عمران شاہد بھنڈر
مابعد الطبیعات
فلسفے کی سب سے بڑی شاخ مابعد الطبیعات کہلاتی ہے۔ مابعد الطبیعات وجود (Existence) کی ماہیت سے بحث کرتی ہے۔ یعنی ہر وہ شے جو وجود کا حصہ ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مابعد الطبیعات کہلاتا ہے۔ مابعد الطبیعات کے موضوعات میں مظہر اور جوہر کچھ اس طرح شامل ہیں کہ جو کچھ موجود ہے وہ مظہر ہے، اس مظہر کی نوعیت کیا ہے وہ جوہر ہے۔ لہذا مابعد الطبیعات میں مظہر اور جوہر کا مطالعہ شامل ہے۔ کیا کوئی ایسا “سبسٹینس” موجود ہے جو مظہر اور جوہر سے بھی زیادہ بنیادی ہو؟ اس سوال کا جواب دینا بھی مابعد الطبیعات کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم کسی بھی عقلیت پسند فلسفی نے اس سے آگے جا کر “قیاس” کی بنیاد پر فیصلہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے قبل منطقی مباحث ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسل، پارٹیکولر، اور انڈیویجوئیل (کُلی، جزئی اور انفرادی) مابعد الطبیعات کا موضوع ہیں۔ مظہر اور جوہر کے درمیان مقدار اور معیار کے رشتے مابعد الطبیعات کا موضوع ہیں۔ اس کے علاوہ زمان و مکاں، وحدت و کثرت، ذہن و جسم کی دوئی و وحدت، تبدیلی اور حرکت، علت و معلول وغیرہ مابعد الطبیعات کے اہم ترین تصورات یا مقولات ہیں، (یہ طویل فہرست ہے)۔ مسئلہ جبر و قدر یعنی آزاد ارادہ ہمیشہ سے (آج کے دن تک) مابعد الطبیعات کا موضوع رہا ہے۔ مختصر یوں کہ کائنات کی ہر وہ جہت جس کا تعلق وجود (Existence) کے ساتھ ہے وہ مابعد الطبیعات میں شامل ہے۔
الٰہیات
الٰہیات کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہے اور اس کے موضوعات میں مذہبی، شخصی، ذاتی خدا، روح، بقا، حوریں، جنت، دوزخ، لونڈے، دودھ اور شہد کی نہریں سمیت ایک وسیع اساطیری دنیا ہے، جس کا کہیں وجود نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ یہ سب عقائد ہیں، (واضح رہے کہ مابعد الطبیعات میں اساطیر کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے)۔ الہیات کی صرف ایک جہت ہے جو کہ مابعد الطبیعات جیسے ہمہ گیر فلسفے سے تعامل رکھتی ہے، اور وہ ہے خدا اور مذہبی مفہوم میں اسے خالق بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ خدا کو کائنات کا خالق سمجھا جاتا تھا، اس لیے کائنات (وجود) کو بھی الٰہیات میں شامل کر لیا گیا، جو کہ پہلے سے ہی مابعد الطبیعات کا موضوع تھا۔ الٰہیات کبھی بھی فلسفے کا موضوع نہیں تھا، الٰہیات کو مسیحی اور اسلامی متکلمین نے فلسفیانہ مابعد الطبیعات میں اس لیے شامل کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مذہب بھی چونکہ ”حقیقت کی نوعیت“ سے متعلق ہے، اس لیے اسے بھی مابعد الطبیعات کا حصہ ہونا چاہیے۔ چونکہ مذہب میں بھی خدا بطور خالق کائنات کا عقیدہ موجود ہے، اس لیے الٰہیات کو مابعد الطبیعات کا حصہ بنا دیا گیا۔ تاہم یہ الہیات کی معذوری ہے کہ اس کے حامیوں (متکلمین) کو مباحث کے لیے سارے تصورات اور مقولات وغیرہ مابعدالطبیعات سے مستعار لینے پڑتے ہیں، جیسا کہ علت و معلول وغیرہ۔ یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ مابعد الطبیعات کے والد محترم آنجناب پارمینائیڈز کے پیش نظر صرف ”وجود“ (Existence) کی ماہیت کو جاننا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ الٰہیات بطور مابعد الطبیعات صرف ایک جُز کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کہ مابعد الطبیعات ہمہ گیر ہے، جس کے اپنے موضوعات اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس کے اپنے تشکیل کردہ تصورات، مقولات اور قضایا موجود ہیں۔
علمیات
علمیات فلسفے کی انتہائی اہم شاخ ہے۔ جس طرح مابعد الطبیعات وجود اور اس کی ماہیت سے بحث کرتی ہے، اسی طرح علمیات میں علم کی ماہیت اور اس کی صحت پر بحث کی جاتی ہے۔ مثلاََ مابعد الطبیعات میں ”وجود“ کو جانا جاتا ہے۔ علمیات وہ ٹولز وضع کرتی ہے جو جاننے کے عمل کا حصہ ہیں، یعنی وجود کو کیسے جانا جا رہا ہے۔ علم کی نوعیت کیا ہے؟ علم کی حدود کیا ہیں؟ جو پیمانے مقرر کیے گئے ہیں ان کی صداقت کیسے پرکھی جائے؟ تین اصول علمیات کی بنیادوں میں شامل ہیں جو کہ سچ، یقین اور جواز (Justification) ہیں۔ ہم کیوں یقین کریں کہ جسے سچ کہا جا رہا ہے وہ حقیقت میں سچ ہے؟ یہ پیمانہ علمیات وضع کرتی ہے، اس کی صحت کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کی حدود کا تعین کرتی ہے۔ نقص کو دریافت کرتی ہے۔ اس کی تصحیح کرتی ہے۔ تصحیح کے عمل کو پھیلاتی ہے۔ اس کو گہرا کرتی ہے اور ترقی دیتی ہے۔ “یقین” علمیات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یقین کے بغیر کسی نتیجے کو سچ نہیں کہا جا سکتا۔ جب سچ کا معیار طے ہو جائے تو پھر یقین کرنا پڑتا ہے۔ تیسرا نکتہ جو علمیات کا اہم پہلو ہے اس کے تحت جو جواز پیش کیا جا رہا ہے اس کی صداقت کے کیا معیارات ہیں؟ ہم کیونکر مان لیں کہ یہی سچ ہے جو کہ پیش کیا گیا ہے؟مابعد الطبیعات کے تمام موضوعات میں علمیات بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی سچ کے پیمانے اور اوزار تشکیل دیتی ہے۔
آخری اہم بات یہ ہے کہ جب سٹیفن ہاکنگ نے یہ کہا تھا کہ ”فلسفہ مر چکا ہے“ تو دراصل وہ اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ مابعد الطبیعات اب فلسفے کا نہیں، سائنس کا حصہ ہے۔ کیونکہ کونیات اور طبیعات کبھی فلسفے (مابعدالطبیعات) کے موضوعات تھے، فلسفے کے پاس وہ اوزار نہ رہے جو بعد ازاں سائنسی ایجادات سے ممکن ہوئے۔ ان معنوں میں موجودہ سائنس جو کونیات اور طبیعات سے نبرد آزما ہے، اپنی سرشت میں مابعد الطبیعات ہے، کیونکہ اب ظاہر اور جوہر، زمان و مکاں، تبدیلی و حرکت، متناہی و لامتناہی سمیت دیگر بہت سے موضوعات ہیں، جو کہ سائنسی مابعد الطبیعات میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگر سٹیفن ہاکنگ سے میری ملاقات ہو جاتی تو میں اسے سائنسی مابعدالطبیعات کا مطلب ضرور سمجھاتا۔ میں تفصیل سے وضاحت کرتا کہ ”حقیقت کی نوعیت“ Nature of reality جو کہ مابعد الطبیعات کہلاتی تھی، آج اسی کو جاننا سائنس کہلاتا ہے۔
کمنت کیجے