عامر حسینی
کوریائی مصنفہ ہان کانگ کے ناول “دا ویجیٹیرین ” کا انگریزی ترجمہ 2016ء میں ڈیبورا اسمتھ نے کیا تھا – اور یوں انگریزی خواں طبقہ پہلی بار ہان کانگ سے واقف ہوا- ڈیبورا اسمتھ نے یہ ترجمہ ہان کانگ کی مشاورت سے کیا تھا – لیکن لاس اینجلس ٹائم کے بک ریویو میں ایک ریویو میں پہلی بار تبصرہ نگار نے اس ترجمے کے استناد پر سوال اٹھایا اور اس نے یہ دعوا کیا کہ اس ترجمے میں ڈیبورا اسمتھ نے ہان کانگ کی قدرے اسپاٹ اور کھردری نثر کو بہت شوخ اور جذباتی بنایا ہے – کم و بیش یہی بات بعد۔ ازاں پیرس ریویو میں ٹم پارک نے اپنے تبصرے میں 2017ء میں اٹھائی جب اس ناول کو بکر پرائز ملا – اس کا کہنا تھا کہ جس جیوری نے یہ فیصلہ کیا ان میں سے ایک بھی کورین زبان نہیں جانتا تھا –
میں جب ہان کانگ کے ناول کا اردو میں ترجمہ کر رہا تھا تو یہی سوال میرے ذہن میں بھی تھا – لیکن اسی دوران مجھے اچانک یاد آیا کہ جب میں جیک دریدا کی کتاب ” آف گراموٹولوجی” کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہا تھا جو گیاتری چکرورتی سپیوک نے دوسری بار کیا تھا تو اس کے شروع میں معروف فیمنسٹ اسکالر جیوڈتھ بٹلر کا لکھا تعارف لگا ہوا تھا جس میں اس نے آغاز میں لکھا تھا :
“لفظ کے ساتھ ہی ہم زبانوں کی کثرت اور حدود کی نا خالصی کے اندر داخل ہو جاتے ہیں۔»
— ژاک دریدا، “کیا ہے ایک ‘مناسب’ ترجمہ؟”
دریدا کے فلسفے کے مطابق، جیسے ہی ہم کسی لفظ یا زبان کا استعمال کرتے ہیں، ہم فوراً زبانوں کی کثرت اور ان کی غیر مکمل یا غیر خالص حدود کے اندر آ جاتے ہیں۔
اس اقتباس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کبھی بھی ایک صاف اور واضح حد بندی نہیں کرتی۔ جب ہم بولتے ہیں یا لکھتے ہیں، تو ہمارے الفاظ کے معانی صرف ایک زبان تک محدود نہیں ہوتے بلکہ کئی مختلف زبانوں اور ثقافتی حوالوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ دریدا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زبان کی ساخت میں خود ہی ایک قسم کی غیر یقینی اور پیچیدگی شامل ہوتی ہے۔ کوئی بھی لفظ اپنے معنی کو مکمل طور پر واضح نہیں کر سکتا کیونکہ ہر لفظ کا مفہوم دوسرے الفاظ اور زبانوں کے ساتھ مل کر بنتا ہے، اور اس وجہ سے، زبانیں اور ان کے حدود مکمل طور پر خالص اور قطعی نہیں ہوتی۔
یعنی، دریدا کے مطابق، زبان کبھی بھی مکمل طور پر ایک معنی کو بیان نہیں کرتی بلکہ ہمیشہ ایک قسم کی کثیر المفہومیت یا مختلف معانی کے امکانات کو جنم دیتی ہے۔ “Impurity of the limit”
سے مراد یہ ہے کہ زبان کی حدود صاف اور واضح نہیں ہوتیں، بلکہ مختلف مفاہیم اور تعبیرات میں گھری ہوتی ہیں۔
جیوڈتھ بٹلر آگے لکھتی ہیں :
“1967 میں، دریدا نے فرانسیسی زبان میں تین انقلابی کتابیں شائع کیں: ڈی لا گراماٹولوجی، لا ووکس ایٹ لی فی نومین، جو ہسرل کے اشاروں کے نظریے پر ایک مطالعہ ہے (سپیش اینڈ فینومینا، جسے 1973 میں ڈیوڈ بی۔ ایلیسن نے ترجمہ کیا)، اور لِکرچور ایٹ لا ڈیفرانس (رائٹنگ اینڈ ڈیفرینس، جسے 1978 میں ایلن بیس نے ترجمہ کیا)۔ جب آف گراماٹولوجی کو 1976 میں گایتری چکرورتی اسپیوک نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور شائع کیا، تو اس نے دریدا میں زبردست دلچسپی کو جنم دیا جو کہ ایک چھوٹے سے اسکالرز کے گروپ کے علاوہ کہیں اور عام نہیں تھی، جو اس کے فرانسیسی کام اور چند دستیاب انگریزی ترجموں سے واقف تھے۔
ایک طرح سے، 1976 کے انگریزی ترجمے نے 1967 کے فرانسیسی متن کو ایک بار پھر جنم دیا ایکس پوسٹ فیکٹو۔ اس ترجمے پر کی جانے والی تنقید یقیناً اس پریشانی کو ظاہر کرتی ہے کہ انگریزی میں دریدا کو کس طرح قبول کیا جائے گا، بلکہ یہ بھی کہ “دریدا” کا کون سا ورژن قابلِ شناخت یا قابلِ فہم ہوگا۔
کم از کم دو مختلف طریقے تھے جن کے ذریعے یہ سوال ابھرا کہ آیا دریدا انگریزی میں قابلِ مطالعہ ہوں گے یا نہیں:
(1) کیا انہیں پڑھا جا سکتا تھا، اس چیلنج کے پیشِ نظر جو انہوں نے روایتی پڑھنے کے طریقہ کار پر پیش کیا تھا؟،
اور
(2) کیا انہیں پڑھا جا سکتا تھا؟
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انگریزی ورژن اصل فرانسیسی کی کلیدی اصطلاحات اور ترجموں کو ہر تفصیل کے ساتھ نہیں پکڑ سکا؟
ان سوالات کے جوابات انحصار کرتے تھے کہ آیا وہ لوگ جو “قابلِ مطالعہ ہونے” کی شرائط اور ضوابط کی نگرانی کرتے ہیں، اپنی روایتی طریقہ کار پر تنقید کو تسلیم کر سکیں گے یا نہیں۔
کچھ طریقوں سے، یہ ایک عملی سوال ہے، اگرچہ نفسیاتی نہیں، اور اس طرح متن کی اشاعت ایک شرط تھی: کیا وہ پیروی کریں گے؟ کیا وہ متفق ہوں گے کہ اس کی پیروی کی جائے؟
کیا وہ ایک ایسے پڑھنے کے طریقے کو مسترد کر دیں گے جو سوالات اٹھاتا ہے کہ کسی متن کی پیروی کرنے کا کیا مطلب ہے، خواہ وہ جس بھی سمت میں لے جائے؟”
میں اسے مزید کھولتا ہوں تاکہ بات اور آسان فہم ہوجائے –
یہ اقتباس ژاک دریدا کے کاموں کے انگریزی میں استقبال کے بارے میں بات کرتا ہے، خاص طور پر ان کی 1967 کی اہم تحریروں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور یہ کہ ان کے ترجمہ ہونے کے بعد انہیں کس طرح دیکھا گیا۔
دریدا، جو پوسٹ اسٹرکچرلزم/پس ساختیات کے ایک اہم فلسفی تھے، نے زبان، معنی، اور پڑھنے کے روایتی طریقوں کے بارے میں چیلنجنگ خیالات پیش کیے۔
ان کی تحریریں، جو پہلے فرانسیسی میں شائع ہوئیں، ان خیالات کو متعارف کراتی ہیں جو روایتی پڑھنے کے طریقوں کو سوالات کے کٹہرے میں لاتے ہیں، اور ان کا درست ترجمہ کرنا مشکل ثابت ہوا۔
یہاں درج ذیل اہم نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
1. ترجمے کی دشواری: دریدا کے خیالات، جو آف گراماٹولوجی جیسی کتابوں میں پیش کیے گئے ہیں، کا ترجمہ کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا رہتا ہے ۔
ان کی تحریریں پیچیدہ نظریات پر مشتمل ہوتی ہیں جو زبان، معنی، اور تفہیم کے روایتی طریقوں کو چیلنج کرتی ہیں۔ اس لیے، ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کا ترجمہ صرف الفاظ کو منتقل کرنے کا نہیں بلکہ ان فلسفیانہ تصورات کو برقرار رکھنے کا مسئلہ ہوتا ہے، جو ترجمے کے دوران اکثر ضائع ہو سکتے ہیں۔
2. ترجمے کے ذریعے ایک نیا دریدا پیدا ہونا: جب دریدا کا کام گایتری اسپیوک کے ذریعہ 1976 میں ترجمہ کیا گیا، خاص طور پر آف گراماٹولوجی کا، تو اس نے ایک نئے سامعین میں ان کے فلسفے کو متعارف کرایا۔
یہ ترجمہ ان کے خیالات کو انگریزی بولنے والے قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ بنا، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ انگریزی میں ان خیالات کو کتنی درستگی سے پیش کیا جا سکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک نیا دریدا تیار ہوا، جو اصل فرانسیسی ورژن سے کسی حد تک مختلف ہو سکتا ہے۔
3. قابلِ مطالعہ ہونے پر تشویش: یہاں یہ بحث پیدا ہوتی ہے کہ آیا دریدا کے پیچیدہ خیالات انگریزی میں درست طریقے سے سمجھے جا سکتے ہیں؟
کیا ان کے خیالات کو انگریزی میں اسی طرح پیش کیا جا سکتا ہے جیسے فرانسیسی میں کیے گئے تھے؟
اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگریزی قارئین دریدا کے ان چیلنجوں کو سمجھ سکیں گے جو انہوں نے فرانسیسی میں پیش کیے تھے۔
4. قارئین کی ردعمل کی شرط: دریدا کے کام کا انگریزی میں ترجمہ شائع کرنا ایک شرط تھی، کہ آیا قارئین ان کے خیالات کو قبول کریں گے یا نہیں۔
یہ ایک طرح سے قارئین کے فکری ردعمل کی آزمائش تھی کہ وہ نئے اور غیر روایتی طریقوں کو قبول کریں گے یا روایتی پڑھنے کے طریقوں کو برقرار رکھیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دریدا کی تحریریں قارئین کو اپنے فکری دائرے سے باہر سوچنے کی دعوت دیتی ہیں۔
یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ دریدا کا کام صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک فکری چیلنج بھی تھا۔ دریدا کے خیالات کو صحیح طور پر کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ان کی فلسفیانہ پیچیدگیوں کو برقرار رکھنے کا سوال تھا۔
اس ترجمے کے ذریعے، دریدا کا کام انگریزی قارئین تک پہنچا، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوالات پیدا ہوئے کہ آیا یہ ترجمہ ان کے اصل خیالات کی عکاسی کر رہا ہے یا نہیں۔
قریب قریب کسی بھی فکشن کے متن کو ترجمہ کرتے وقت یہی سوالات اٹھتے ہیں جو ہان کانگ کے ناول کو انگریزی میں ترجمہ کرتے وقت بھی سامنے آئے –
اگلی تحریر میں ، میں جیوڈتھ بٹلر کے اس مضمون کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اسی طرح تشریح کے ساتھ پیش کروں گا – تاکہ بات مزید کھل کر سامنے آجائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عامر حسینی صحافت کے شعبہ سے وابستہ اور مختلف اخبارات کے کالم نویس ہیں ۔ سیاسی و سماجی امور کے علاوہ تاریخ و تصوف آپ کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
کمنت کیجے