ہمارے ہاں حفاظ اور قراء کی اکثریت ایسی ہے جو رمضان میں مصلی یعنی تراویح میں قرآن مجید سناتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے لیکن اس نیکی کے کام میں چند بری عادتیں رواج پا چکی ہیں کہ جس کی برائی بھی برائی نہیں رہ گئی ہے یعنی معاشرے نے اس منکر کو قبول کر لیا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق مصلی وتراویح سنانے والے کوئی دس فی صد حفاظ اور قراء ایسے ہوں گے جو رمضان کے علاوہ گیارہ ماہ میں قرآن مجید کی دہرائی کرتے ہوں گے۔ نوے فی صد رمضان میں ہی قرآن مجید دہراتے ہیں لہذا ان کا قرآن مجید پختہ نہیں ہوتا اور غلطیاں بہت ہوتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن حفاظ اور قراء نے مصٖلی و تراویح سنانا ہے، وہ بقیہ گیارہ ماہ میں قرآن مجید کی دہرائی کریں اور ہر ماہ میں کم از کم قرآن مجید کا ایک دور نکالیں اور یہ مشکل نہیں ہے کہ روزانہ کا ایک پارہ نصاب بنتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ جہاں تک تراویح میں غلطی لگنے کا تعلق ہے تو کوئی اسی سے مبرا اور پاک نہیں ہے۔ ائمہ حرمین کو بھی غلطی لگ جاتی ہے۔ اس غلطی کو عموما متشابہ لگنا کہہ دیا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے کچھ مقامات اور آیات ایسی ہیں کہ جو آپس میں ملتی جلتی ہیں یعنی ان کا مضمون ایک جیسا ہے لیکن ان کے الفاظ مختلف ہیں یا آگے پیچھے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں کہیں دنیا کو “لھو ولعب” جبکہ کہیں “لعب ولھو” کہا گیا ہے۔ معنی ایک ہی ہے یعنی کھیل اور تماشا۔ بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے ہو جانے سے معنی نہیں بدلتا۔ لیکن ان غلطیوں کی تصحیح بھی ضروری ہے بلکہ فرض ہے۔
البتہ قرآن مجید میں بعض اغلاط ایسی ہیں کہ جن سے معنی بدل جاتا ہے۔ ایک قاری صاحب نے سورۃ القارعہ کی تلاوت کے دوران “فاما من ثقلت موازینہ” کے بعد “فامہ ھاویۃ” پڑھ دیا یعنی درمیان کی دو آیات چھوڑ دیں۔ اس سے معنی بالکل بدل گیا۔ جنتیوں کو جہنم میں پہنچا دیا۔ ایسی اغلاط کی تصحیح تو بہت ہی ضروری ہو جاتی ہے ورنہ تو کفر لازم آتا ہے۔ بعض حفاظ اور قراء توحید کی آیات کو شرک اور شرک کی آیات کو توحید بنا دیتے ہیں۔ یہ بھی اس قسم کی اغلاط ہیں۔ ایسی غلطیوں کے ساتھ یہ اللہ کا کلام نہیں رہ جاتا۔ یہ انسانی کلام بن جاتا ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے۔ اور ایسے انسانی کلام کے پڑھنے اور سننے پر ثواب نہیں بلکہ گناہ کا اندیشہ ہے۔
حفاظ اور قراء کے ساتھ عموما ایک سامع (listener) ہوتا ہے جو ان کی غلطیاں نکالتا ہے۔ عموما مساجد میں دیکھا گیا ہے کہ حفاظ اور قراء اس کے ساتھ سیٹنگ کر لیتے ہیں کہ میری غلطی نہیں نکالنی۔ اس طرح غلط قرآن پڑھتے ہیں اور سناتے ہیں۔ دوسری ایک عادت قراء اور حفاظ کی یہ ہے کہ وہ غلطی نکالنے والے سامع کی آواز پر دھیان نہیں دیتے بلکہ اپنی آواز اونچی کر دیں گے کہ جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں اور غلط آیت پڑھنے پر اصرار کریں گے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے سامع سے کہتے ہیں کہ صرف کھانسنا ہے، مجھے غلطی نہیں بتانی۔ بہت سے ایسے ہیں جو منزل کچی ہونے کے سبب جانتے بوجھتے غلط سلط پڑھتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں کہ کسی طرح جیسا تیسا پڑھ کے تراویح مکمل کروا دیں۔
حفاظ اور قراء ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ یہ سب اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ حافظ صاحب آپ کی آج غلطیاں بڑی آئی ہیں۔ یعنی ان کا مقصد اپنی عزت نفس کو بچانا ہوتا ہے لیکن اس کی خاطر وہ قرآن مجید میں تحریف کو جانتے بوجھتے قبول کر لیتے ہیں۔ متشابہ لگ جانا تو غلطی لگنا ہے، ٹھیک ہے۔ لیکن حافظ صاحب کو پتہ ہے کہ منزل کچی ہے، پارہ یاد نہیں لہذا مصلے پر کھڑا ہو کے غلط ہی پڑھنا ہے تو جانتے بوجھتے غلط منزل اور پارہ پڑھ جانا، سامع کا لقمہ نہ لینا اور غلط پڑھتے جانا، کوئی لقمہ دے تو آواز اونچی کر لینا اور شو کروانا کہ کچھ سنائی ہی نہ دیا وغیرہ وغیرہ تحریف قرآن کی مثالیں ہیں اور یہ حرام اور کفریہ عمل ہے۔
قرآن مجید کے احترام کے سامنے ایک حافظ اور قاری صاحب کا احترام کچھ معنی نہیں رکھتا۔ حفاظ اور قراء کو تو اپنی جان بھی قرآن مجید کی حفاظت پر قربان کر دینی چاہیے، چہ جائیکہ وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر قرآن مجید میں تحریف کو گوارا کر لیں۔ اگر آپ کو منزل یاد نہیں ہے، تو قرآن مجید سے دیکھ کر تراویح سنا لیں کہ جمہور فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن کسی عالم وفقیہ نے جانتے بوجھتے قرآن مجید غلط پڑھنے کی اجازت نہیں دی ہے کہ یہ یہود کے علماء کی عادت “یحرفون الکلم عن مواضعہ” کہ کتاب کے کلمات کو اس کی جگہ سے پھیر دیتے ہیں، کی مثال ہے جو اس امت میں بھی بد قسمتی سے حفاظ اور قراء کے رستے رائج ہو گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا تقدس، اس کی عظمت اور اس کی بڑائی دلوں سے محو ہو چکی ہے۔ تراویح میں تلاوت قرآن ایک رسم بن چکی ہے۔ میرا حال یہ ہونا چاہیے کہ مجھے قیامت تک ذلیل ورسوا ہو کر بھی کھڑا رہنا پڑے تو میں گوارا کر لوں لیکن قرآن مجید کا ایک لفظ جانتے بوجھتے غلط نہ پڑھنے پاؤں۔ یہ قرآن مجید پر ایمان کا تقاضا ہے۔ ورنہ تو پھر صحیح بخاری کی روایت ہے کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل پوچھیں گے کہ کیا کر کے آئے ہو؟ تو قراء جواب دیں گے کہ قرآن مجید کی تعلیم وتدریس کا کام کیا ہے۔ اللہ عزوجل کہیں گے کہ جھوٹ بول رہے ہو۔ یہ تو اپنے لیے کیا تھا۔
اس کی واضح مثال یہی تراویح کا مقام ہے۔ اگر اپنی عزت نفس بچانے کی خاطر قرآن مجید کو غلط پڑھنے یعنی اس میں لفظی تحریف کو گوارا کر سکتے ہو تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کے لیے نہیں اپنے نفس کی خاطر پڑھ رہے ہو کہ تمہیں یہ کہا جائے کہ بڑے قاری قرآن ہو، تم کو قرآن اچھا یاد ہے، تمہاری غلطی نہیں نکلتی۔ تو وہ تو کہا جا چکا۔ خدا کے لیے شیطان کے اس دھوکے سے باہر نکلو۔ اپنی عزت کو قرآن کی عزت پر قربان کر دو۔ اور قرآن مجید میں جانتے بوجھتے غلطی نہ کرو۔
راقم کا مشاہدہ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں نوے فی صد حفاظ اور قراء کی تعداد ایسی ہو گی جو اپنی عزت نفس بچانے کی خاطر قرآن مجید میں جانتے بوجھتے غلطی کو گوارا کر لیتی ہے۔ قرآن مجید صحیح پڑھنے سننے کا ثواب ہے تو غلط پڑھنےسننے کا گناہ بھی ہے۔ اللہ عزوجل ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے کہ اکثر حفاظ اور قراء کہ جن کی آوازیں اچھی اور لہجے خوبصورت ہیں، ان کو منزلیں یاد نہیں ہیں۔ اور مساجد ایسے ہی حفاظ اور قراء کی آوازوں کے سبب آباد ہیں۔ لیکن قرآن مجید کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، یہ پیچھے کھڑے کسی عالم کو ہی معلوم ہو سکتا ہے جو غلط قرآن پڑھے جانے کی صورت میں اس کے معانی ومفاہیم جان سکتا ہو۔ خلاصہ یہی ہے کہ قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے وقت انجانے کی غلطی تو معاف ہو سکتی ہے لیکن جانتے بوجھتے غلط پڑھنا یہ قابل معانی نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
کمنت کیجے