Home » کیا شیخ اکبر ابن عربی نے باطنیت کو فروغ دیا ؟
تصوف شخصیات وافکار کلام

کیا شیخ اکبر ابن عربی نے باطنیت کو فروغ دیا ؟

اسلامی تاریخ میں باطنیت سے مراد وہ تحریک تھی جو نصوص کی تفسیر اشاری کے منہج پر شریعت کے ظاہری احکام کو معطل قرار دیتی تھی۔ اسماعیلیہ نامی گروہ ایسی “باطنی” تشریحات کے لئے مشہور رہا ہے اور امام غزالی (م 505 ھ) نے اپنی کتاب “المستظهري” میں اس گروہ کا تعاقب کیا ہے۔ صوفیا کے ناقدین بالعموم اور شیخ ابن العربی کے ناقدین بالخصوص کو یہ غلط فہمی رہی ہے کہ شاید شیخ بھی ایسی باطنیت و زندقہ کے پروردہ تھے، برادر عمار خان ناصر صاحب نے بھی اس شبہے کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے فہم میں ایسی بات وہی شخص کرسکتا ہے جس نے فرصت کے ساتھ شیخ کے افکار کا براہ راست مطالعہ نہ کیا ہو بلکہ عمومی قسم کی باتوں یا ناقدین کے لکھے ہوئے ثانوی لٹریچر سے ایک ذہن بنا لیا ہو۔ آپ کی کتاب الفتوحات المکیة کی دوسری جلد فقہی احکام ہی سے متعلق ہے اور آپ ہر حکم کے ظاہری احکام و باطنی اسرار کو بیان کرتے ہیں۔ یہاں ہم شیخ کی صریح عبارات کی روشنی میں دکھاتے ہیں کہ وہ ظاہری شریعت پر عمل کو نیز اسے معطل کرنے والے باطنی فرقے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہماری کتاب “شیخ ابن عربی کا تصور نبوت و عقیدہ ختم نبوت” میں عین اس موضوع پر ایک سیکشن لکھا گیا ہے۔

شریعت کی اہمیت کے بارے میں شیخ کہتے ہیں:
ان الشریعة هی المحجة البیضاء، محجة السعداء، طریق السعادة، من مشی علیها نجا، ومن تركها هلک
’’شریعت روشن رستہ ہے، یہ سعادت اور سعادت مندوں کا رستہ ہے۔ جو اس پر چلا (اس نے) نجات پائی اور جس نے چھوڑا ہلاک ہوا”
انبیاء کی لائی ہوئی شریعت انسان کی ایسی ضرورت ہے جسے انسان از خود نہیں جان سکتا:
الشرع ما جاء الا لمصالح الدنیا و الاخرة، فالاخرة لاتعرف الا باخبار خالقها وانها فی حکم العقل ممکنة والدنیا و مصالحها معلومة لانها واقعة مشهودة، فللنظر فی مصالحها مجال بخلاف الآخرة، فلا تتوقف مصالح الدنیا علی ما تتوقف علیه مصالح الآخرة
’’شریعت دنیا و آخرت کی مصلحتوں ہی کے لئے آئی ہے۔ آخرت کی مصلحتیں اس کے بنانے والے کے بتانے ہی سے معلوم ہوسکتی ہیں نیز یہ عقل کی عدالت میں ممکن ہیں جبکہ دنیا اور اس کی مصلحتیں ہمارے مشاہدے میں ہیں۔ اس لئے دنیا کی مصلحتوں کا الگ میدان ہے اور آخر ت کی مصلحتوں کا الگ۔ پس آخرت کی مصلحتوں کا جس پر دارومدار ہے اس پر دنیا کی مصلحتوں کا نہیں۔”
مزید کہتے ہیں:
اصل وضع الشریعة فی العالم وسببها طلب صلاح العالم ومعرفة ما جهل من الله مما لایقبله العقل ای لا یستقل به العقل من حیث نظره، فنزلت بهذه المعرفة الکتب المنزلة، ونطقت بها السنته الرسل والانبیاء علیهم السلام، فعلمت العقلاء عند ذلک انها نقصها من العلم بالله امور تممتها لهم الرسل
’’جہان میں شریعت مقرر کرنے کی بنیاد اور اس کا سبب جہان کی درستگی چاہنا اور اللہ کی طرف سے ان امور کی معرفت ہے جس تک فکر و نظر کی از خود رسائی نہیں۔ پس آسمانی کتب یہ معرفت لے کر آئیں اور انبیاء و رسل کی زبانیں اس سے گویا ہوئیں۔ اس وقت عقل والوں نے جانا کہ ان کا علم اللہ کی اس معرفت کے باب میں ناقص تھا جسے رسولوں نے بہم پہنچایا۔”
شیخ اولیاء کو نصیحت کرتے ہوئے انہیں یاد دلاتے ہیں کہ کبھی اپنے مقام پر نازاں ہو کر یہ نہ سمجھنا کہ تم تکلیف شرع سے بلند و آزاد ہوگئے:
لا یسقط عنه التکلیف الا بعد رحلته من دار التکلیف وهی الدار الدنیا
’’(کیونکہ شریعت کی) تکلیف کبھی انسان سے ساقط نہیں ہوتی سوائے اس دار تکلیف سے رخصت ہوجانے کے بعد، یعنی اس دنیا سے۔‘‘
شیخ اور صوفیاء قرآن کے ظاہری احکامات کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی اسرار و رموز کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں لیکن نصوص سے اخذ کردہ یہ اسرار و رموز منصوص احکامات کو نہ معطل یا منسوخ کرسکتے ہیں نہ ہی الفاظ کے ظاہری مفہوم سے کلیتاً آزاد ہوسکتے ہیں۔ شیخ کہتے ہیں:
لایخلو الانسان ان یکون واحدا من ثلاثة بالنظر الی الشرع وهو: اما ان یکون باطنیا محضا وهو القائل بتجرید التوحید عندنا حالا و فعلا وهذا یؤدی الی تعطیل الاحکام الشرع کالباطنیة والعدول عما اراد الشارع بها، وکل ما یؤدی الی هدم قاعدۃ دینیة مشروعة فهو مذموم بالاطلاق عند کل مؤمن۔ واما ان یکون ظاهریا محضا متغلغلا متوغلا بحیث ان یؤدیه ذلک الی التجسیم والتشبیه، فهذا ایضا مثل ذلک ملحق بالذم شرعا، فاما ان یکون جاریا مع الشرع علی فهم اللسان حیثما مشی الشارع مشی، وحیثما وقف وقف قدما بقدم، وهذه حالة الوسط وبه صحت محبة الحق قال تعالی ان یقول نبیه (فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ: آل عمران 31) فاتباع الشارع واقتفاء اثره یوجب محبة الله للعباد وصحة السعادة الدائمة
’’شریعت پر غور و فکر کے اعتبار سے انسان تین طرح کے ہیں: آیا وہ نرا باطنی ہوگا، ہم (صوفیا) کے ہاں یہی وہ ہے جو حالا ًاور فعلاً توحید تجریدی کا قائل ہے۔ یہ باطنیہ کی طرح تعطیل احکام شرع اور مراد شارع سے روگردانی کی راہ ہے۔ ہر وہ چیز جو شریعت کی کسی بنیاد کو ڈھانے کا سبب بنے، وہ ہر ایمان والے کے نزدیک بالکل قابل مذمت ہے۔ دوسرا وہ نرا ظاہری ہو، ظاہریت اس میں اتنی رچی بسی ہو کہ وہ (معاملے کو) تجسیم و تشبیہ کی طرف لے جائے۔ یہ بھی پہلے کی طرح شرعاً مذموم ہے۔ تیسرا وہ ہے کہ زبان کے اصولوں پر شریعت کے ساتھ چلے، جہاں شارع جائے وہاں یہ بھی جائے، جہاں شارع رک جائے وہ بھی رک جائے یعنی قدم بقدم چلتا رہے۔ یہ اعتدال کی راہ ہے اور اسی سے اللہ کی محبت متحقق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ وہ یوں ارشاد فرمائیں: (“پس تم میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا”)۔ شار ع کی اتباع اور ان کے نقش قدم پر چلنے سے اللہ کی محبت اور حقیقی دائمی سعادت ملتی ہے۔‘‘
چنانچہ اہل ایمان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ظاہر کو معطل کرکے باطنی معنی کا اعتبار نہیں کرتے بلکہ ظاہر اور باطن دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کے اعتبار کے قائل ہوتے ہیں:
ان فی عباده من حرم الکشف والایمان وهم العقلاء عبید الافکار والوافقون مع الاعتبار، فجاوزوا من الظاهر الی الباطن مفارقین الظاهر فعبروا عنه اذ لم یکونوا اهل کشف ولا ایمان لما حجب الله اعینهم عن مشاهدة ما هی علیه الموجودات فی انفسها ولا رزقوا ایمانا فی قلوبهم یکون له نورا یسعی بین ایدیهم۔ واما المؤمنون الصدقون اولو العزم من الاولیاء فعبروا بالظاهر معهم لا من الظاهر الی الباطن
’’(اللہ کے علم میں تھا کہ) اس کے کچھ بندے کشف اور ایمان (کی دولت) سے محروم ہیں، یہ اپنے افکار کے غلام، قیاس سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ ظاہر کو چھوڑ کر باطن کی طرف چلے گئے۔ پس ظاہر سے گزر گئے کیونکہ ان کے پاس کشف کی دولت تھی نہ ایمان کی کہ اللہ تعالیٰ نے حقائق کو ان کی نگاہوں سے اوجھل کردیا۔ ان کے دلوں میں ایمان کی دولت نہ تھی جس کی روشنی ان کے آگے چلتی، اور سچے پکے اللہ کے ولی ظاہر کے ساتھ (باطن) کا اعتبار کرتے ہیں نہ کہ اسے چھوڑ کر۔”
شیخ ابن عربی شریعت و طریقت بمعنی ظاہر و باطن کی دوئی کے قائل نہیں، وہ ان دونوں کو ایک ہی حقیقت کے دو رخ کہتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہوتے:
فما ثم حقیقة تخالف شریعة لان الشریعة من جملة الحقائق، والحقائق امثال و اشباه، فالشرع ینفی و یثبت فیقول (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ: شوری 11) فنفی و اثبت معا کما یقول (وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ: شوری 11)۔ وهذا هو قول الحقیقة بعینه فالشریعة هی الحقیقة
’’کوئی حقیقت ایسی نہیں جو کسی شریعت کے خلاف ہو کیونکہ شریعت بھی جملہ حقائق میں سے ہے اور حقائق ایک دوسرے سے ہم آھنگ ہوتے ہیں۔ (چنانچہ) شرع (بعض امور کی) نفی بھی کرتی ہے اور (بعض) ثابت بھی۔ چنانچہ اللہ فرماتا ہے: (“اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں”)۔ اللہ نے نفی اور اثبات دونوں ایک ساتھ کیے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا: (“وہی سمیع و بصیر ہے”)، یہ بعینہ حقیقت کا بیان ہے۔ پس شریعت ہی حقیقت ہے۔‘‘
جو لوگ ظاہر کو معطل کرکے باطنی معنی اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں شیخ کہتے ہیں:
فتوفرت دواعی الناس اکثرهم الی معرفة احکام الشرع فی ظواهرهم، وغفلوا عن الاحکام المشروعة فی بواطنهم الا القلیل وهم اهل طریق الله فانهم بحثوا فی ذلک ظاهرا و باطنا، فما من حکم قررره شرعا فی ظواهرهم الا وراوا ان ذلک الحکم له نسبة الی بواطنهم اخذوا علی ذلک جمیع احکام الشرائع فعبدوا الله بما شرع لهم ظاهرا و باطنا، ففازوا حین خسر الاکثرون۔ و نبغت طائفة ثالثة ضلت و اضلت فاخذت الاحکام الشرعیة و صرفتها فی بواطنهم وما ترکت من حکم الشریعة فی الظواهر شیئا تسمی الباطنیة وهم فی ذلک علی مذاهب مختلفة، وقد ذکر الامام ابو حامد فی کتاب المستظهری له فی الرد علیهم شیئا من مذاهبهم وبین خطاهم فیها، والسعادة کل السعادة مع الطائفة التی جمعت بین الظاهر والباطن وهم العلماء بالله و باحکامه
’’اکثر لوگوں کے ہاں شریعت کے ظاہری احکام جاننے کے اسباب کی بہتات ہوئی، بجر چند کے اکثر لوگ شریعت کے باطنی احکام سے بے خبر رہے اور وہ چند لوگ اہل طریقت ہیں جو احکام شرع میں ظاہری اور باطنی دونوں اعتبارات سے بحث کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جس شرعی حکم کو اپنے ظاہر کے لئے طے کیا اس کی کوئی نہ کوئی باطنی نسبت بھی دیکھی۔ (انہوں نے) اسی انداز سے تمام احکام شریعت لئے، پس ظاہری و باطنی دونوں طرح سے عبادت کی اور دوسروں نے کھویا اور انہوں نے پایا۔ ایک تیسرا گروہ بھی سامنے آیا جو خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ انہوں نے احکام شرع کو اخذ کرکے صرف ان کے باطن کی طرف پھیر دیا، (چنانچہ) انہوں نے ظاہری احکام شرع میں سے کوئی حکم (باقی) نہ چھوڑا۔ انہیں باطنیہ کہا جاتا ہے جن کے مختلف فرقے ہیں۔ امام ابو حامد غزالی نے اپنی کتاب “مستظہری” میں ان کا رد کرتے ہوئے ان کے رجحانات اور ان کی لغزشوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اور سعادت تو کلی طور پر اس گروہ کےساتھ ہے جس نے ظاہر و باطن کو جمع کیا، یہی وہ علماء ہیں جو اللہ اور اس کے احکام دونوں کی معرفت رکھتے ہیں۔‘‘
باطنیہ کے اخروی مقامات سوء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
والباطنیة مالهم فی الدرک الاسفل منزل وان منزلهم الاعلی فی جهنم والکفار لهم فی کل موضوع من جهنم منزل
’’باطنیہ کا مقام جہنم کے سب سے آخری حصے میں نہیں ہے، ان کا مقام جہنم کے سب سے اوپری حصے میں ہے جبکہ کفار کے لیے جہنم کے ہر طبقے میں ایک پڑاؤ ہے۔‘‘
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ ابن عربی الہام و کشف نیز باطنی تشریح کے نام پر ایسے معانی اخذ کرنے کے قائل نہیں جو نصوص کا ظاہر معطل کردیں نیز ایسا کرنے والوں کو وہ گمراہ کہتے ہیں۔ جو لوگ شیخ پر ایسا کرنے کا الزام لگاتے ہیں انہیں دھیان رکھنا چاہئے کہ ایسی ہر بات گواہی ہے جو لکھ لی جاتی ہے اور اس پر بازپرس ہوگی: سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں