکہ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کریمانہ برتاؤ جس کے نتیجے میں اہل مکہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد غزوہ حنین ، غزوہ تبوک کا ذکر ہے۔ وفود کا آ کر اسلام میں ہونے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں اور مختلف وفود کی آمد اور ان کی مختصر روداد ذکر ہے۔ حجتہ الوداع کے بارے میں قدرے زیادہ گفتگو کی ہے اور اس کے خطبے کے کچھ اہم نکات کو ذکر کیا ہے۔ بالخصوص عورتوں ، غلاموں اور غریبوں کے حقوق کے متعلق گفتگو کو مصنف نے زیادہ ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سترہ نمازوں کی امامت کروائی۔ مصنف نے لکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ یہ بات کچھ کمزور معلوم ہوتی ہے۔ اس بارے میں بہتر ہوتا مصنف دیگر اقوال ذکر کرتے جیسے کہ آخری باب کی آخری سطور میں انہوں نے اس چیز کا ذکر فرمایا ہے۔
گیارہواں باب شمائل و خصائل کے بیان میں ہے۔ اس میں شمائل زیادہ تر شمائل ترمذی سے مختصراً نقل کر دئیے گئے ہیں۔ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک کے بارے میں جو کچھ نقل ہے اس کو ذکر فرمایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد میانہ تھا مگر معجزہ تھا کہ کوئی دراز قد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند دکھائی دیتے۔ سر انور بڑا ، زلفیں ہلکی اور گھنگریالی تھیں۔ چہرہ انور چمکدار اور سرخ و سفید تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ آپ اپنے پیچھے سے بھی چیزوں کو ایسے دیکھتے جیسے سامنے سے دیکھتے۔ آپ کی آواز بہت مبارک اور فصیح و بلیغ تھی خطبہ میں دور و نزدیک والے یکساں اپنی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام سنتے تھے۔ سالن میں گوشت ، کدو ،سرکہ اور شہد مرغوب تھے۔ زیادہ تر سوتی لباس زیب تن فرماتے۔ گھوڑے کی سواری بہت پسند تھی۔اس کے علاوہ اونٹ، خچر اور دراز گوش پر بھی سواری فرمائی۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کمزورں کی مدد فرمانے والے، عاجزی فرمانے والے، مریضوں کی عیادت کرنے والے تھے۔ سب کی دعوت قبول کرتے اپنے ہاتھ سے کام کرتے۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر بڑے باوقار انداز میں گفتگو کرتے۔
قرآن مجید اور احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیشمار فضائل و خصائص بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے چند کو مصنف نے ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت تمام مخلوقات کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، اور انبیاء علیہم السلام کو فرداً فرداً جو کمالات حاصل ہوئے وہ تمام کمالات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں جمع کر دیئے گئے۔ نیز آپ کے کئی کمالات ایسے ہیں جس میں کسی کو حصہ نہیں ملا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج عطا ہوئی۔ اس کے علاوہ شق القمر ، ڈوبے سورج کو پلٹا دینا، شجر و حجر سے کلام کرنے سمیت بیشمار معجزات ہیں۔
مصنف نے قرآن مجید کی چند آیات بھی شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے کے لیے ذکر کی ہیں۔
سورہ النساء کی آیت ۶۴ جس میں گناہ گاروں کو فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور رسول بھی ان کی مغفرت کی دعا فرمائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا
دوسری آیت سورہ النساء کی آیت ۱۷۰ ہے جس میں رسول کے حق سے تشریف لانے کی خوشخبری دی گئی ہے
تیسری آیت سورہ المائدہ کی آیت پندرہ ہے جس میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشخبری کا ذکر ہے۔
سورہ التوبہ کی آیت ۱۲۸ بھی پیش کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رؤف اور رحیم ہونا بیان ہوا ہے۔
سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کا ذکر ہے
سورہ الانبیاء کی ۱۰۷ آیت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجنے کا ذکر ہے۔
سورہ سباء کی آیت ۲۸ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام لوگوں کے خوشخبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجنے کا ذکر ہے
سورہ الاحزاب کی آیت ۵۶ میں اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کا ذکر ہے اور اہل ایمان کو بھی صلوٰۃ و سلام کا حکم دیا گیا ہے
سورہ النجم کی پہلی چار آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راستگی کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ربّ العزت کی مرضی کے بغیر اپنی خواہش سے کوئی کلام نہیں کرتے
سورہ الضحیٰ کی پہلی پانچ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا دے گا کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام راضی ہو جائیں گے
سورہ الکوثر کی پہلی آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیر کثیر دیئے جانے کا ذکر ہے۔
قرآن مجید کی آیات کے بعد چند احادیث بھی مصنف نے ذکر کی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ
سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روز قیامت تمام اولاد آدم کا سردار ہونا، لوائے حمد کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ ہونا، سب انسانوں کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم تلے ہونا۔
مصنف نے اس جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کی نعت بیان کی ہے جو کہ انہوں نے علامہ ابن الحاج المالکی رحمہ اللہ کی کتاب المدخل سے نقل کیا ہے۔ اس کے اشعار ایمان افروز ہیں۔ کچھ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر فدا ہوں۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ دیا کہ پتھر پر عصا مارنے سے چشم بہہ نکلے لیکن اس سے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ پاک نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہوا پر ایسا قابو دیا تھا کہ اس کا صبح کا چلنا ایک مہینے کی راہ اور شام کا چلنا بھی ایک مہینے کی راہ کے برابر ہوتا تھا لیکن اس سے بھی بڑھ کر تعجب خیز آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سواری براق ہے جس پر سوار ہو کر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ساتوں آسمانوں کی سیر کر آئے اور اسی رات فجر کی نماز مکہ میں آ کر ادا فرمائی
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر قربان اللہ پاک نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے کا معجزہ عطا فرمایا لیکن اس سے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بکری کے بھنے ہوئے زہریلے گوشت نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کلام کیا اور کہنے لگا مجھے مت کھائیں کہ مجھ میں زہر ملا ہوا ہے’
بارہواں باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان و متعلقین کے بارے میں ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان ، رضاعی رشتے دار ، ازواج مطہرات ، اولاد اطہار ، غزوات و سرایا میں مسلمان شہداء اور کفار مقتولین کا ذکر ہے۔ جس کے مطابق شہداء کی تعداد ۱۸۱ جبکہ مقتول کفار کی تعداد ۲۰۲ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استعمال کی عمومی چیزیں سواریاں جن میں اونٹنیاں ، خچر ، دراز گوش اور گھوڑے اور ایک سفید مرغے کا ذکر ہے جبکہ اس کے ساتھ بکریوں کا بھی ذکر ہے۔
اس باب میں مصنف نے ایک چارٹ کے ذریعے ہی معلومات فراہم کی ہیں اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے اختصار کے پیشِ نظر یہ اچھا اسلوب ہے ورنہ اس میں طوالت یقینی تھی۔
تیرہواں باب حیات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نظر میں کے نام سے ہے جس میں اسلامی سن ، عیسوی سن اور اہم واقعات کے نام سے تین کالموں میں حیات طیبہ کے اہم واقعات کو ایک دو سطور میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اجمالی طور پر حیات طیبہ کے تعارف کی حد تک عمدہ چیز ہے۔
کتاب کے لیے رنگین کاغذ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جس سے اس کا حسن نکھر کر سامنے آیا ہے۔ پھر کچھ مقامات کی تصاویر کو بھی کتاب میں متعلقہ باب کے لحاظ شامل کیا گیا ہے جس سے کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مصنف نے جتنی باتیں بھی کتب حدیث و سیر سے نقل کی ہیں ان کا حوالہ اس ہی صفحے کے حاشیے میں دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب اختصار کو ملحوظ خاطر رکھ کر لکھی گئی ہے تو اس میں جامعیت کا عنصر خوب پایا جاتا ہے۔ مختصر سیرت میں بہت سی باتیں جو اہم ہوتیں ہیں ویسے تو سیرت مقدسہ کا ایک ایک واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے تو بہت سے واقعات کو چھوڑنا قابلِ فہم ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا حامد سراج مدنی کو جزائے خیر عطا فرمائے اور دعوت اسلامی والوں کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے۔ یہ کتاب اپنے اختصار کے باوجود پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور بہت ہی قیمتی معلومات سیرت کے طالب علم کو فراہم کرتی ہے۔ پھر سیرت مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و شمائل اور متعلقات کے بارے میں بھی جو معلومات ملتی ہیں ان پر الگ سے تفصیلی گفتگو کی بھی گنجائش موجود ہے۔
کمنت کیجے