یہ موضوع زیر بحث ہے کہ علما کو جہاد وغیرہ ایسے مسائل میں فتوی دینے کا حق ہے یا نہیں۔ اس میں کچھ تفصیل کی ضرورت ہے، ضروری مباحث کی رو سے اس کا خلاصہ یوں ہے:
1) دینی مسائل دو طرح کے ہیں: قطعی اور ظنی۔ قطعیات میں صرف ایک ہی رائے اس معنی میں درست ہوتی ہے کہ اس سے اختلاف کرنے والا عند اللہ گنہگار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ظنی مسائل میں ایک سے زیادہ مجتہدین کی رائے یا مساوی طور پر اور یا اولی و ادنی (یعنی صواب و خطا) کے درجے میں ہوسکتی ہے، البتہ گناہ کسی کی جانب منسوب نہیں ہوتا۔
2) مسائل ظنیہ میں عند الناس کوئی مسئلہ یا قضا و تنفیذ کا متقاضی ہوگا اور یا نہیں ہوگا۔
الف) اگر متقاضی نہ ہوگا تو ہر مجتہد شرعاً اپنے ہی اجتہاد پر عمل کا پابند ہوگا۔
ب) اگر متقاضی ہوگا تو قضاءً (یعنی عند الناس) قاضی و حکمران کا فیصلہ جائز طور پر نافذ ہوگا اگرچہ دیانتاً (عند اللہ) وہ کسی مجتہد کے نزدیک غلط ہو۔ مسائل ظنیہ میں اس کی مثال یوں ہے کہ ایک قاضی کے نزدیک کسی شخص کا دلائل سے قاتل ہونا ثابت ہوگیا اور اس نے اسے پھانسی کی سزا دے دی، اس کے بعد قوت نافذہ پر اپنے معاہدے کی رو سے اسے نافذ کرنا واجب ہے وگرنہ گنہگار ہوگی جبکہ عین ممکن ہے کہ زید مجتہد کے نزدیک قاضی کا فیصلہ غلط ہو (اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے)۔ البتہ زید کا اولی الامر (قاضی و حکمران) نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ زید کو اپنی رائے بیان کرنے کا بھی حق نہیں۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ زید کے کہنے سے قضاء یہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا نیز قاضی کا فیصلہ جائز طور پر (یعنی گناہ متوجہ ہوئے بغیر) نافذ العمل مانا جائے گا۔
3) اور اگر وہ مسئلہ مسائل قطعیہ میں سے ہو اور پھر حاکم یا قاضی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کا فیصلہ صرف نافذ مانا جائے گا نہ کہ جائز طور پر، بلکہ ایسا حکم نافذ کرکے وہ گنہگار ہوگا اور اپنے حق حکمرانی کو مجروح کرے گا۔ مثلاً حاکم کسی قاضی کو کہے کہ فلاں شخص (جو بے گناہ ہے) کو پھانسی دینے کا فیصلہ کرو اور وہ طوعاً یا کرھاً ایسا کردے تو ایسے میں یہ دونوں گنہگار ہوں گے۔
ان اصولوں کے پیش نظر موجودہ صورت حال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اس وقت اہل گازہ کی حمایت میں قتال کا فیصلہ مسائل قطعیہ میں سے ہے یا ظنیہ میں سے؟ بسا اوقات ایک مسئلہ از خود قطعی ہوتا ہے لیکن اس کا اطلاق ظنی۔ زیر بحث موضوع میں اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ اہل گازہ پر ظلم ہورہا ہے، البتہ محل نزاع یہ ہے کہ کیا اتنی استطاعت ہے یا نہیں کہ یہ فرض ادا کیا جاسکے؟ یہ ایک اطلاقی چیز ہے جس میں ہر فریق کی بات کو ظن کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ لہذا علما کے یہ کہنے کے باوجود کہ “جہاد فرض ہے” اگر اہل حل و عقد یہ سمجھتے ہیں کہ بوجہ عدم استطاعت فرض کی ادائیگی متوجہ نہیں تو ان کی یہ رائے درست بھی ہوسکتی ہے (بایں معنی کہ عند اللہ ان کی جانب یہی حکم متوجہ ہے اور وہ اس میں گنہگار نہ ہوں) اور قضاء نافذ بھی ہوگی اور غیر قاضی علماء و مفتیان کے کہنے سے یہ فرض نہ ہوگا۔ تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اہل علم اس میں رائے بیان نہیں کرسکتے۔ البتہ زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور میسر استطاعت کے ساتھ ظلم بندی کے لئے جو کچھ ممکن ہو وہ سب کرنا، یہ واجب ہے۔
کمنت کیجے