ایک خیال میرے ذہن میں کچھ دن سے کلبلا رہاہے کہ ’’ڈِیٹرک بون ھاؤ فا (Dietrich Bon hoeffer)‘‘ کا نظریہ ’’گاڈ آف دی گیپس(God of the gaps)‘‘ جو کہ ملحدین کے نزدیک ایک بے حد مقبول نظریہ ہے، عہدِ حاضر میں اس وقت بے معنی ہوکر رہ جاتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ گیپس(gaps) بڑھ کر بڑی بڑی خلیجیں بن چکے ہیں اور اُن خلیجوں کو پاٹنے کے لیے سائنس یا جدید فلسفے کے پاس کوئی ایک ایسا گاڈ بھی نہیں جو ان خلاؤں کو بھرسکے۔ اور سائنس و فلسفہ خدا سے ملتی جلتی بہت سی، بھانت بھانت کی چیزیں متعارف کروارہے ہیں لیکن بات بن نہیں رہی۔
’’گاد آف دی گیپس‘‘ کے نظریہ میں استدلال یہ تھا کہ خدا کا تصور اس وجہ سے انسانوں نے اختیار کیا کیونکہ فطرت میں بہت سی حیرتیں(wonders) موجود ہیں۔ ماضی کا انسان جب اپنی منطقی عقل سے ان حیرتوں کے جواب نہیں ڈھونڈ پاتا تھا تو وہاں ایک مافوق الفطرت ہستی کو تصور کرلیتا تھا۔ بالفاظ دیگر کائنات میں جن سوالوں کے جواب انسانی دماغ کے پاس نہیں تھے اُنہیں عقل، سلسلہ علت و معلول کے طریقوں پر تو حل کر نہ پاتی تھی، لیکن عقل کو جواب بھی لازمی چاہیے ہوتا تھا، چنانچہ عقل یہ کہہ دیتی تھی کہ یہ کام خدا کا ہے اور خدا ہمیشہ غیب سے اثرانداز ہوتاہے۔ جب ’’بون ھاؤ فا‘‘ نے اِسے متصورکیاتھا تو تب بھی، اگرچہ بہت بڑے بڑے نئے خلا نمودار ہوچکے تھے جنہیں اس نے بظاہرنظرانداز کیا لیکن آج تو ایک سے ایک خلا ہے اور ہرایک اتنا بڑاہے کہ خدا کا کلاسیکی تصوربھی انہیں پُر نہیں کرسکتا۔
مثلاً زمانہ ایک خاص وقت میں شروع ہوا، یعنی جب بِگ بینگ ہوا۔ بالفاظِ دیگر اس وقت کائنات کی گھڑی زیرو گھنٹے، زیرو منٹس، زیرو سیکنڈز پر تھی۔ (مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خلا سامنے موجود ہے۔) نہ زمانہ تھا نہ مکان تھا اور پھر یوں ہوا کہ اچانک بِگ بینگ ہوا اور کائنات بن گئی۔ زمانہ بھی شروع ہوگیا اور مکان بھی پیدا ہوگیا۔
خلاؤں کی بابت نہ پوچھیے کہ عہدِ حاضر میں کتنے نئے پیدا ہوئے اور ان میں سے ہر ایک کتنا بڑاہے۔ اور اس پر مستزاد سائنسدان جب ان خلاؤں کو پُر کرتے ہیں تو وہ جن تصورات کے ساتھ اِنہیں بھَرتے ہیں، اُن تصورات میں سامی خداؤں سمیت دنیا کے ہرخدا اور ہر مابعدالطبیعیاتی ہستی سے کہیں زیادہ عُجب، حیرتیں، لایعنیتیں، فار فیچنگنیس، اور مافوق الفطرت خیالات شامل ہیں۔ مثلاً سادہ سا تجربہ ہے، ’’ڈبل سلٹ ایکسپیری منٹ‘‘۔ اس سے برآمد ہونی والی چیزوں میں کوانٹم فزکس، ویوفنکشن، میژرمنٹ پرابلم وغیرہ ہیں اور ان سے برآمد ہونے والی چیزوں میں، پرابیبلٹی(امکانات)، کوپن ہیگن انٹرپریٹیشن، ہیوایورٹ انٹرپریٹیشن، ملٹی ورس، مینی ورلڈ تھیوری، پیرالل رئیلٹی، اینتھروپک پرنسپل، فائن ٹیوننگ، اور نہ جانے کیا کیا۔
مختصر یہ کہ گاڈ آف دی گیپس نے تو دعویٰ کیا تھا کہ جب یہ تمام گیپس جن کی وجہ سے خدا کا وجود لازمی شامل کرنا پڑجاتاہے، ختم ہوجائیں گے یعنی جب سائنس مشاہدہ و منطق کے ذریعے ان خالی جگہوں کو پُر کرلے گی تو خودبخود ہی خدا کا تصور فنافی للہ ہوجائےگا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ خلا بڑھ گئے اور اتنے بڑھ گئے کہ اب خدا کا چھوٹا موٹا تصور بھی انہیں پُر کرنے سے قاصر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے سائنسدانوں اور ریاضی دانوں نے خود اپنے اکتشافات کے ذریعے نئے نئے تصورات ایجاد کرلیے ہیں جو ثابت تو نہیں ہوسکتے لیکن منطقی اعتبار سے قرینِ قیاس ہونے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں۔ شاید ماضی کے خداؤں جتنے مقبول۔ لیکن پھر منطقی اعتبار سے قرینِ قیاس تو اس وقت کے انسانوں کے خداؤں کے تصورات بھی تھے۔
کمنت کیجے