Home » اسلام میں حرکت و جدوجہد (1)
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار فلسفہ

اسلام میں حرکت و جدوجہد (1)

ڈاکٹر ظفر اللہ خان

زندگی کے لیے تغیرو ثبات دونوں ہی نہایت ضروری ہیں۔ تغیر صرف اس صورت میں اچھا ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر انسانیت کے لیے کوئی افادیت رکھتا ہو اور بقائے انسانیت کے لیے کوئی کردار صرف وہ قومیں ادا کرسکتی ہیں جو علم کے زیور سے آراستہ ہوں اوربنی نوع انسان کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔
ہمیں بحیثیت انسان اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم زمان و مکان میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل کا ساتھ دے رہے ہیں؟ کیا ہمارے پاس وہ علم موجود ہے جس کی ہمیں زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہے؟ کیا ہم انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ کیا ہم عہد حاضر کے چیلنجوں کا مناسب جواب دے سکتے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کا دورِ جدید کے مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’       A        Study        of History‘ (مطالعۂ تاریخ) میں جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں قوموں کے عروج و زوال کی وضاحت کرتا ہے۔
ٹائن بی نے تہذیبوں کی فرداً فرداً نشاندہی کرتے ہوئے انہیں ’اکائیاں‘ (units) قرار دیا ہے اور وہ ہر تہذیب کے لیے ایک ’للکار‘ (challenge) اور ایک ’جواب‘ (response) کا تصور پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تہذیبیں چند شدید مشکلات کے ایک مجموعے اور ان کے جواب کے طو رپر وجود میں آئی ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والی اقلیتوں نے ان کے ایسے حل وضع کئے جنہوں نے ان کے سارے سماج کی از سر نو تشکیل کر دی۔
یہ ’للکاریں‘ (challenges) اور ان کے ’جوابات‘ (responses) مادّی و جسمانی تھے جیسا کہ قدیم بابل کے سمیریوں (Sumerians) نے جواب دیا۔ جب انہوں نے جنوبی عراق کے بے قابو دلدلی علاقوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور وہ اس طرح کہ انہوں نے عہد حجری کے آخری دور کے ایسے باشندوں کو اپنے معاشرے میں ضم کر لیا جو بڑے پیمانے کے آبپاشی کے منصوبوں کوعملی جامہ پہنا سکتے تھے۔ (اور ان سے کام لے لیا گیا) جبکہ بعض تہذیبوں نے ’للکار‘ کا سماجی جواب دیا جیسے کیتھولک چرچ نے بعداز روما کے یورپ میں چھڑنے والی بد نظمی پر اس طرح قابو پایا کہ نئی جرمن خصوصیات رکھنے والی بادشاہتوں کو ایک غیر منقسم مذہبی کمیونٹی کی شکل دے دی۔
جب کسی تہذیب نے پیش آمدہ چیلنج (للکار) کا جواب دیا تو اس نے فروغ پایا۔ تہذیبوں کو اس وقت زوال آیا جب ان کے رہنماؤں نے موجدانہ انداز میں جواب دینا چھوڑا تو وہ قومیت، عسکریت اور مستبدِ اقلیت کے جبر کی وجہ سے ڈوب گئیں۔ ٹائن بی اپنی قوتِ استدلال کی بنا پر دعویٰ کرتا ہے کہ معاشرے قدرتی اسباب کی بہ نسبت خودکشی یا قتل کی وجہ سے زیاد ہ مرتے ہیں۔ خود کشی کے باعث تقریباً ہمیشہ مرتے ہیں۔ وہ تہذیبوں کے عروج و زوال کو ایک روحانی طریق کار کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ انسان جو تہذیب پاتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے حیاتیاتی عطیے یا جغرافیائی ماحول کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ اس للکار یا چیلنج کا مناسب جواب دینے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جس کا وہ خصوصی نوعیت کی مشکل پیش آنے پر فقید المثال اظہار کرتی ہے۔ (A        Study        of        History        by        Arnold        Toynbee, p.570)
اسلام بطور ایک مذہب فطرت جو فلسفہ پیش کرتا ہے وہ بقول حضرت اقبالؒ یہ ہے:
اسلام ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات (universe) کے قدیم جامد نظرئیے کو مسترد کرتے ہوئے ایک متحرک و توانا (dynamic) نظریہ پیش کرتا ہے۔ جملہ زندگی کی حتمی و قطعی روحانی بنیاد جو اسلام کی پیش کردہ ہے دائمی و ابدی ہے اور یہ اپنا اظہار تنوع اور تغیر کی صورت میںکرتی ہے۔ جو معاشرہ حقیقت (reality) کے ایسے تصور پر استوار ہو، اسے اپنی زندگی، دوام اورتغیر کی تمام اقسام کے ساتھ لازماً ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اسے لازماً ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہونا چاہیے تا کہ یہ اپنی اجتماعی زندگی کو منضبط (regulate) کر سکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جو حی و قیوم ہے ہمیں مستقل تغیرّات کی دنیا میں قدم جمانے کی جگہ عطا کرتا ہے۔ لیکن جب دائمی اصولوں کو یہ سمجھ لیاجائے کہ وہ تغیرّ کے تمام امکانات کو خارج کر دیتے ہیں، جو کہ ازروئے قرآن اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین ’نشانیوں‘میں سے ہے۔ یہ ایسے مظہر کو ساکت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے جو اپنی فطرت کے تحت اساسی طور پر متحرک ہے۔ یورپ کی سیاسی اور سماجی علوم میں نا کا می اوّل الذّکر اصول کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتی ہے؛ اسلام کی گزشتہ پانچ سو (۵۰۰) سالوں کے دوران حرکت نا پذیری (immobility) مؤخر الذکر اصول کی وضاحت کر دیتی ہے۔ تو پھر اسلام کی تشکیل میں اصولِ تحرک کیا ہے؟ اسے ’اجتہاد‘ کہا جاتاہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں