عمران شاہد بھنڈر
اس بات میں رتی برابر بھی کوئی شک نہیں کہ ”بقا کا تصور“ سماجی تشکیل ہے، نہ کہ فطری۔ دنیا میں ایسی اقوام بھی موجود ہیں جن میں یہ تصور ارتقا کی اگلے مراحل میں پہنچ کر یا تو ناپید ہو چکا ہے یا جسمانی بقا سے صرف روح کی بقا تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس تصور کی بنیاد خواہش ہے نہ کہ علم۔ لہذا ہمہ وقت تشکیک میں رہنا اس کا مقدر ہے۔ عقیدے میں حتمیت ہے، علم نہیں۔ علم میں تشکیک ہے، حتمیت نہیں۔ تاہم اہم نکتہ جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مذہبی مفہوم میں بقا کا تصور بنیادی طور پر ایک موروثی تصور ہے۔ یہ تصور انسان کے اندر انتہائی شدت کے ساتھ راسخ کیا جاتا ہے۔ اکتساب کا ایک پورا عمل ہے جس میں سے بچہ گزرتا ہے۔ اور بچپن میں اذہان میں ٹھونسے گئے تصورات اور عقائد ساری زندگی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس کی وضاحت کے لیے برٹرینڈرسل نے عمانوئیل کانٹ کی مثال دی ہے۔ رسل لکھتا ہے،
”یہ عام باتیں ہیں کہ پرانے زمانوں میں خدا کے وجود کے بارے میں تین قسم کے مفکرانہ دلائل دیے جاتے تھے، ان سب کو عمانوئیل کانٹ نے اپنی کتاب ”تنقید عقلِ محض“ میں مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جونہی اس نے ان دلائل کو رَد کیا ایک نئی اخلاقی دلیل تراش دی، جس سے وہ بڑا متاثر اور مطمئن تھا۔ وہ بہت سے لوگوں کی طرح دانشورانہ معاملات میں روایت پرستی پر مبنی خیالات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار تو کرتا تھا لیکن جو خیالات اسے ماں کی آغوش میں ورثے میں ملے تھے ان سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہا، اسی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمِ نفسیات کے ماہرین کیوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کی ابتدائی رفاقتیں اس کی آنے والی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔“ (میں مسیحی کیوں نہیں ہوں؟، ص، 24)۔
عہد قدیم کے خوف زدہ انسان نے کن حالات میں خدا کا تصور تراشا اور اس کے ساتھ ایک اضافی ”تصورِ بقا“ بھی گھڑ لیا، اس بارے علم البشریات کے ماہرین نے سینکڑوں مفید کتابیں رقم کی ہیں۔ وہ کتابیں، اگرچہ، ہمیں ہر سوال کا جواب تو نہیں دیتیں، لیکن ہمیں اس قابل ضرور بنا دیتی ہیں کہ اپنی تنقیدی سوچ کو بروئے کار لا کر عقل سے عاری ابتدائی انسان کی خواہشات اور مبنی بر خوف مذہبی عقائد کے محرکات کو سمجھ سکتے ہیں۔ عہدِ قدیم کے انسان نے بقا کی خواہش کو جنم دیا، اور دیومالائی، اساطیری کہانیوں سے اپنی خواہش کی تسکین کے لیے جوابات بھی تراش لیے۔ یہ ایسے جوابات ہیں جن کی ”سچائی“ کی تصدیق کبھی نہ ہو سکی۔ خدا نے لاکھوں پیغمبر اتار دیے، لیکن کوئی ایسا ذریعہ اختیار نہ کر سکا کہ ذہین انسانوں کے متجسس ذہن کو مطمئن کر پاتا۔ ان سوالات سے متعلق بے چینی اور عدم اطمینان نے مسلسل انسانوں کو اپنے حصار میں رکھا۔ یہ خدا اور اس کی سوچ کی نارسائی ہے کہ وہ ایسے ذرائع اختیار نہ کر سکا جو کوئی ٹھوس شہادت فراہم کر سکتے۔ یہ حقیقت ہے کہ سچ ہماری خواہشات سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے اور اس سچ کی جستجو کرتے رہنا زندہ انسانوں کی علامت ہے۔ مذہبی انسان کی سب سے بڑی غلط فہمی اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے ”حتمی سچ“ کو جان لیا ہے یا اسے پا لیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف عقیدہ رکھتا ہے کہ ”حتمی سچ“ موجود ہے۔ اس سچ کی ماہیت کو جاننا مذہبی انسان کے بس سے باہر ہے۔ وہ جسے تیقن سمجھتا ہے، وہ ہمارے لیے واہمہ ہے۔ اس کے پاس بس دعوے ہی دعوے ہیں، ثبوت کوئی نہیں ہے۔ ہر دعوے کی تصدیق کے لیے ایک اور دعویٰ کر دیا جاتا ہے، لیکن ثبوت کسی ایک دعوے کا بھی موجود نہیں ہے۔ عمانوئیل کانٹ سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی کہ اس نے جب خدا کو فرض کر لیا تو اس کے ساتھ اسے مزید دو تصورات فرض کرنے پڑے۔ کانٹ کا خیال تھا کہ دوسرے دونوں تصورات (بقا اور ارادے کی آزادی) منطقی طور پر خدا کے تصور سے جُڑے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ کانٹ لکھتا ہے:
”مابعد الطبیعات کا موضوع تحقیق اصل میں تین اعیان ہیں: وجودِ الٰہی، ارادے کی آزادی اور بقائے روح۔ دوسرے تصور کو پہلے کے ساتھ ربط دینے سے تیسرا تصور ایک لازمی نتیجے کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔“
(تنقید عقل محض)
کانٹ مزید کہتا ہے:
”اگر ہمیں ان [اعیان] کا علم حاصل ہو جائے تو الٰہیات، اخلاقیات اور ان دونوں کا مجموعہ یعنی مذہب صرف نظری عقل کا پابند ہو جائے گا۔“
(تنقید عقل محض)۔
واضح یہ ہوا کہ کانٹ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مابعد الطبیعاتی اعیان (خدا، آزادی، روح) کو نظری عقل کا پابند کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کانٹ نے ان تینوں اعیان کے لیے دلائل پیش کر دیے تھے، بلکہ یہ کانٹ کی وہ خواہش تھی جس کی نشو و نما بچپن میں ”ماں کی آغوش“ میں ہوئی، اور اسی خواہش کے پیشِ نظر اس نے مذہبی عقیدے کے لیے (اپنے تئیں)ایک الگ جگہ بنا لی۔ اس کی خواہش دلائل سے ماورا تھی، یعنی نظری عقل کے حصار میں نہیں تھی۔
یہی ”ماں کی آغوش“ کے اثرات تھے، جن سے کانٹ نہ نکل پایا۔ اسی طرف برٹرینڈ رسل نے توجہ مبذول کرائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تصورات و عقائد جب ایک بار گھڑ لیے جاتے ہیں تو پھر وہ ”انسانی میراث“ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہر نسل انہیں آگے منتقل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ مذہبی تصورات بھی عہد طفولیت کے انسان کی ایسی ہی میراث ہیں، جو بچوں کے اذہان میں راسخ کر دیے جاتے ہیں۔ بہرحال سچ ہماری خواہشات سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے، اور وہ سچ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب پوری سچائی کے ساتھ اس کی طرف قدم اٹھایا جائے۔ سچ کو سچائی کی ضرورت ہے، عقائد کی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قدیم اور خوف زدہ انسان کے تعصبات کو سمجھا جائے۔ ہم ’بقا‘ کے منکر نہیں ہیں، بلکہ بقا کے مخصوص الٰہیاتی تصورات کے منکر ہیں۔ عظیم ارسطو نے اپنی کتاب De Anima (روح کے بارے) میں افلاطون کے برعکس، زور دار دلائل دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ جسم کی موت روح کی موت بھی ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک بقا کا صرف ایک تصور حقیقی ہے، اور اس حقیقی تصور کے ہم سب گواہ ہیں۔ وہ تصور یہ ہے کہ عظیم لوگوں کے خیالات جدید زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ جدید جامعات میں پڑھائے جاتے ہیں۔ وہ لوگ ہماری سوچوں میں، ہمارے علوم، ہماری اخلاقیات، ہمارے عمل و کردار میں زندہ ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی بقا کی خواہش کا الٰہیاتی تصور شہوت انگیز خیالات کا انبار ہے، جو انسان کو صرف جنسی تلذذ اور عیش و عشرت کا لالچ دے کر ایک خیالی مگر غیر منصفانہ دنیا کا تصور دیتا ہے۔ ہمارے لیے وہ باطلِ محض ہے! اگر سچ درکار ہے تو بقا کے مذہبی تصور کو مسترد کرتے ہوئے حقیقی بقا کو سمجھنا پڑے گا، اس تصور بقا کی گواہی موجود ہے
کمنت کیجے