ادارہ تعلیم وتحقیق (ORE) کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ میں مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے اساتذہ کی ایک نشست میں ’’مذہبی شناختیں، تاریخی صورت حال اور درپیش چیلنجز’’ کے عنوان پر ڈیڑھ دو گھنٹے گفتگو کا موقع ملا۔ کئی اہم سوالات بھی سامنے آئے جن پر معروضات پیش کی گئیں۔ چند بنیادی نکات جن پر گفتگو کی گئی، ملخصاً حسب ذیل ہیں:
۱۔ برصغیر میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت بنیادی طور پر سنی حنفی صوفی اسلام کی شناخت رہی ہے، تاہم تاریخی عوامل سے یہاں تدریجاً سنی اسلام کے مقابلے میں شیعہ اسلام، حنفی اسلام کے تقابل میں اہل حدیث اسلام، اور صوفی اسلام کے مقابلے میں سلفی اسلام کی شناختیں بھی قائم ہو چکی ہیں۔ قریبی زمانے میں اس تقسیم میں روایتی اسلام بمقابلہ تجدد پسند اسلام کا اور دعوتی اسلام بمقابلہ سیاسی اسلام کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی دستیابی کے بعد یہ تفریق اب گروہی شناختوں سے آگے بڑھ کر شخصی فرقوں کی شکل میں بھی سامنے آ رہی ہے، اور مختلف اقسام کے داعیان اسلام اپنے اپنے شخصی حلقے تشکیل دے رہے ہیں۔
۲۔ اس صورت حال میں کسی قسم کی تخفیف کے امکانات بظاہر مفقود اور اضافے کے امکانات بہت واضح ہیں۔ اس کے دیگر تاریخی اسباب کے علاوہ ایک بہت بنیادی سبب جدید سیاسی طاقت کی خاص ساخت ہے جو نہ صرف اپنے وجود اور بقا کے لیے کسی مذہبی شناخت یا مذہبی قانون کی محتاج نہیں، بلکہ اپنے بنیادی تصور کے اعتبار سے مذہبی شناختوں پر کنٹرول قائم کرنے کا اختیار حاصل ہونے کی مدعی بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں دارالاسلام اپنی بنت میں ایک دینی سیاسی تصور تھا جس میں حکمران طبقے کو قانونی جواز حاصل کرنے اور نظم سلطنت چلانے کے لیے کسی نہ کسی دینی تعبیر اور فقہی ضابطے کی احتیاج ہوتی تھی۔ یہ چیز جدید ریاست کو، چاہے وہ کتنی ہی ’’اسلامی’’ ہو، دار الاسلام کے ماقبل جدید سیاسی تصور سے بالکل مختلف بنا دیتی ہے۔
۳۔ دار الاسلام کا دینی سیاسی تصور اس نکتے کو بھی متضمن تھا کہ حکمران منحرف دینی رجحانات کا قلع قمع کرنے اور ان کے شیوع کا سدباب کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس کے نتیجے میں کسی خاص دینی تعبیر اور سیاسی طاقت کے مابین سمبندھ قائم ہونے کا اثر بسااوقات مخالف دینی گروہوں کی پرسیکیوشن کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا تھا۔ جدید ریاست اس کے بالکل برعکس، نہ صرف یہ کہ ایسی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتی بلکہ خود کو ہر قسم کی مذہبی شناختوں کے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے تحفظ کا ذمہ دار مانتی ہے۔
4- سیاسی طاقت کی اس نئی وضع کو نہ سمجھنے اور ذہنی طور پر قدیم تاریخی صورت حال میں مقید ہونے کی وجہ سے مذہبی شناختوں نے اپنی تقویت اور توسیع کے لیے، باہمی اختلافات کے دائرے میں تکفیر وتضلیل کی اور سیاسی طاقت کے روبرو مذہبی سیاست کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کے تین براہ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان کا مرتب ہونا ناگزیر ہے۔ یہ تین اثرات حسب ذیل ہیں:
۱۔ سیکولرائزیشن کے لیے جواز
۲۔ مذہبی اظہارات پر ریاستی نگرانی اور تحدیدات کے قیام کا جواز
۳۔ مذہب سے لاتعلقی، تنفر اور الحاد
5- جدید ریاست چونکہ فی نفسہ اپنے قیام یا جواز کے لیے کسی قسم کی مذہبی بنیاد کی دست نگر نہیں، اس لیے مذہبی سیاست کے راستے سے یہ سمبندھ مصنوعی طور پر اور زبردستی قائم کرنے کا راستہ ایک خاص حد تک ہی آگے جا سکا ہے۔ بنیادی طور پر اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت علامتی سطح تک اور ظواہر کی حد تک محدود ہے، اور ریاستی نظام پر اس کے کوئی عملی اثرات مرتب نہیں ہو سکے۔ البتہ اس کھینچاتانی میں ایک طرف مذہب اور مذہبی قیادت کی اخلاقی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے، اور دوسری طرف اہل حل وعقد کے طبقات میں جوابی اقدامات کی ضرورت کا احساس بھی بیدار ہو رہا ہے جس کے نتائج بھلے کچھ عرصے کے بعد ظاہر ہوں، لیکن اس کے واضح آثار اس وقت بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
6- سماجی سطح پر مذہبی شناختوں کی باہمی کشمکش نے جو بدنما صورت اختیار کی، اس میں ریاست ظاہر ہے، کسی خاص شناخت کی پشت پناہ تو بن نہیں سکتی تھی، لیکن مذہبی منافرت اور تصادم نے ریاست کو یہ موقع ضرور مہیا کیا ہے کہ وہ قیام امن کے لیے مذہبی اظہارات کو کنٹرول کرنے کے ایسے نظم وضع کرے جو ریاست کی نگرانی میں کام کریں۔ ہر انتظامی سطح پر مختلف قسم کی امن کمیٹیاں، علماء بورڈ، فرقہ وارانہ کتابوں پر پابندی، مذہبی ہم آہنگی کے اعلامیے، اور پیغام پاکستان جیسی دستاویزات اسی پیش رفت کے مختلف مظاہر ہیں اور یہ مجموعی پیغام دیتے ہیں کہ فرقہ وارانہ شناختوں کو ’’اچھا بچہ’’ بن کر رہنے کے لیے ریاست کی نگرانی اور محاسبے کی ضرورت ہے۔
6- اپنی بقا اور تقویت کی موجودہ حکمت عملی کی وجہ سے مذہبی شناختوں کو سب سے زیادہ جس میدان میں پسپائی اور چیلنج کا سامنا ہے، وہ نئی نسل کو نفس مذہب سے، چہ جائیکہ کسی خاص مذہبی شناخت سے، وابستہ رکھنے کا میدان ہے۔ یہاں بھی مذہبی دانش کی تفہیم وتجزیہ معروضی نہیں، بلکہ غیر حقیقی خواہشات پر مبنی ہے۔ مذہبی طبقے سمجھتے ہیں کہ شناخت کو درپیش خطرات کے جواب میں شناخت کے حصار کو جتنا زیادہ تنگ اور بے لچک رکھیں گے، اتنا ہی شناخت کی حفاظت ممکن ہوگی جبکہ یہ تجزیہ بالکل غلط اور برعکس نتائج پیدا کرنے کا موجب ہے۔ بھاری بھرکم اور بے لچک مذہبی شناختوں کا جوا اٹھائے رکھنے کا تحمل نئی نسل میں نہیں ہے۔ جدید علم اور جدید دنیا نے مذہب کے بنیادی مسلمات پر اعتقاد رکھنے کو جتنا مشکل بنا دیا ہے، تعبیراتی اضافوں اور بھاری بھرکم شناختوں پر اصرار اس مشکل کو کم نہیں کرتا بلکہ کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
اس کا پہلا اور زیادہ عام مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ جب ہر فرقہ بہتر (۷۲) گمراہ فرقوں کے انجام کا ڈراوا دے کر خود کو ’’واحد نجات یافتہ’’ گروہ قرار دینے پر اصرار کرتا ہے تو اس سے تکلیف اور ذمہ داری اور خدائی محاسبے کا جو دینی تصور پیدا ہوتا ہے، اس کو ہضم کرنا ذرا سا بھی اخلاقی شعور رکھنے والے کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر اختلافات اور تعبیرات کے ہجوم میں واحد نجات یافتہ تعبیر دین متعین طور پر کسی ایک فرقے کے پاس ہے اور اس کے ساتھ وابستگی نجات کی شرط اولین ہے تو کتنے لوگ ہیں جو سارے کام چھوڑ کر اس تحقیق کے لیے خود کو فارغ کر سکتے ہیں؟ اور اگر تحقیق کے بغیر اپنے موروثی فرقے کے ساتھ جڑا رہنا مطلوب ہے تو اس میں کسی ایک فرقے اور دوسرے فرقے کی تخصیص کیسے ہو سکتی ہے؟
یہ وہ پہاڑ جیسا سوال ہے جس کا جواب کسی بھی فرقے کے پاس نہیں ہے، لیکن چونکہ کوئی بھی فرقہ اس میں ذرا بھی گنجائش دینے کے لیے آمادہ نہیں، اس لیے انسان کا فطری نفسیاتی ردعمل یہی بنتا ہے کہ وہ اس سوال سے ہی ذہناً لاتعلق ہو جائے۔ یہی لاتعلقی پھر مذہب کی مشہود صورت حال اور مذہبی طبقے کی اخلاقیات سے تنفر میں بدلتی ہے اور اس سے اگلا مرحلہ الحاد کا ہوتا ہے۔ پس الحاد کے اسباب جتنے خارجی ماحول اور جدید دنیا میں ہیں، اتنے ہی فرقہ وارانہ تعبیرات پر اصرار اور مذہبی رویوں میں بھی ہیں اور یہ رویے، مذہبی شناختوں کے تحفظ کے ارادے سے دراصل اس بنیاد (یعنی نفس مذہب سے وابستگی) کو ہی ڈھا دینے کا سبب بن رہے ہیں جس پر کوئی بھی مذہبی شناخت استوار ہو سکتی ہے۔
کمنت کیجے