Home » مشاجرات کے باب میں اہل سنت کے موقف کی معقولیت
تاریخ / جغرافیہ کلام

مشاجرات کے باب میں اہل سنت کے موقف کی معقولیت

مشاجرات کے باب میں بعض لوگ متکلمین و فقہائے اہل سنت کے موقف کو غیر اصولی یا کمزور باور کرانے کے لئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اہل سنت کا مقصد بس ایک شخص یعنی حضرت علی کو اجتہادی خطا کے قول سے بچانا ہے اور انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا وغیرہ۔ تاہم یہ رائے مسئلے کے قانونی پہلووں پر پورا غور و فکر نہ کرسکنے کے باعث ہے۔
سب سے پہلا اصولی و قانونی سوال جس کا جواب اس مسئلے پر غور کرنے والے ہر مجتہد و محقق کو دینا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اس کے نزدیک کیا حضرت علی کی خلافت منعقد ہوگئی تھی یا نہیں ہوئی تھی؟ اس سوال کو بائے پاس کرکے یا ٹال کر کوئی علمی تجزیہ ممکن نہیں۔
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی خلافت منعقد نہیں ہوئی تھی پھر انہیں اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ اس پورے دورانئے میں مسلم معاشرے کے اجتماعی نظم کی قانونی حیثیت ان کے نزدیک کیا تھی؟ کیا یہ سوسائٹی without         law کی کیفیت بن گئی تھی؟ اگر ہاں تو اس حالت کے قانونی و فقہی احکام ان کے نزدیک کیا ہیں؟ مثلاً ایسے میں عوام کے حقوق اگر تلف ہوں تو اس کے تحفظ و حرجانے وغیرہ کی ادائیگی کی ذمہ داری کس کی جانب ہے؟ کیا ان حالات میں ایسے سب حقوق کا نقصان رائیگاں سمجھا جائے گا؟ کیا وہاں ایک سے زائد خلفا کی خلافت قائم ہوگئی تھی؟ کیا اقتدار پہلے سے قائم شدہ عمال وغیرہ کی طرف منتقل ہوگیا تھا؟ عمال اپنے حق اقتدار کا جواز کیا کسی خلیفہ سے حاصل کرتے ہیں یا انہیں خود سے بھی یہ حاصل ہوسکتا ہے؟ پھر مخالفین حضرت علی سے قصاص کا مطالبہ ان کی کس حیثیت میں کررہے تھے؟ نیز حضرت علی نے آگے بڑھ کر جو کاروائی کی اس کی قانونی حیثیت کیا تھی؟ الغرض یہ وہ چند اہم قانونی سوالات ہیں جن کا جواب دینا ان حضرات پر لازم ہے جن کے خیال میں حضرت علی کی خلاف منعقد نہ ہوئی تھی۔
اور اگر حضرت علی کی خلافت منعقد ہوگئی تھی تو اگلا سوال یہ ہے کہ کیا وہ خلیفہ عادل تھے یا ایسے فاسق کہ جس کا فسق اس کے معزول کردئیے جانے کو لازم ہوتا ہے؟ جو انہیں ایسا فاسق کہتا ہے وہ اس فسق کے حکم کے اجرا کی دلیل فراہم کرے۔
اور اگر وہ ایسے فاسق نہیں تھے بلکہ خلیفہ عادل تھے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس مسئلے پر نزاع ہوا (یعنی قصاص میں عجلت یا تاخیر) وہ مجتہد فیہ تھا یا نہیں؟ جو اسے قطعیات دین میں سے شمار کرتا ہے وہ اس کی دلیل فراہم کرے۔
اور اگر مسئلہ مجتہد فیہ تھا تو کیا ایک خلیفہ وقت کو یہ اختیار حاصل ہے یا نہیں کہ وہ ایک مجتہد فیہ مسئلے میں لوگوں سے اپنی طاعت کا تقاضا کرے؟ اس کے جواب میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان کے بعض فیصلوں سے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہورہا تھا کہ وہ گویا قاتلین عثمان کی حمایت کررہے ہیں۔ لیکن اس پر دو قانونی سوالات ہیں:
الف) کیا حکمران کے خلاف عوامی پراپیگنڈہ اس بات کا قانونی جواز فراہم کرتا ہے کہ اس کی طاعت سے ہاتھ کھینچ لیا جائے؟
ب) اس صورت حال کو حضرت علی کے ناقدین یوں پیش کرتے ہیں گویا کسی عدالتی کاروائی کے بعد قانونی طریقے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ فلاں فلاں قاتل ہے لیکن حضرت علی کسی کو سزا نہیں دے رہے تھے بلکہ عہدے دے رہے تھے، جبکہ معاملہ ایسا نہیں تھا۔ صورت حال کو جتنا بھی بڑھا کر پیش کردیا جائے اس کی حیثیت کچھ حقائق کے ساتھ ملائے ہوئے عوامی قسم کے پراپیگنڈے کی سی تھی اور حکمران کے خلاف ایسی عوامی مہمات ہم آج بھی دیکھتے ہیں، ایسے حقائق عدالت میں بطور شہادت پیش کرنے لائق نہیں ہوتے۔ پھر ایک لمحے کے لئے ان سب باتوں کو مان لیتے ہیں جو حضرت علی کو خطا پر ثابت کرنے والے پیش کرتے ہیں، تب بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا اس صورت میں لوگوں کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک گروہ بنا کر اپنے تئیں قاتلین کی سرکوبی کا فیصلہ کریں یا حکمران کو مجبور کریں کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق ان لوگوں کو سزا دے جنہیں وہ قاتل سمجھتے ہیں یا نامزد کرچکے ہیں؟ یہاں حاکم وقت پر تنقید کرنے کی بات نہیں ہورہی۔ اگر کسی کا کہنا ہے کہ وہ لوگ قاتلین عثمان کی بیخ کنی کے لئے ایسا اقدام کرنے نکلے تھے تو اسے بتانا چاہئے کہ یہ اقدام کرنے والے کس قانونی حیثیت سے یہ اقدام کررہے تھے؟
یہ ہیں وہ اہم قانونی سوالات جو ایک متکلم و فقیہہ کے پیش نظر ہوتے ہیں اور علمائے اہل سنت نے انہی کے پیش نظر حضرت علی کی جانب سے طاعت کا تقاضا کرنے کے موقف کو اجتہادی طور پر راجح قرار دیا ہے، اس لئے کہ وہ پہلے قدم پر آپ کو خلیفہ عادل مانتے ہیں اور نفس مسئلہ کو مجتہد فیہ کہتے ہیں (یہ بات بھی یاد رہے کہ حضرت علی خود اپنے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے کہ وہ خلیفہ بن چکے ہیں)۔ چنانچہ یہ سمجھنا کہ اہل سنت کو اس مسئلے پر صرف ایک فرد کو بچانے کی فکر لاحق ہے یہ قانونی امور میں قلت تدبر اور بعض اہم قانونی سوالات کو بائے پاس کرنے کا نتیجہ ہے (یہ بات یوں بھی غلط ہے کہ اہل سنت کی کسی فقہی روایت میں یہ اصول نہیں ملتا کہ کسی فقہی مسئلے میں صحابہ کے مابین اختلاف کی صورت میں جو رائے حضرت علی سے منقول ہے وہی درست مذہب ہے، الغرض یہ الزام ایک گوناں جذباتیت پر مبنی ہے)۔ تاہم حالات کے پیش نظر چونکہ مخالف گروہ کے پاس بھی اجتہادی تاویل موجود تھی نیز وہ مجتہد تھے لہذا اہل سنت اپنے اصول سے ہم آہنگ رہتے ہوئے ان پر فسق کا اطلاق نہیں کرتے بلکہ اجتہادی مسائل میں اپنے اجتہاد کے مطابق ایک اجر کا مستحق ہی سمجھتے ہیں۔ اس موقف کو غیر معقول یا غیر اصولی سمجھنا درست رائے نہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں