Home » رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت
تفسیر وحدیث شخصیات وافکار کلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت

انبیا کی تعلیمات کا دائرہ اُن کی اپنی قوموں تک محدوداور اُن کی ہدایت زمان و مکان کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔یہ دعویٰ اِس زمانے کے بعض لوگوں کی  جانب سے سامنے آیا ہے۔اُن کے مطابق تمام انبیا اپنی اپنی قوموں میں مبعوث کیے گئے اور اُن کی تعلیمات اُنھی کی رعایت سے تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی عرب قوم کی طرف ہوئی اور آپ کی دعوت بھی عربوں کے حالات، زبان اور تہذیبی پس منظر کے مطابق تھی، لہٰذا یہ دعوت بھی عربوں ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ مزید برآں، قرآن مجید اپنے خطاب میں اِس دعوت کوعربوں تک محدود رکھتا ہے اور اپنے اولین مخاطبین کو اس بات کا مکلف نہیں ٹھہراتا کہ وہ اِسے پوری دنیا تک پہنچائیں۔

تاہم، اس کے برعکس مسلمانوں کا عمومی موقف یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری انسانیت کے لیے تھی اور قرآن مجید کا پیغام آفاقی ہے، جو تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لیے ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن کی روشنی میں اِسی نقطۂ نظر کے دلائل پیش کریں گے۔

قرآن مجید کے مطابق انبیا جو ہدایت لے کر آتے ہیں، وہ اپنی حقیقت میں ہمیشہ یکساں، اپنے پیغام میں عالم گیر اور اپنے اثرات میں آفاقی ہوتی ہے۔ کوئی پیغمبر نئی دعوت لے کر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰي بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بهٖ٘ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسٰي اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ.(الشوریٰ 42: 13)

ترجمہ:’’ اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ تم جس چیز کی طرف اِن مشرکوں کو بلا رہے ہو (کہ یہ خدا کو ایک مانیں)، وہ اِن پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی طرف آنے کے لیے چن لیتا ہے، لیکن اپنی طرف آنے کی راہ وہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تمام انبیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی دین کی دعوت لے کر آئے تھے۔ تاہم، اِس ہدایت کی پیشکش مخاطبین کی رعایت سے تبدیل ہوتی رہی ہے، کیونکہ پیغمبر جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں، اُس قوم کی تاریخ، زبان، کردار اور رسوم و آداب مختلف ہو سکتے ہیں۔ اِسی طرح انحراف کی نوعیت بھی مختلف ہو سکتی ہے، لیکن پیغمبر کی دعوت کے مشمولات، اِس خاص پس منظر کے باوجود، اپنی اساس اور معنویت میں بنی نوع انسان کے لیے مینارۂ علم و ہدایت ہوتے ہیں۔

اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے عالمی مرکز کو شرک کی آلایشوں سے پاک کیا۔ اس انحراف کو پروان چڑھانے والے، بلا شبہ قریش تھے، جو تاریخی اعتبار سے حرم کے پروہت تھے۔ یہ عرب قوم تھی جس کی ایک زبان، ثقافت اور شرک کے مخصوص مظاہر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اُن کی تاریخی حیثیت کی رعایت سے مخاطب کیا اور اُن کے باطل عقائد و نظریات کی تردید کی۔ تاہم، جو پیغام آپ نے اُنھیں پہنچایا، وہ یہ تھا کہ ان بتوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا ایک گم راہی اور برائی ہے۔ پیغمبر کا یہ دعویٰ اپنی حقیقت میں ایک آفاقی صداقت اور مسلمہ اخلاقی سچائی تھا، جس کا تعلق محض عربوں تک محدود نہیں تھا۔

لہٰذا انبیا کی تعلیمات اور دعوت کے مشمولات اپنی اصل کے اعتبار سے کبھی بھی زمان و مکان کی قید میں محدود نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنے وجود میں ایک عالم گیر پیغام، آفاقی صداقت اور تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا منبع ہوتے ہیں۔

پیغمبر جب یہ ہدایت لے کر قوم میں مبعوث ہوتے ہیں تو سب سے پہلے انسان کی فطرت میں موجود اُس الہامی شعور کو بیدار کرتے ہیں جو ہر انسان کو خیر و شر کی تمیز کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ تاہم، بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں انسان کا فطری شعور کافی نہیں ہوتا یا تفصیلات اور عملی اطلاق میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسے مواقع پر پیغمبر شریعت اور قانون کے ذریعے سے انسان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ قانون تین نوعیت کے احکامات پر مشتمل ہوتا ہے:

پہلی نوعیت کے وہ احکام ہیں جو مبنی بر علت ہیں، یعنی جنھیں کسی حقیقت کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ جب وہ حقیقت موجود ہوگی تو حکم پر عمل کیا جائے گا اور جب وہ حقیقت موجود نہیں ہوگی تو حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔

مثلاً شریعت نے وراثت میں بیٹوں کو بیٹیوں سے دگنا دینے کا حکم دیا ہے، جس کی وجہ اُن کی معاشرتی اور عملی منفعت میں فرق ہے۔ چنانچہ جب تک یہ حقیقت قائم رہے گی، قانون پر عمل بھی باقی رہے گا۔ اسی طرح عدت کی علت استبراے رحم ہے۔

بعض اوقات  یہ علت  سدّ ذریعہ (احتیاطی تدابیر) کے طور پر  حکم میں موجود ہوتی ہے۔

مثلاً لین دین میں ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا۔ یہاں حکم دیتے وقت ایک ممکنہ نزاع سے بچنے کا مقصد پیش نظر تھا۔ اگر اس نزاع کے خاتمے کے لیے کوئی متبادل طریقہ اختیار کر لیا جائے تو شریعت کا منشا پورا ہو جاتا ہے اور اصل ہدایت پر عمل ضروری نہیں رہتا۔

دوسری نوعیت کے وہ احکام ہیں جو انسان اور خدا کے تعلق میں خدا کے انتخاب پر مبنی ہیں۔

مثلاً نماز، روزہ، حج وغیرہ۔ یعنی خدا کی اطاعت، پرستش اور نذر میں کون سا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ چونکہ یہ خدا کے مطالبات ہیں، لہٰذا اُس نے اپنا مطلوب طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر انسان کو ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آئے تو خود خدا نے ان میں رخصت کے اصول بھی متعین کر دیے ہیں۔

تیسری نوعیت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق رسولوں کی مخصوص قوموں کے اصطفا سے تھا، یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل سے۔ اِن قوموں کو اُن کی منصبی حیثیت سے کچھ احکام دیے گئے:

مثلاً رسول کے اتمامِ حجت کے بعد نہ ماننے والوں پر سزا کا نفاذ۔ یہ احکام ان اقوام کو ایک خصوصی حیثیت اور متعین مشن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے دیے گئے تھے۔ اس نوعیت کے دینی احکام کی تفصیل اور اُن کی تخصیص کے وجوہات خود قرآن مجید نے بیان کر دیے ہیں۔ ان قوموں کے علاوہ کوئی اور شخص ان احکام کا مخاطب نہیں ہے، چنانچہ وہ ان پر عمل کرنے کا پابند بھی نہیں ہے۔

یہ اُس ہدایت کی تفصیل تھی جو  پیغمبر لے کر آتے ہیں۔اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت لے کر آئے، اس دعوت کو پہنچانے کے حوالے سے آپ کو اور آپ کی قوم کو قرآن مجید نے کیا ہدایات دیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل کی طرف مبعوث فرمایا تو سب سے پہلی ہدایت یہ فرمائی:

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (الشعراء 26: 214)

ترجمہ : ’’اور اپنے قریبی خاندان والوں کو بھی اِس سے خبردار کر دو۔‘‘

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاندان تھا جس کے پاس بیت اللہ کی تولیت تھی۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے دوسرے موقع پر مزید واضح فرمادی:

وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا  (الانعام 6: 92)

ترجمہ : ’’یہ (اُسی کتاب کی طرح) ایک کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے، بڑی خیر و برکت والی ہے، جو کچھ اِس سے پہلے آ چکا ہے، اُس کی تصدیق کرتی ہے، اِس لیے کہ تم اِس کے ذریعے سے لوگوں کو خوش خبری دو اور اِس لیے کہ اُنھیں متنبہ کردو جو ام القریٰ اور اُس کے گردوپیش کے رہنے والےہیں۔‘‘

چنانچہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلاً مخاطبین بنی اسمٰعیل ہی تھے اور آپ کو ان تک دعوت پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی۔ آپ انھی کے لیے عدالت بن کر آئے، لیکن جو پیغام قرآن مجید کی صورت میں آپ پہنچا رہے تھے، کیا وہ صرف بنی اسمٰعیل کے لیے تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن مجید میں بیان ہوا  ہے:

وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام 6: 19)

ترجمہ: ’’ اور میری طرف یہ قرآن اِس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کر دوں اور اُنھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘

یعنی بنی اسمٰعیل کے علاوہ بھی جس شخص تک یہ پہنچ جائے، اُس کے لیے ہدایت ہے۔ استاذ جاوید احمد غامدی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’یہ وہی بات ہے جو سورۂ فرقان (25)میں ’لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن روز قیامت تک ذریعۂ انذار ہے۔ علما جب اِس کی دعوت لے کر اُٹھیں تو اُنھیں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجاے اِسی کو ذریعۂ انذار بنانا چاہیے۔ خدا کی معرفت اور عقبیٰ شناسی کے لیے اِس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے جو لوگوں کو بیدار کر سکے۔‘‘(البیان 2/ 20)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل کو بھی پابند کیا کہ جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تک پہنچائی ہے، اسے باقی دنیا تک پہنچائیں، اس ذمہ داری کو قرآن مجید نے بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا (البقرہ 2: 143)

ترجمہ: ’’اِسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔‘‘

استاذ جاوید احمد غامدی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اصل میں لفظ ’وَسَط‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’ولد‘ کی طرح مذکر، مونث، واحد اور جمع سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس کے معنی درمیان کے ہیں اور اِس آیت میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بنی اسمٰعیل کے لیے آیا ہے۔ سورۂ حج (22) کی آیت 78 میں ’هُوَ اجْتَبٰكُمْ‘ کے الفاظ دلیل ہیں کہ اُنھیں اللہ تعالیٰ نے دین کی اِس شہادت کے لیے اُسی طرح منتخب کیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔ سورۂ بقرہ کی اِس آیت میں قرآن نے اِسی بنا پر اُنھیں درمیان کی ایک جماعت ’اُمَّةً وَّسَطًا‘ قرار دیا ہے، یعنی وہ جماعت جس کے ایک طرف اللہ و رسول اور دوسری طرف دنیا کی سب اقوام تھیں اور وہ اُن پر حق کی شہادت کے لیے مامور کیے گئے۔ شہادت کے معنی گواہی کے ہیں۔ جس طرح گواہی سے فیصلے کے لیے حجت قائم ہو جاتی ہے،  اُسی طرح حق جب اِس درجے میں واضح کر دیا جائے کہ اُس سے انحراف کی گنجایش باقی نہ رہے تو اُسے ’شہادت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا جماعت کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا پر برپا کر دیتے ہیں۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الہٰی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیاجاتا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچادیں۔ یہی شہادت ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الہٰی کی بنیاد بن جاتی ہے۔‘‘ (البیان 1/ 142-143)

قرآن مجید نے اپنے اولین مخاطبین، یعنی بنی اسمٰعیل کو بہ طور قوم ’’شہادت‘‘ کے منصب پر فائز کیا اور انھیں یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اللہ کے پیغام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچائیں تاکہ حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہو جائے اور خدا کی ہدایت پوری دنیا میں عام ہو جائے۔ اس عظیم ذمہ داری کا آغاز صحابۂ کرام نے کیا، جب انھوں نے اپنے عہد کے یہود، نصاریٰ اور گرد و نواح کی ریاستوں تک یہ پیغام پہنچایا۔ قرآن کی ابتدائی سورتیں اِسی دعوت کی سرگذشت بیان کرتی ہیں، جو رفتہ رفتہ اکنافِ عالم تک پھیلتی چلی گئی۔

صحابۂ کرام کے بعد بنی اسمٰعیل نے اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق اللہ کے پیغام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھائی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جب یہ دعوت غیر بنی اسمٰعیل تک پہنچی اور ہمیں یقین ہو گیا کہ قرآن اور سنت کی صورت میں یہ واقعی اللہ کی سچی ہدایت ہے تو ہم نے بھی اس پر ایمان لا کر اس کا مطالعہ شروع کیا۔

جیسے ہی ہم قرآن اور سنت کا مطالعہ کرتے ہیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور شریعت ہمارے سامنے بھی اسی طرح واضح ہو جاتی ہیں، جس طرح وہ صحابۂ کرام اور ابتدائی مخاطبین کے سامنے تھی۔ اس طرح یہ ہدایت ہمارے لیے بھی اتنی ہی اہم اور لازمی ہو جاتی ہے، جتنی بنی اسمٰعیل کے لیے تھی، کیونکہ یہ پیغام کسی ایک قوم تک محدود نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو اس ہدایت کو سچے دل سے قبول کرتا ہے، وہ اس سے وابستہ ہو جاتا ہے۔

اس کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے: جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے مخاطبین کو نماز کی ہدایت دی تو فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ 2: 21)

ترجمہ: ’’تم اپنے اُس پروردگار کی بندگی کرو،  لوگو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے اور تم سے پہلوں کو بھی، اِس لیے کہ تم (اُس کے عذاب سے) بچے رہو۔ ‘‘

یہ آیت اگرچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطبین کے لیے تھی، لیکن عبد اور معبود کے رشتے کی بنیاد پر جو عبادت مطلوب ہے، وہ خدا پر ایمان لانے کے بعد ہم پر بھی اسی طرح لازم ہو جاتی ہے، کیونکہ ہم بھی عبد کے مقام پر آ جاتے ہیں اور اپنے معبود کی ہدایت کے پابند ہو جاتے ہیں۔ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ. (الزاریات51:56)

ترجمہ: ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، (اور اُن سے تقاضا بھی یہی ہے)۔‘‘

چنانچہ ایمان، اخلاق اور شریعت کے وہ احکام جو بنی اسمٰعیل پر بہ طور انسان لازم تھے، ہمارے لیے بھی ویسے ہی لازمی ہیں، کیونکہ ہمیں بھی اللہ کے ساتھ تعلق کے اظہار اور فطرت کی ہدایت کی تفصیل کی ویسی ہی ضرورت ہے، جیسی بنی اسمٰعیل کو تھی۔ خدا کے قانون، یعنی شریعت کے ہم بھی اسی طرح پابند ہیں، جس طرح وہ قوم تھی۔گویا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اِس اعتبار سے پوری خلقت کے لیے ہوئی ہے،قرآن مجید نے اس   بات کو صریح الفاظ میں بیان کیا ہے:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (سبا 34: 28)

ترجمہ:’’ہم نے، (اے پیغمبر)،  تم کو جو بھیجا ہے تو تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن (افسوس ہے کہ) اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

استاذ جناب جاوید احمد غامدی اِس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ دوسرے رسولوں کی طرح آپ کی بعثت محض اپنی قوم کی طرف نہیں، بلکہ تمام خلق کی طرف ہوئی ہے۔ اپنی قوم کے اعیان و اکابر کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ کر آپ نے اِسی بنا پر اوس و خزرج کے لوگوں کو دعوت دی اور اُن کے بعد اہل کتاب اور اپنے گرد و پیش کے حکمرانوں کو بھی۔ اِس کے نتیجے میں جو لوگ ایمان لائے، یہ اُنھی کی مدد تھی جس سے عالمی سطح پر اتمام حجت کا اہتمام ممکن ہوا اور نبوت و رسالت کا منصب ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ اب اِس دعوت کا ابلاغ اُس امت کی ذمہ داری ہے جو نسلاً بعد نسلٍ اُنھی انصار کے تابعین اور تبع تابعین کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں کو بھی خدا نے یہ سعادت عطا فرمائی کہ بعد میں اُن کی بڑی اکثریت ایمان لا کر اُس منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار ہو گئی جسے قرآن میں ذریت ابراہیم کا منصب شہادت کہا گیا ہے۔‘‘(4/196)

یوں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت اور انبیا کی ہدایت کا ہر پہلو ہم سے بھی اسی طرح متعلق ہو جاتا ہے، جس طرح پہلی قوم سے تھا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور ہدایت کسی ایک قوم یا زمانے تک محدود نہیں۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ تمام انبیا ایک ہی دین کی دعوت لاتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام بھی پوری انسانیت کے لیے ہے۔

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں