Home » صدائے فلسطین
اردو کتب سیاست واقتصاد مطالعہ کتب

صدائے فلسطین

 

صابر ندوی صاحب کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ مسئلہ فلسطین اور اس کی صورتحال پر انہوں نے کچھ تحریریں لکھی تھیں جس کو انہوں نے جمع کیا ہے اور اس کو کتابی صورت میں “صدائے فلسطین” کے نام سے پاکستان میں  ادارہ فکر اسلامی لاہور نے شائع کیا ہے۔
اس کتاب کی ابتداء مولانا رابع حسن ندوی اور مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی کے تعریفی کلمات سے ہوتی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے لکھا ہے۔مولانا رحمانی نے بتایا ہے کہ فلسطین کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ فلسطینی ان کنعانی عربوں کی اولاد ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ اس علاقے کو سیدنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنا مستقر بھی بنایا اور یہاں شب و روز گزارے۔ اس خطے پر مختلف اقوام نے حکومتیں کی ہیں۔ مولانا رحمانی نے فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی مظالم اور اس پر اسلامی دنیا کی سرد مہری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کتاب کا مقدمہ مولانا ڈاکٹر طارق ایوب ندوی صاحب جو ماہنامہ ندائے اعتدال علی گڑھ کے مدیر ہیں نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر ایوبی نے بتایا ہے کہ فلسطینیوں کی آزمائش ۱۹۴۸ سے شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ اس دوران ۱۹۴۸, ۱۹۵۶, ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگوں کے نتیجے کے بعد عربوں نے شکست تسلیم کر لی اور فلسطین کا سودا کر لیا۔ یہ عرب حکومتیں جو سامراج کی آشیر باد سے خلافت عثمانیہ کی کوکھ سے وجود میں آئیں، اب ان حکمرانوں کی نسلیں سامراج کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہیں۔ جس پر تعجب کرنے کی کوئی بات نہیں۔
ایوبی صاحب کہتے ہیں کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل مخلتف میدانوں میں قوت حاصل کرکے سیاسی ، فکری اور فوجی اقدام میں ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دفاعی پالیسی یا سفارتی انداز میں اس کا حل نکل آئے گا تو یہ بالکل بھی ممکن نہیں۔
ایوبی صاحب نے اسلام میں مسجد اقصیٰ کی اہمیت پر بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے دلوں میں اس کی محبت بسائی ہے۔ اس کی فضیلت کو ذکر کیا ہے اور اس کی فتح کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے دلوں میں مسجد اقصیٰ سے رشتہ صبح قیامت تک باقی رہے گا۔
ایوںی صاحب نے موجودہ مسلم حکومتوں بالخصوص عرب بادشاہتوں کے کردار پر تنقید کی ہے۔ ان حکومتوں کی مرضی کے خلاف حق بولنے والی آوازیں ان کے نزدیک معتوب ہیں۔ جبکہ کئی شیوخ و امام اپنے آپ کو ان حکومتوں کی خوشنودی پر قربان کر چکے ہیں مگر پھر بھی چند آوازیں موجود ہیں جو مسجد اقصیٰ ، حماس ، فکر اسلامی اور نظام اسلامی جیسے موضوعات پر بات کرتی ہیں۔ ایوبی صاحب نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔جس وقت یہ مقدمہ لکھا اس وقت علامہ قرضاوی حیات تھے اب وہ وفات پا چکے ہیں۔ علامہ قرضاوی کے کردار کی ایوبی صاحب نے تعریف کی ہے۔
ایوبی صاحب نے کتاب کی موضوع کے حوالے سے اہمیت پر بھی گفتگو کی ہے۔صابر ندوی صاحب نے ایک جگہ فلسطین کے ساتھ کشمیریوں کی مظلومیت پر بھی بات کی جس سے ایوبی صاحب کو اتفاق نہیں۔ ایوںی صاحب کے ہندوستانی ہونے کے ناطے ان کو ہم گنجائش دیتے ہیں مگر صابر ندوی صاحب کی حق گوئی کی تعریف بھی بنتی ہے کہ بھارتی ہونے کے باوجود انہوں نے کشمیر کے مسئلہ کی اہمیت کو سمجھا اور یہاں کی عوام کی حق رائے دہی کی حق تلفی اور بھارتی مظالم پر بات کی.
صابر ندوی صاحب نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی تاریخ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے باب میں ایک خاص حالات یعنی ۲۰۲۱ میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کے وقت کی تحاریر ہیں۔ چوتھے باب میں متفرق تحریریں ہیں جن میں عرب حکمرانوں کی بددیانتی اور مسئلہ فلسطین میں منفی کردار کے متعلق تحریروں کو جمع کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا باب اول ہی اس کتاب کا سب سے مضبوط باب ہے۔ جس میں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی تاریخ کے بارے میں مصنف نے کم صفحات میں جتنی زیادہ معلومات ممکن ہو سکیں فراہم کی ہیں۔ باقی تین ابواب کی تحریروں میں جذباتیت زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک خاص پس منظر رکھتی ہیں جب اسرائیل فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کر رہا تھا اور حماس کی جانب سے اپنی وسعت کی حد تک مزاحمت بھی جاری تھی تو مصنف نے حماس کی اس مزاحمت کی بھرپور تعریف کی ہے اور اس میں مبالغہ بھی کیا ہے جس کی ایسے مواقع پر گنجائش بھی ہے کیونکہ مظلوموں کے ساتھ جب آپ کا کلمہ کا رشتہ ہو اور ان مظلوموں کے دفاع کے لیے کوئی تنظیم سرگرم عمل ہو تو اس کی تحسین کی جاتی ہے اور اس کی کامیابی پر خوشی بھی ہوتی ہے اور دشمن کی تباہی کی امید بھی جنم لیتی ہے۔ اس ہی طرح کی باتیں ہم خصوصی طور پر اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

مصنف نے باب اول میں بتایا ہے کہ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے جس میں ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون ہے۔ یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت اس ہی کے نام سے قائم ہے۔
۲۵۰۰ قبل مسیح عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ کنعان یا فونیقی کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ اس کا قدیم نام کنعان ہے۔ یہ لوگ معاش کی تلاش میں یہاں آ کر بسے۔ ان کے بعد دنیا کے دیگر جیسے ایشیائے کوچک کے علاقوں سے لوگ بھی یہاں آ کر بسے جن کو فلسطی کہا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس علاقے میں اپنا مسکن بنایا۔ ان کے دو معزز فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت یہاں ہوئی ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام عرب چلے گئے جبکہ حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی اولاد یہاں ہی آباد رہی۔ اس سرزمین پر انبیاء علیہم السلام کی قبور ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی قبور یہاں شہر الخلیل موجود ہیں۔
یہاں ہی وہ مقدس شہر جس کو پروشلم کہا جاتا ہے اور یہاں ہی وہ معبد ہے جس کو حضرت سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تعمیر کروایا۔ اس کو ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔ یہ ہیکل اپنے زمانے میں شاہکار عمارت تھی۔ یہ فقط مذہبی نہیں بلکہ سیاسی و سماجی مرکزیت کی حامل عمارت تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے وصال کے بعد ان کے بیٹے رجعام اتنی بڑی سلطنت کو نہ سنبھال سکے اور یہ مملکت دو حصوں یعنی یہوداہ اور اسرائیل میں تقسیم ہو گئی۔ ان کے درمیان جنگیں بھی ہوتی رہیں۔
جب یرمیاہ علیہ السلام نبی کے زمانے میں ۵۷۰ قبل مسیح میں بخت نصر نے یہودیوں کا قتل عام کیا اور ان کو جلاوطن کیا تو اس کے ساتھ اس نے ہیکل سلیمانی کو بھی ڈھاہ دیا۔ تیل چھڑک کر باقی عمارتوں کو بھی آگ لگا دی جس سے تورات کے نسخے بھی جل گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور حضرت عزیر علیہ السلام مامور ہوئے۔ اب یہودی پھر بیت المقدس میں آباد ہوئے اور ۵۱۵ قبل مسیح میں اس کی تعمیر ثانی ہوئی۔ یہ عمارت گزشتہ عمارت کی طرح نہیں تھی اس کو زربابلی ہیکل کا نام دیا گیا۔ ہیکل سلیمانی سے اس کی قدر مشترک مقام تھا۔
۶۶ عیسوی میں یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی ۔ جس کو رومی سلطنت نے سختی سے کچل ڈالا۔ ۷۰ عیسوی میں رومی جنرل ٹائٹیس نے بیت المقدس پر حملہ کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں یہودیوں کا قتل عام ہوا۔ اس حملے میں ان کے معبد کو بھی نقصان پہنچا۔ زربابلی ہیکل کا اکثر حصہ مسمار کر دیا گیا۔ٹائٹیس نے یہودیوں سے اتنی نرمی کی کہ مقدس ایام میں یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت دی۔ بادشاہ نے اقصیٰ کی مغربی دیوار کو چھوڑ دیا۔ یہاں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کے موقع پر براق کو کھڑا کیا۔ یہاں ہی یہودی گریا کرتے ہیں کہ ان کا عہد زریں واپس آ جائے۔ ۱۳۶ عیسوی میں رومی بادشاہ ہیڈرسن نے بیت المقدس کو دوبارہ تعمیر کیا اور اس شہر کا نام ایلیا رکھ دیا۔ ۳۱۵ عیسوی میں جب قسطنطین اعظم نے عیسائیت قبول کی تو یہاں کلیسا کی تعمیر ہوئی جس کی وجہ سے مسیحیوں میں بھی اس شہر کو تقدس حاصل ہوا۔
اسلام میں بھی اس سرزمین اور مسجد اقصیٰ کو خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث کے مطابق اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مساجد میں ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت بیت المقدس پر رومیوں کا قبضہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بیت المقدس فتح ہوا۔ فتح کے وقت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خود بیت المقدس کا دورہ کیا۔ مسلمان اس شہر میں خونریزی نہیں چاہتے تھے عیسائیوں کی طرف سے یہ شرط تھی کہ امیر المومنین خود تشریف لائیں تاکہ صلح کی صورت نکل آئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس شرط کو قبول کیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنا کر یہاں تشریف لائے اور یوں صلح کے تحت یہ علاقہ خلافتِ اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔ یہاں پر عیسائیوں کی جان، مال اور مذہبی آزادی کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ عیسائیوں نے کہا وہ یہودیوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو یہودیوں کے لئے الگ سے بستی بنائی گئی۔ یہاں ایک مسجد تعمیر کی گئی جس کا نام مسجد عمری ہے یہ اقصیٰ کے احاطے میں قائم ہوئی۔ بوقت فتح بیت المقدس کوڑہ دان میں تبدیل ہو گیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ملکر اس کو صاف کیا اور پھر یہاں نماز ادا کی۔ اس کے بعد بیت المقدس سلطنت اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔ اس کی یہی صورتحال اموی اور عباسی سلطنت کے دور میں قائم رہی۔ سب حکومتوں کے لیے یہ شہر اہمیت کا حامل رہا۔
قبتہ الصخرۃ کے بارے میں مصنف نے بتایا ہے کہ یہ جگہ تینوں مذاہب کے لیے مقدس ہے۔ اس کے نیچے ایک چٹان ہے جہاں بقول یہودیوں کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی کی تھی۔ عیسائیوں کے نزدیک یہاں ایک قدم کا نشان ہے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے جب مسلمانوں کے نزدیک اس جگہ سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات آسمانوں کی طرف سفر کیا۔ اس لیے یہاں جو پاؤں کا نشان ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔
۱۰۹۹ سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔ جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس مسلمانوں سے ہاتھ سے نکل کر عیسائیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ صلیبیوں نے فتح کے بعد مسلمانوں پر شدید مظالم کیے۔ تقریباً ۸۸ سال بعد ۱۱۸۷ میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے اس کا قبضہ واپس لیا۔ اور فتح کے بعد عیسائیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔
اس کے بعد مصنف نے اسرائیل کے قیام کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ یہودی اپنے لیے الگ ریاست کے لیے عرصے سے خواہشمند تھے۔ اس سلسلے ۱۸۶۰ میں یہودیوں کا اجلاس ہوا۔ اس سلسلے میں بڑی کوشش ۱۸۹۸ میں ہوئی جب فرانس اور برطانیہ کے کچھ امراء نے یہودیوں کے لئے الگ خطے کے لیے دنیا کے نقشے پر غور کیا تو ان کی نظر سرزمین فلسطین کی طرف گئی۔ اس سلسلے میں یہ لوگ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید سے ملے اور ان کو فلسطین میں یہودیوں کے لئے خطے کو مختص کرنے کے بدلے میں سلطنت عثمانیہ کا سارا قرضہ اور استنبول میں ایک یونیورسٹی جس میں عصری علوم پڑھائے جائیں گے کی پیشکش کی مگر سلطان عبد الحمید نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں جب سلطنت عثمانیہ آخری ہچکیاں لینے لگی تو سامراجی طاقتوں اور صیہونیوں نے عرب قوم پرستی کے ذریعے اس کے مکمل خاتمے کی راہ ہموار کی۔ اس عرب قوم پرستی کے نتیجے میں فلسطین عربوں سے نظر انداز ہوا۔ یہودیوں کو اپنا ایجنڈا مکمل کرنے کا موقع ملا۔ مصنف نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی بات نقل کی ہے کہ دیگر اقوام کی قوم پرستی کے مقابلے میں عرب قوم پرستی سب سے زیادہ بھیانک اور خطرناک ہے یہ ان کو جاہلیت قدیمہ کی طرف لے جاتی ہے جس کو قرآن مجید نے صریح کفر کہا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ عربوں میں قوم پرستی کا بیج بو کر برطانوی و فرانسیسی سامراج نے بہت کاری وار کیا۔ اس کے نتائج مسلمانوں کی اجتماعی نظام کے خاتمے پر نکلے۔ برطانیہ نے جنگ عظیم اول میں دوہری پالیسی اختیار کی۔ عرب قوم پرستوں کو کہا کہ ہمارے ساتھ دو ہم تمہیں عربی مملکت کے لیے فلسطین دیں گے جبکہ دوسری طرف صیہونیوں سے بھی وعدہ کیا گیا کہ فلسطین میں یہودی ملک کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ اس کے لیے برطانیہ کو فرانس اور جرمنی کی بھی تائید حاصل تھی۔ اس کے بدلے صیہونیوں نے برطانوی افواج میں شرکت کی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑے۔ امریکہ اس وقت نئی ابھرتی ہوئی طاقت تھی صیہونیوں نے اپنے اثر و رسوخ سے اس کو جنگ سے باز رکھا۔ جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی تو فرانس ، برطانیہ اور اٹلی نے اس کے عرب علاقوں کو آپس میں بانٹ لیا۔جن میں سے فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آیا ،اس نے یہودیوں کو فلسطین میں بسنے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی ان کو اپنی فوج رکھنے کی اجازت بھی دے دی، اسرائیلی فوج اس فوج کا ہی تسلسل ہے۔ اس فوج نے بعد میں جنگ عظیم دوئم میں بھی حصہ لیا۔ یہ خونخوار فوج تھی جس نے فلسطینیوں سے درندگی کا سلوک کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی استعمار کمزور ہوا تو اس نے اپنی کالونیوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔فلسطین کا قضیہ بھی ان میں سے تھا برطانوی سامراج یہاں قضیہ کو حل کیے بغیر ہی رخصت ہو گیا حالانکہ اس کو کسی ایک اتھارٹی کو امن و آشتی کے ساتھ اقتدار سونپنا چاہیے تھا۔ اس کے جانے کے بعد فلسطینوں اور صہیونیوں کی طرف سے الگ الگ ریاست کا مطالبہ سامنے آیا۔ ۱۹۴۷ میں اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور اس علاقے کا چھپن فیصد اسرائیل جبکہ چوالیس فیصد فلسطین کے لیے مختص ہوا۔ جبکہ یروشلم کے عالمی کنٹرول میں دے دیا گیا۔ یہ تقسیم آبادی کے لحاظ سے بھی غیر منصفانہ تھی۔ عرب ممالک نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں یہودیوں نے قبول کرکے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ کو اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور ایک سال بعد اقوام متحدہ نے اس کو بطور ملک قبول کرلیا۔ عرب ممالک اس فیصلے سے سخت نالاں تھے انہوں نے اسرائیل سے جنگ چھیڑ دی۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی۔عرب یہ جنگ اسلام کے نام پر نہیں بلکہ عربیت کے نام پر لڑے اور ان کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کا رقبہ بڑھ کر اٹھہتر فیصد ہو گیا جبکہ فلسطین بائیس فیصد تک ہو گیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۶ اور ۱۹۶۷ میں بھی عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں اس میں اسرائیل نے باقی ماندہ علاقوں کے ساتھ مصر اور شام کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ۱۹۷۳ میں عربوں نے پھر کوشش کی مگر اس جنگ میں بھی اسرائیل کو شکست نہ دے سکے۔ اس کے بعد عربوں نے ذہنی طور پر شکست قبول کرکے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرضی کے معانی نکلے گئے جس میں یہودیوں سے حسن سلوک اور امن و رواداری کے درس دئیے گئے ، یہ دراصل شکست کا اعتراف تھا۔ اسلام کے لبادے میں اپنی بزدلی کو چھپانے کی سعی لاحاصل تھی۔ اس سے پہلے ۱۹۶۴ میں Palestine        Liberation        Organization قائم ہوئی جس کا سیاسی ونگ الفتح تھی جس کا ہیڈ کوارٹر رام اللہ میں قائم ہوا۔پہلے اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا گیا مگر ۱۹۷۴ میں اس کو نمائندہ تنظیم کے قبول کیا گیا۔ جب عربوں نے ذہنی شکست کھا لی تو آہستہ آہستہ انہوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے شروع کیے۔مصر نے ۱۹۷۸ میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا اس کے بدلے مصر کے مقبوضہ علاقے اس کو واپس مل گئے ۔ مصر نے باقی عرب ممالک کے لئے ایک راستہ کھول دیا تھا جو ان کی منشا کے مطابق تھا۔ اس کے ساتھ اس وقت افغان جنگ شروع ہو گئی جس میں عرب ریاستوں کی توجہ افغانستان منتقل ہو گئی۔ اسرائیل نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنا قبضہ مستحکم کرنا شروع کردیا اس نے مغربی کنارے یہودی بستیاں قائم کرنا شروع کر دیں فلسطینوں کو اپنی سرزمین سے ہجرت کرنا پڑی ۔ ان کی شنوائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس دوران مسلم دنیا میں مزید کچھ تبدیلیاں آئیں عراق ایران جنگ اور پھر اس کے بعد صدام کا کویت پر قبضہ اور پھر امریکہ کا باقی عرب ممالک کی مدد سے کویت سے عراق کو نکالنا۔ اس سب صورتحال کے بعد عرب دنیا میں تقسیم بڑھ گئی جس کی وجہ سے فلسطین کے قضیہ کو بھی نقصان پہنچا۔ دوسری طرف الفتح کی مزاحمت بھی اب اتنی موثر نہ رہی تھی۔ جس کو دیکھتے ہوئے ایک نئی تنظیم جو کہ اسلام کے جھنڈے تلے قائم ہوئی یعنی حماس وجود میں آئی جس کے بانی شیخ احمد یاسین تھے۔ اس نے اسرائیل کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ لیکن اسرائیل کے لیے الفتح سے بات کرنا زیادہ فائدہ مند تھا۔ اس کے لیے الفتح کے سربراہ یاسر عرفات کے ساتھ اسرائیل نے اوسلو معاہدہ کیا۔ جس میں مغربی کنارے کے بڑے حصے پر اسرائیل اور چھوٹے حصے پر فلسطین کا حق تسلیم کیا گیا۔ جس کے بعد فلسطینی ریاست قائم ہونی تھی مگر اس معاہدے کے بعد اس کی حیثیت ایک میونسپل کمیٹی سے زیادہ نہ تھی۔ اوسلو معاہدے سے فلسطینیوں کو دھوکا دیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب حماس نے اسرائیل کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں۔ ۲۰۰۴ میں شیخ احمد یاسین اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے اور پھر چند روز بعد عبدالعزیز الرنتیسی کو بھی شہید کیا گیا۔ ۲۰۰۵ میں غزہ سے اسرائیل نے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ فلسطین میں انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں حماس فاتح ٹھہری مگر الفتح اور اسرائیل کے لیے اس کی کامیابی کو قبول نہیں کیا گیا۔ بعد میں الفتح اور حماس کے درمیان خانہ جنگی بھی ہوئی۔ فلسطینی حکومت الفتح کے محمود عباس جن کو اسرائیل کی حمایت بھی حاصل تھی اور حماس کے درمیان تقسیم ہو گئی۔ پھر ۲۰۱۴ اور ۲۰۲۱ میں حماس اور اسرائیل کی بڑی جنگیں ہوئی جس میں اسرائیل کا پلڑا بھاری رہا مگر مصنف یہاں حماس کی مزاحمت کی بھرپور تعریف کرتے ہیں اور ان سے جذباتی طور پر وابستہ نظر آتے ہیں اور نظر آتا ہے کہ ان کو حماس کی جلد کامیابی کا یقین ہے مگر ایسا ہمیں نظر نہیں آ رہا۔
فلسطین کے حوالے سے عرب ممالک کی دلچسپی اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ مصر کے بعد امارات اور عمان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرلئے ہیں۔ عمان کی غیر جانبدار پالیسی پر بھی مصنف نے کچھ لکھا ہے کہ اس نے بیک وقت سعودیہ اور ایران سے اچھے تعلقات رکھے۔ جب سب عرب ممالک صدام حسین کے خلاف ہوئے تب بھی عمان نے صدام کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھے۔ اس سے پہلے مصر نے جب اسرائیل کو تسلیم کیا تو اس کے اقدام کو بھی عمان نے سراہا۔

مصنف نے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے حکمران خاندان اور اردنی حکمرانوں کے متعلق کافی سخت تنقید کی ہے اور ان کے تاج برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں ان کے منفی کردار کے متعلق لکھا ہے۔ یہ مجموعہ مضامین ۲۰۲۱ کے ہیں اس وقت کی عرب ممالک کی فلسطین پالیسیوں پر بھی مصنف نے بھرپور تنقید کی ہے مگر ترکیہ کے صدر اردوان کو سراہا ہے۔ یہاں پر مصنف نے ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے ترکیہ نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی ہے مگر ترکیہ نے دوسری جانب اسرائیل سے تعلقات کو زیادہ خراب نہیں ہونے دیا۔ ان کے درمیان باہمی تجارت جاری ہے۔ مصنف اس کو ترکیہ کی مجبوری کہتے ہیں کہ اس کے تنہا اقدام سے عالمی برادری اس کے خلاف متحد ہو جائے گی، خارجہ معاملات کے بارے میں مصنف کے تجزیے میں پختگی نہیں پائی جاتی۔ خارجہ معاملات اتنے سیدھے نہیں ہوتے ، ان میں بہت سی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ان کا سرسری جائزہ اور پھر مذہب ہی کے تناظر میں اس بارے میں دیکھنے سے ہم درست نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس وقت پاکستان میں عمران خان وزیراعظم تھے انہوں نے بھی اسرائیلی مظالم کی مذمت کی مگر یہ بھی سفارتی حد تک تھی۔ پاکستان نے بھی اسرائیل کے خلاف ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ مصنف نے عمران خان کے آواز اٹھانے کی تحسین کی ہے۔

مصنف چونکہ خود بھارتی ہیں تو بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے بھی انہوں نے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ شروع میں بھارت کی پالیسی غیر جانبدار تھی۔ اقوام متحدہ میں بھارت نے اسرائیل کے قیام کے وقت اس کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا مگر دوسری طرف جواہر لعل نہرو نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم بھی کیا۔ اس کے بعد بھی چار دہائیوں تک بھارت سفارتی سطح تک فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا۔ جب بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو اس کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوئے۔ ۱۹۹۲ میں اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ کانگریس کے دور میں تعلقات اتنے نہیں بڑھے پھر جب واجپائی وزیراعظم بنے تو لال کرشن ایڈوانی نے ۲۰۰۰ میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ اسرائیل دورہ کرنے والے پہلے وزیر تھے پھر جسونت سنگھ بھی اسرائیل گئے۔ ۲۰۰۳ میں ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا۔ یہ کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا پہلا دورہ بھارت تھا۔ اس کے بعد کانگریس کے دس سالہ دور میں کوئی بڑی پیشرفت نہ ہوئی۔ جب ۲۰۱۴ میں مودی وزیراعظم بنے تو تعلقات میں دوبارہ گرمجوشی آئی۔ مودی پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا اور پرنب مکھرجی بطور صدر دورہ اسرائیل کرنے والے پہلے بھارتی صدر تھے۔

صابر ندوی صاحب نے مسئلہ کشمیر کے متعلق بھی لکھا ہے اور وہاں کی مسلم آبادی کے حق رائے دہی کے حق یا سے محرومی کا ذکر کیا ہے اور اس پر خطے کے ممالک کے کردار پر سوالیہ نشان اُٹھائے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے کردار کو بھی زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں کہا۔ میرے خیال سے یہ بات درست نہیں ہے۔ پاکستان نے کشمیر کے حصول کے لیے کافی کوشش کی ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہاں اب محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان نے بھی جموں و کشمیر پر بھارتی حق تسلیم کر لیا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے کشمیر پر بھارت بھی راضی ہو گیا ہے۔

قرآن میں جو یہود و نصاری کو دوست بنانے کی ممانعت ہے مصنف نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ممانعت مطلق نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام نے یہود و نصاری کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے۔ جب ان کو بیویاں بنایا جا سکتا ہے تو ان سے محبت کا رشتہ بھی قائم ہو گا۔ یہ ممانعت ان یہود و نصاری کے لیے ہے جو نوخیز ریاست مدینہ کے خلاف ظاہری اور خفیہ سازشیں کر رہے تھے۔ دوسرا یہاں ان سے جس دوستی سے منع کیا گیا ہے وہ بطور نگران اور رازدار بنانے سے ہے۔
یہ اہم بات ہے جس پر اہل علم میں یقیناً اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس پر کھل کر مکالمے کی ضرورت ہے۔ مصنف نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود و نصاری یا مشرکین اگر اب بھی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کریں تو ان کے ساتھ معاندانہ رویہ ہی رکھا جائے گا اگر وہ اپنا رویہ بدل لیں تو مسلمانوں کو بھی اس کے مطابق اپنا رویہ تبدیل کرنا ہے۔

جیسے کہ پہلے عرض کی کہ مصنف نے کچھ جگہ بالخصوص دوسرے اور تیسرے باب میں جذباتیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان مضامین میں سے بیشتر کی حیثیت جنگی نغموں کی طرح ہی ہے جو اپنی فوج کا جوش بڑھانے اور اپنے حامیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے اور دشمن کو مایوس کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ میں نے اس پر زیادہ گفتگو نہیں کی۔ جبکہ کتاب کا پہلا باب زیادہ معلوماتی تھا اور پھر چوتھے باب کی متفرق تحریروں میں سے بھی کچھ اہم نکات ذکر کر دئیے ہیں۔ ہم اس کتاب کو ایک شاہکار تو نہیں کہہ سکتے مگر اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ایک مبتدی کے لیے یہ کافی مفید ہے جس سے اس مسئلہ کی تاریخ سے اس کو کچھ شد بد حاصل ہو جائے گی اور یہ باتیں اس کو مزید مطالعہ کے لیے ترغیب بھی دلائیں گی۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں