جہانگیر حنیف
زاہد مغل صاحب کو علمِ کلام میں رسوخ حاصل ہے۔ اس میں شبہ نہیں۔ ان کا خود پر اعتماد بھی قابلِ رشک ہے۔ خود پر غیر متزلزل یقین ہو اور کچھ کلامی مباحث بھی پڑھ رکھے ہو، تو جو اغلاط سرزد ہونا ممکن ہے، ان کے لیے میرے ذہن میں کامیڈی کا عنوان آتا ہے۔ کیونکہ ایسی غلطیاں آپ کے لیے نشاط کا باعث بنتی اور اس یقین میں اضافہ کرتی ہیں، جو قدرت سے آپ کو حاصل ہے۔ انھوں نے راقم کو “قصہ گو” کہا، “غم و غصہ سے مغلوب الحال” قرار دیا اور “متاثرِ کانٹ” کا عنوان دیا۔ یہ ان کے عظیم انسان ہونے اور ہمارے مبتدی ہونے کی چند گواہیاں ہیں۔ ان کے احباب کے شواہد اس میں شامل کرلیں، تو شاید یہ علم “اضطرار” کی سطح کو چھو لے۔ اس مختصر مگر ضروری تمھید کے بعد، ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ زاہد مغل صاحب کے موقف پر دس اعتراضات ہم پہلے ہی پیش کر چکے ہیں۔ انھوں نے محض ایک اعتراض کا جواب دینے کی زحمت فرمائی اور وہ یہ کہ “تم خود تضاد کا شکار ہو”۔ کاش وہ اپنی اصطلاح “لازمی وجودی حقائق” کی تعریف پیش کرنے میں وقت صرف کرتے، تو سب کا فائدہ ہوتا۔ انھوں نے محض الزامی جواب دینے پر اکتفاء کیا۔ یہ ان کا اپنا فعل ہے۔ آج ہم ان کے موقف پر گیارہواں اعتراض پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
گیارھواں اعتراض یہ ہے کہ اشاعرہ کا بنیادی تناظر اس مبحث میں زاہد مغل صاحب کے موقف سے یکسر مختلف ہے۔ زاہد مغل صاحب علت کے موضوع کو جیسے پیش کرتے ہیں، وہ نہ صرف خلطِ مبحث کا باعث بنتا ہے، بلکہ وہ متضاد باتیں ایک ہی قوت سے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اشاعرہ کا بنیادی موقف تھا کہ اللہ تعالیٰ کے افعال اغراض پر مبنی نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیئت کے تحت مخلوقات کو تخلیق کیا اور انھیں احکامات دیے۔ تخلیقِ کائنات اس کی منشاء تھی۔ یہ کسی حکمت کا تقاضا نہیں تھا اور نہ کوئی مصلحت اللہ تعالیٰ کے پیشِ نظر تھی اور نہ ہی کوئی علت اس تخلیق کا موجب بنی۔ مصلحت، غایت اور حکمت کی نفی اصل میں علت کی نفی تھی۔ حکمت، مصلحت اور غرض جیسے الفاظ پر غور کریں، تو علت کے معنی بھی خودبخود واضح ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی کام کیا جاتا ہے، تو وہ کام کسی مقصد کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی کوئی غایت ہوتی ہے۔ علت یہاں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے cause کا لفظ ہے۔ جب ہم for the cause of Islam جیسی تعبیر اختیار کرتے ہیں، تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ ہم اسلام کی خاطر یہ کام کرنے کا بیڑہ اٹھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بچوں کی مذہبی تعلیم کی غرض سے کوئی درسگاہ قائم کی جارہی ہو، اور کہا جائے کہ ہم یہ کام اسلام کی خاطر انجام دے رہے ہیں۔ تو یہاں cause کے بالکل دوسرے معنی ہونگے۔ اس سے قطعاً یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ اسلام نے اینٹیں جوڑ کر اس درسگاہ کی عمارت کھڑی کی ہے۔ ایک مستری کا اینٹیں جوڑ کر دیوار کھڑی کرنا، علت و معلول کے جو معانی رکھتا ہے، وہ اس سے یکسر مختلف ہیں، جو اس درسگاہ کی نظریاتی بنیادوں میں پوشیدہ ہیں۔ سمجھنے کے لیے ہم اول الذکر کو originating cause اور ثانی الذکر کو ہم end cause کہہ سکتے ہیں۔ واقعاتی تعلیل کو نظریاتی تعلیل پر وارد کرنا پست درجہ کا سوء فہم ہے۔ زاہد مغل صاحب نے ان دونوں causes کو آپس میں خلط کرکے علم الکلام کا بالعموم اور اشاعرہ کے موقف کا بالخصوص حشر نشر کردیا ہے۔
امام ابوالحسن الأشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتے ہیں، اس سے سوال پوچھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے افعال کی کوئی علت نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ مالک ہے۔ “تمھید الآوائل و تلخیص الدلائل” میں امام باقلانی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے: “باب فی صنع اللہ للعالم لیس للغرض”. یعنی عالَم کے بنانے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر کسی غرض کے نہ ہونے کا باب۔ اس عنوان ہی سے واضح ہے کہ اصل مسئلہ غرض و غایت کی نفی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی سائل ہم سے پوچھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو بنایا، تو کیا اس کے بنانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ یا اس کے بنانے کا کوئی داعیہ تھا۔ کوئی محرک تھا، کوئی دوسری چیز اس کا باعث بنی۔ تو ہمارا جواب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو کسی وجہ سے پیدا نہیں فرمایا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ داعیات، محرکات اور اغراض محتاج وجود سے جڑے امور ہیں۔ یہ امور اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق نہیں۔ جس ہستی میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں، وہ حادث ہے، قدیم نہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی ذات ان سے ماورا ہے۔ شہرستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو جواہر اور اعراض سے بنایا اور اس میں خلق کی انواع اور اصناف کو تخلیق کیا۔ یہ کسی ایسی علت کی وجہ سے نہیں تھا، جس نے پروردگار کی ذات کو خلق پر مجبور کردیا۔ مزید رقم طراز ہیں:
مشيته كلية متعلقة بنظام الكل، غير معللة بعلة حتى لا يقال: انما اختار هذا لكذا. وانما فعل هذا لكذا فلكل شئ علة و لا علة بصنع الله (الملل و النحل)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی مشیئت کل کائنات کے نظام سے جڑی ہے۔ وہ کسی علت سے معلول نہیں۔ حتی کہ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے یہ چیز اس وجہ سے اختیار کی۔ اس کے کام کی یہ وجہ ہے۔ ہر چیز کی علت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے افعال کی کوئی علت نہیں۔
اس پیرگراف سے واضح ہے کہ مصنف ہمیں یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں کسی توجیہ کو پیش کرنے کا ذمہ دار نہیں۔ اس کے افعال ان کاموں کی خود توجیہ ہیں۔ وہ اپنی منشاء سے جو کرتا ہے، وہ اس عمل کی توجیہ ہے۔ یعنی خدا کی رضا۔ ہر چیز کسی علت سے معلول ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی صناعی کوئی علت نہیں رکھتی۔ “ہر چیز کی علت ہے” کے الفاظ اہمیت کے حامل ہیں۔ زاہد مغل صاحب جس دیدہ دلیری سے اشاعرہ کے موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں، اس کا واضح ثبوت ہمیں ان الفاظ سے ملتا ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ندعي انه لا يجب عليه رعاية الأصلح لعباده، بل له أن يفعل ما يشاء، ويحكم بما يريد خلافا للمعتزة. (الاقتصاد فی الاعتقاد)
ترجمہ: ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اپنے بندوں کے مصالح کی رعایت لازم نہیں۔ بلکہ اس کو جائز ہے کہ وہ جو چاہے، سو کرے۔ جس چیز کا ارادہ کرے، اس کا حکم دے۔ ہمارا یہ موقف معتزلہ کے عین الٹ ہے۔
امام ابوالحسن الأشعری، امام باقلانی، امام شہرستانی اور امام غزالی رحمھم اللہ کی عبارتوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے اشاعرہ کے موقف کا جو تناظر شروع میں بیان کیا، وہ بالکل درست یے۔ دوسرا یہ کہ زاہد مغل صاحب اس موقف سے کوسوں دور کھڑے ہیں اور علت کی نفی کی گردان دہرا رہے ہیں، اس کا اشاعرہ کے اوریجنل موقف سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ وہ اس موقف کی غلط ترجمانی کے مرتکب ہیں۔
کمنت کیجے