سیرت مقدسہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کی مختلف جہات ہیں۔ جن میں سے ایک اہم جہت خواب بھی ہیں۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی وحی سے قبل سچے خواب آنا شروع ہوئے اور یہ سلسلہ روایات کے مطابق چھے ماہ کا بنتا ہے۔ تئیس سال کے دور نبوت میں یوں خواب کا چھیالیسواں حصہ بنتا ہے۔ پھر خوابوں کا تعلق فقط سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے خاص نہیں بلکہ مطالعہ قرآن سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت سیدنا یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت سیدنا یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمایا تھا۔ ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خوابوں کے کچھ معانی و تعبیر ہوتی ہے۔پھر جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات مقدسہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر کے بعد خصوصی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کے خواب سنا کرتے تھے لہذا خواب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حصہ ہیں۔شریں زادہ خدوخیل صاحب نے سیرت مقدسہ کے اس پہلو پر ایک کتاب “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خواب” کے نام سے لکھی ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیکھے اور آپ کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو اپنے خواب بیان کیے جن کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعبیر بیان کی کو ذکر کیا ہے۔اس کتاب کو الفیصل والوں نے شائع کیا ہے.
شروع میں مصنف نے بتایا ہے کہ خوابوں کے اسرار کے بارے میں گو کہ ہم بہت کم جانتے ہیں مگر یہ مذاہب کے علاوہ بھی دیگر علوم سے وابستہ لوگوں کی دلچسپی کا بھی موضوع ہے۔ یورپ میں اس موضوع پر کافی کچھ شائع ہوا ہے۔ مصنف نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے کہ
‘حق تعالیٰ کے عجائبات خلق میں خواب بھی ایک عجوبہ ہے ‘
مصنف کہتے ہیں کہ خوابوں کا تعلق فقط انسان کے ساتھ نہیں بلکہ تجربات کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ حیوانات بھی خواب دیکھتے ہیں۔ بلی ، بندر اور ڈولفن کے بارے میں مثبت تجربات بھی کیے گئے ہیں۔
انسان کے لیے جیسے نیند ضروری ہے، اس طرح خواب بھی ضروری ہیں۔کیونکہ زیادہ تر گہری اور اچھی نیند کی علامت ہوتے ہیں۔ مصنف نے اچھی نیند اور خوشگوار خواب کے لیے یہ طریقہ بتایا ہے کہ انسان دائیں کروٹ پر لیٹے ، رات کو جلد سوئے اور کوشش کرے کہ سوتے وقت پیٹ بھرا ہوا نہ ہو۔ اگر کھانے کے فوراً بعد سونا بھی پڑے تو کم از کم سو قدم چہل قدمی کر لینی چاہیے۔ سوتے ہوئے اس امر کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ پاؤں قبلہ کی طرف نہ ہوں۔
مصنف کہتے ہیں کہ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق خواب انسان کی شخصیت کا پتہ دیتے ہیں۔۔ہم کسی کے خوابوں سے اس کی شخصیت کا خاکہ سمجھ سکتے ہیں۔ جبکہ فرائیڈ اور اس کے ہم خیال مفکرین کے نزدیک خواب مدفون جذبات کے مظاہروں کے سوا کچھ نہیں، بلکہ اکثر خوابوں کے پیچھے جنسی جذبات کار فرما ہوتے ہیں۔ علم النفس کے ماہرین کو فرائیڈ کے خیال سے اتفاق نہیں
مصنف نے بتایا ہے کہ انسانی تاریخ میں نظم و نثر کے کئی بہترین نمونے خوابوں کی بدولت مرتب ہوئے ہیں۔ادیب و شاعر کے ذہن میں خواب کے ذریعے سے کوئی خیال جاگا جس کے بعد ایک شاہکار نظم و نثر وجود میں آئی ہے۔ کئی لوگوں کو خواب میں مستقبل کے حالات کا منظر دیکھایا گیا ہے۔ لہذا فرائیڈ کا خوابوں کو بے معنی کہنا درست نہیں۔
احادیث میں خوابوں کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں۔
۱. رحمانی
۲. شیطانی
۳. نفسانی
مشہور معبر علامہ ابنِ سیرین رحمہ اللہ نے ان کو بالترتیب مبشرات، تخویف ابلیسی اور حدیث نفسی کا نام دیا ہے۔
مبشرات رویہ صادقہ ہوتے ہیں جو لائق تعبیر ہوتے ہیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ ایسے خواب عموماً اس وقت دکھائے جاتے ہیں جب انسان کو کوئی مشکل یا پریشانی پیش آنے والی، ہو یا اس کی زندگی کا کوئی فیصلہ کن موڑ آنے والا ہو، یا اس کے راہ حق سے بھٹکنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہوں تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اس کو آگاہ کرتا ہے۔
تخویف ابلیسی کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ کوئی ایسا خواب دیکھے تو اس کے لیے ہدایت ہے کہ تین بار بائیں جانب تھوکے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر کے انسان کروٹ بل لے، پھر انشاء اللہ ایسے خواب انسان کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
نفسانی خواب سے مراد وہ خواب ہوتے ہیں جو کسی فرد کی روزگار ، مشاغل اور خواہشات کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہ بے مقصد خواب ہوتے ہیں۔ جب انسان نے سونے سے قبل پیٹ بھر کا کھانا کھایا ہو، یا وہ بدہضمی یا تھکاوٹ کا شکار ہو یا پھر کوئی بیماری کا شکار ہو اور بے خوابی کا مسئلہ ہو تو اس وقت وہ زیادہ تر ایسے خواب دیکھتا ہے۔
مصنف نے یہاں ایک معنی خیز حدیث ذکر کیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی اور تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ انسان اگر اس حدیث پر عمل کرے تو نفسانی خوابوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے ساتھ ہی یہ اس کی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔
اس کے بعد مصنف نے ‘سچے خواب، کو قرآن اور احادیث کی روشنی میں ‘ کے عنوان سے ایک باب میں بتایا ہے کہ بعثت سے قبل چھے ماہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچے خواب آئے تھے۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں دیکھتے تھے وہ بعینہ بیداری میں رونما ہوتا دیکھتے۔ چھے ماہ بعد وحی کا سلسلہ شروع ہوا مگر خوابوں کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔
اس باب میں مصنف نے علم تعبیر الرؤیا پر بات کی ہے اور لکھا ہے کہ حضرت سیدنا یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام پہلی شخصیت تھے جن کو یہ علم عطا کیا گیا تھا۔ اور یہ حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کا معجزہ بھی تھا۔ یہ بات درست ہے کہ تعبیر الرؤیا سیدنا یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کا معجزہ تھا اور اس کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا مگر ہم غور کریں تو یہ علم حضرت یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھی حاصل تھا کیونکہ حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ان سے خواب بیان کرنا اور پھر ان کا حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس کا آگے بیان کرنے سے روک دینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے حضرت یعقوب علیہ السلام تعبیر الرؤیا کا علم رکھتے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت جامع کمالات ہے تو رب العالمین نے دیگر انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے علم الرؤیا کا معجزہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا تھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عادت مبارکہ کہ فجر کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کے دیکھے ہوئے خواب سنتے اور کبھی اپنے خواب بھی بیان کرتے اور ان کی تعبیر ذکر کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد علم الرؤیا کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت بڑے معبر تھے۔ تابعین میں علامہ ابن سیرین کو اس فن کا امام مانا گیا ہے۔ اس کے علاوہ امام جعفر الصادق ، امام جابر مغربی ، امام ابراہیم کرمانی رحمہم اللہ کے نام بھی اس فن کے ماہرین میں ملتے ہیں۔
یوں تو اسلام میں جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت ہے مگر خواب کے معاملے میں جھوٹ بولنے کی ممانعت زیادہ سخت ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے خواب دیکھنے والے کی سماجی اور ذاتی حیثیت کے ساتھ رجحان طبع کو بھی دیکھا کرتے۔ این اعرابی نے اپنا پریشان کن خواب بیان کیا تو ان سے پوچھا کہ تم نے کیا کھایا تھا؟ اس نے عرض کی کہ پختہ کھجور کھائی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تعبیر درست نہیں آئے گی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے جن خوابوں کی تعبیر کا قرآن مجید میں ذکر ہے اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ معبر کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے والے کی حیثیت کو سامنے رکھ کر اس کی تعبیر کرے۔
خواب کے بارے میں اس وقت بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بارے میں سحر کا وقت سب سے زیادہ موزوں ہے۔
مصنف نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ جس خوش نصیب کو یہ سعادت حاصل ہو جائے تو یہ رب العالمین کا اس پر بہت بڑا انعام ہے۔ کیونکہ شیطان کسی اور ہستی کی شکل میں آ کر فریب دے سکتا ہے مگر اس کو یہ طاقت نہیں کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت اختیار کر سکے۔
خوابوں کے بارے میں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس کو کسی جاہل یا بدخواہ کے سامنے بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے بلکہ ماہرین اور قریبی لوگوں سے ہی اس کو بیان کرنا چاہیے.
اس کے بعد مصنف نے چھتیس خواب کو الگ الگ عنوانات سے ذکر کیا ہے۔
پہلا خواب حضرت عبد المطلب رحمہ اللہ کا ہے کہ ان کی حطیم کعبہ میں ایک رات آنکھ لگی ایک درخت دیکھا جس سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں ، قریش کی ایک بڑی جماعت اس کی ٹہنیوں سے لپٹی ہوئی تھی اور دوسری جماعت اس کو کاٹنے کے درپے تھی۔ اتنے میں کاٹنے والی جماعت کے پاس ایک پاکیزہ جوان نمودار ہوا جس نے دشمنان نور کو بھگا دیا۔ حضرت عبد المطلب نے اس نورانی درخت کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو پاکیزہ جوان نے کہا اس میں ان کا حصہ نہیں۔ یہ ان کا نصیب ہے جو شاخوں سے لٹک رہے ہیں۔
حضرت عبد المطلب نے یہ خواب کاہنوں اور نجومیوں سے بیان کیا تو ان کے رنگ متغیر ہو گئے تو ایک کاہن نے بتایا کہ اگر یہ خواب سچ ہے تو آپ کے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہوگا، مشرق و مغرب میں لوگ اس کے مطیع ہوں گے۔
مصنف نے دوسرا خواب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا کہ انہوں نے خواب دیکھا کہ ان کے بدن سے نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ورقہ بن نوفل رحمہ اللہ کو سفید لباس میں دیکھا جس سے ان کے صاحب ایمان اور جنتی ہونے کا پتہ لگتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہجرت مدینہ ہے۔ مصنف نے حدیث کے حوالے سے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں ایسی سر زمین دکھائی گئی جہاں کھجوریں ہوں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے ان کا ذہن یمامہ اور ہجر کی طرف گیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مدینہ ہے۔
جب مدینہ منورہ میں آمد ہوئی تو یہاں کا موسم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو موافق نہ آیا تو وہ بیمار ہو گئے ، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے مدینہ منورہ سے وباء دور ہو گئی اور بتایا کہ مدینہ منورہ کی بیماریاں ایک چڑیل کی شکل میں مدینہ سے نکل گئی ہیں۔ بعد میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حوالے سے خواب دیکھا کہ ایک کالی عورت جس کے بال پراگندہ ہیں وہ مدینہ سے نکل جحفہ چلی گئی۔ جس کی بعد میں آپ نے یہ ہی تعبیر فرمائی۔
نماز کے لیے اذان دینے جیسے اہم معاملے کی رب العزت نے خواب کے ذریعے تعلیم دی۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب کے بعد اذان کا طریقہ اپنایا گیا۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ کا اہم حصہ ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بشارت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب کے ذریعے دی گئی۔ ایسے ہی ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا جو فتح خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئیں نے فتح خیبر سے قبل خواب دیکھا کہ آسمان سے چاند اور سورج ان کی گود میں آ گرے ہیں۔ جب یہ خواب ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پہلے شوہر کو بتایا تو وہ حواس باختہ ہو گیا اور اس نے ام المومنین رضی اللہ عنہا پر ہاتھ اٹھایا اور کہا کہ اگر یہ خواب سچ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر فتح کریں گے اور آپ کو اپنے عقد میں لیں گے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مجموعی طور پر لوگوں کا خوابوں کے بارے میں رویہ کیا تھا۔ وہ خوابوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے اور اس وقت خوابوں کی تعبیر سے لوگ شناسائی رکھتے تھے۔
غزوات میں دیکھا جائے تو غزوہ بدر کے موقع پر حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میدان جنگ کا نقشہ دکھایا گیا، جس میں کفار مکہ کی تعداد کم دکھائی گئی جو ان کی ذلت آمیز شکست کی علامت تھی۔اس خواب کی برکت سے کفار کی کثرت کی مسلمانوں کے نزدیک کچھ وقعت نہ رہی۔ غزوہ احد میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ کی تلوار اپنی نیام سمیت ٹوٹ گئی ہے اور ایک گائے ذبح کی جا رہی ہے۔ تلوار کے ٹوٹنے سے مراد سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر مصیبت کی علامت تھی اور گائے کے ذبح ہونے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس غزوہ میں شہید ہونا تھا۔ غزوہ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی زخم آئے۔
اسلام کی تبلیغ اور اس کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ اس کی بارے میں اگر تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس کی ابتداء بھی ایک خواب سے ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کر رہے ہے۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کی جماعت عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ جا رہی تھی تو حدیبیہ کے مقام پر یہ تاریخی واقعہ پیش آیا، جس نے پورے عرب کا منظر ہی تبدیل کر دیا اور اسلام گھر گھر میں داخل ہو گیا۔ صلح حدیبیہ نے فتح مکہ کا بھی راستہ کھول دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی جبل ہند کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ آپ نے طعام کا ایک لقمہ کھایا جس کا مزہ بھی محسوس ہوا مگر جب اس کو نگلنا چاہا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلق میں اٹک گیا جس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ داخل کر کے نکالا۔ اس خواب کی تعبیر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ جو دستے روانہ کیے گئے ہیں شاید ان میں کسی کے حوالے سے ناپسندیدہ خبر ملے۔ تو معلوم ہوا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی راہ میں بنو خزیمہ کے کچھ لوگ مزاحم ہوئے ہیں جس میں چند صحابہ اور مخالفین کے تیرہ افراد کام آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصلاح احوال کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام مقتولین کا خون بہا ادا کیا اور جملہ نقصانات کی تلافی کی۔
مصنف نے ایک اور خواب حضرت عکرمہ بن ابو جہل کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں جنت میں انگور کا خوشہ دیکھا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ابوجہل کے لیے ہے، یہ بات کافی شاق گزری کیونکہ جنت کا ابوجہل سے کیا واسطہ ؟۔اس کی تعبیر برسوں بعد ظاہر ہوئی جب حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اسلام میں داخل ہوئے،یہ ان خوابوں میں شمار ہوتا ہے جن کی تعبیر الٹی ہوتی ہے یعنی والد کی تاویل بیٹے کے لیے ، ایسے ہی چند خواب ایسے ہوتے ہیں جہاں غم و خوف کی تاویل شادی و خوشی پر ہوتی ہے۔
خلافت راشدہ کے حوالے سے بھی کسی صحابی کا ایک خواب نقل ہوا ہے جس میں بادل سے ایک چھتے کو دیکھا گیا جس میں سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے اور لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ایک رسی بھی ہے جو زمین کو آسمان سے ملاتی ہے۔انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے ایک اور صاحب نے پکڑا اور اوپر چڑھ گئے ، دوسرے نے پکڑا اور اوپر چڑھ گئے ، تیسرے نے پکڑا وہ بھی اوپر چڑھ گئے پھر وہ رسی ٹوٹ گئی اور پھر جڑ گئی تو ایک اور آدمی نے پکڑا وہ بھی اوپر چڑھ گئے۔ اس خواب کی تعبیر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے بیان کی جس میں کچھ کی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تائید کی اور کچھ کے بارے میں فرمایا کہ صیح نہیں۔
اسود عنسی اور مسلیمہ کذاب کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ زمین کے خزانے آپ کے سامنے لائے گئے ہیں اور ان میں سے آپ کے ہاتھ پر دو سونے کے کڑے رکھے گئے، یہ بات آپ کو گراں گزری، ان ہر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بذریعہ وحی پھونک ماری تو کڑے اڑ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ایک خواب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بیان کیا کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک زینے پر چڑھے اور آپ علیہ السلام ڈھائی سیر آگے بڑھ گئے اس کی تعبیر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد میں ڈھائی سال زندہ رہوں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھے ایک میں آپ رضی اللہ عنہ کا جنت میں محل دیکھا ، ایک خواب میں اپنے دودھ کے پیالے میں سے دودھ پی کر باقی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عطاء فرمانا۔ جس سے علم مراد لیا گیا۔ ایسے ہی ایک خواب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لمبی قمیص میں دیکھا جو ان کے دین و مذہب پر پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔
حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمندری جہاد کے بارے میں خواب دیکھا۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت اور شہادت دونوں کے بارے میں خواب دیکھے گئے ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کا خواب سیدہ ام فضل نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم سے ایک ٹکڑا ان کی گود میں جا گرا ہے۔ جس کی تعبیر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت اور آپ رضی اللہ عنہ کا سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا کے ہاں تربیت پانے کو ذکر کیا گیا۔ایسے ہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دے دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ حضرت عقبہ بن رافع کے گھر میں جمع ہیں جہاں آپ کے سامنے کھجوریں لائی گئیں جن کو رطب ابن طاب کہا جاتا ہے۔ اس کی تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمائی ہمارے لیے دنیا میں رفعت ، عظمت اور بلندی ہے اور آخرت میں نیک عاقبت اور بھلائی ہے۔ اس خواب میں لطف کی بات سیدنا عقبہ بن رافع کے نام سے تعبیر فرمائی جہاں رافع سے رفعت مراد لی، عقبہ سے عاقبت اور طاب کو سامنے رکھ کر اچھائی کو تعبیر کیا۔
قرب قیامت میں سے ایک بڑی نشانی یاجوج ماجوج کے متعلق بھی خواب مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ایسے ہی خواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کو بھی خواب کہ وہ طواف کر رہے ہیں۔
ایک خواب برزخ کی سیر کے عنوان سے ہے جس میں معراج کے واقعات میں سے کچھ نقل کیے گئے ہیں۔ معراج کا واقعہ خواب کا نہیں بلکہ بیداری کا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روحانی معراج بھی کئی دفعہ حاصل ہوئی مگر معراج کے مجموعی احوال جو نقل ہوئے ہیں وہ اس معراج کے ہیں جو جسم اطہر کے ساتھ ہوئی تھی۔
ایک اور خواب جس میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے رب کا دیدار کیا۔ جس میں فرشتوں کی گفتگو کا ذکر ہے۔ رب کریم نے اپنا دست قدرت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرشتوں کی اس گفتگو کو جان لیا۔ جو وہ اعمال صالحہ اور بلندی درجات کے حوالے سے کر رہے تھے
اس کے علاوہ بھی مصنف نے مزید خواب ذکر کیے ہیں جن کا سیرت مقدسہ، تاریخ اسلام اور احوال آخرت سے تعلق ہے۔ میں نے نمونے کے طور پر کچھ خوابوں کا ذکر کر دیا ہے۔ مصنف نے کی کاوش لائق تحسین ہے۔خوابوں کے بیان کے سلسلے میں انہوں نے اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور زیادہ تفصیل سے گریز کیا ہے۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے عمدہ کام ہے۔ اس پر مزید تفصیلی کام بھی ممکن ہے۔ مصنف نے بنیادی نکتہ واضح کر دیا ہے اور سیرت مقدسہ میں خوابوں کے تعلق سے جو اہمیت پائی جاتی اس کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
کمنت کیجے