Home » مسئلہ فلسطین : اہم جہات کی نشاندہی
تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد

مسئلہ فلسطین : اہم جہات کی نشاندہی

فلسطین کے موضوع پر گفتگو کئی جہتیں رکھتی ہے اور یہ مناسب ہے کہ ان جہتوں کی نشان دہی کر کے نکات کی تنقیح کر لی جائے تاکہ اختلاف اور اتفاق کے دائرے زیادہ واضح طور پر متعین ہو جائیں۔ ہمارے خیال میں اس کی تین جہتیں اہم ہیں:

۱۔ اسرائیلی ریاست کی قانونی حیثیت

۲۔ اہل فلسطین یا خطے کی مسلم حکومتوں کی اب تک کی اور آئندہ حکمت عملی کا تجزیہ

۳۔ عالم اسلام (خصوصاً‌ برصغیر) کی داخلی سیاست میں اس مسئلے کا استعمال

ان میں سے تیسرا نکتہ ایک مستقل بحث یعنی ’’مسلم معاشروں کی داخلی سیاست’’ کا حصہ ہے اور اس بڑے سوال کے تحت اور اس کے ذیل میں ہی اس پر زیادہ بامعنی گفتگو ہو سکتی ہے۔ دوسرے نکتے سے متعلق ہمارا خیال یہ ہے کہ اس قضیے کا تاریخی موازنہ بارہویں اور تیرہویں صدی میں صلیبی ریاستوں کے قیام اور پھر انہدام سے کر کے دیکھا جائے تو زیادہ بہتر تفہیم ہو سکتی ہے۔ دونوں واقعات میں جزوی مماثلتیں بھی ہیں اور فروق بھی، لیکن ایک بنیادی اور گہرا اشتراک بھی ہے۔ یہ چونکہ قدرے تفصیل طلب موضوع ہے، اس لیے ارادہ ہے کہ اس پر ایک تفصیلی گفتگو ریکارڈ کر کے نشر کر دی جائے۔

البتہ جہاں تک پہلے اور سب سے بنیادی نکتے کا تعلق ہے، ہمیں درج ذیل تکییف سے جوہری طور پر اتفاق ہے جو خورشید ندیم صاحب نے آج کی تحریر میں بیان کی ہے:

’’کچھ لوگ اس حق کا تعین جدید سیاسی حقائق کی روشنی میں کرتے ہیں۔جو قوم جس علاقے میں آباد ہے،وہ اسی کا حق ہے۔ فلسطین فطری طور پر فلسطینوں کا ہے۔ اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ باہر سے اجنبی لوگوں کو یہاں آباد کرے اور اہلِ فلسطین کو ان کے گھروں سے نکالے۔ یہ مذہبی مقدمہ نہیں ہے، اسی لیے بہت سے غیر مسلم بھی اس موقف کو درست سمجھتے اور اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے سوادِ اعظم کا مقدمہ یہ ہے کہ مذہبی اور جدید سیاسی حقائق، دونوں کی روشنی میں یہ فلسطینی مسلمانوں کا ملک ہے۔’’

یہ ایک بہت درست اور ضروری ’’تصحیح’’ ہے۔ مسئلے کا عملی انجام تو ایک (خدا معلوم کتنے) لمبے تاریخی عمل سے سامنے آئے گا، لیکن جدوجہد کے لیے بنیادی موقف اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہیے کہ اسرائیل فی نفسہ ایک ناجائز ریاست ہے۔ سیاسی مجبوریوں اور حالات کے اتار چڑھاو کے ساتھ عملی سمجھوتے اب تک بھی اہل فلسطین اور عرب ممالک کو کرنے پڑے ہیں اور شاید مزید کرنے پڑیں گے، لیکن تاریخی حقائق اسرائیل کے ساتھ مستقل بقائے باہمی کے کسی امکان کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ یہ قضیہ جب بھی اور جتنے بھی کشت وخون کے بعد ’’حل’’ ہونا ہے، اس ناجائز وجود کے خاتمے کی صورت میں ہی حل ہونا ہے۔ اس بنیادی نکتے کو تسلیم کرنے پر ہی کسی بھی معروضی حکمت عملی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں