Home » امام بخاری کی کتاب : وحی یا تاریخ ؟
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث شخصیات وافکار

امام بخاری کی کتاب : وحی یا تاریخ ؟

غامدی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت فرمائی کہ دین کا ماخذ صرف قرآن اور سنت ہیں، جبکہ بخاری اور دیگر مجموعہ ہائے احادیث دین کا براہ راست ماخذ نہیں، بلکہ زمانۂ رسالت کے حالات و واقعات پر مبنی تاریخی ریکارڈ ہے۔

غامدی صاحب یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس تاریخی ذخیرے میں رسول اللہ ﷺ کے علم و عمل کی جو روایات نقل ہوئی ہیں؛ وہ آپ کی سیرت و سوانح، اسوۂ حسنہ، دین کی تفہیم و تبین، قرآن کی شرح و وضاحت، اجتہادات اور دیگر تاریخی حالات پر مبنی ہے۔ تاہم ان کا اندراج قرآن مجید کی طرح وحی کی قطعی بنیاد پر نہیں، بلکہ تاریخی روایت کے انداز میں ہوا ہے۔ لہٰذا ان کا محاکمہ قرآن کی روشنی میں، عقل و علم کی بنیاد پر، اور محدثین کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق کیا جائے گا۔

چونکہ ان ذخائر میں رسول اللہ ﷺ کے احکام اور فیصلے بھی نقل ہوئے ہیں، اس لیے غامدی صاحب نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اگر کوئی روایت صحت کے معیار پر پورا اتر جائے تو اس کی اطاعت قرآن کے حکم کے مطابق واجب ہو جاتی ہے۔
قرآن مجید فرماتا ہے:

“سو تیرے رب کی قسم! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تم کرو، اپنے دلوں میں اس پر کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور سر بسجود ہو کر اسے قبول کر لیں۔”(النساء 4:65، )

اسی بنا پر غامدی صاحب کے الفاظ میں:

“۔۔۔اِس دائرے کے اندر، البتہ، اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔”
(میزان)

تاہم یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مجموعہ احادیث اپنی اصل نوعیت میں قرآن مجید یا اجماع و تواتر کی طرح کسی قطعی بنیاد پر منتقل نہیں ہوئے۔ یہ انفرادی روایتوں (خبر واحد) کی صورت میں زمانۂ رسالت کے حالات، فیصلوں اور واقعات کا ایک تاریخی بیان ہیں، جو صحت کے اطمینان کے بعد ہی دین میں حجت کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔

صحیح بخاری کی حیثیت بھی اسی اصول پر قائم ہے۔
غامدی صاحب نے اس کتاب کے عنوان پر توجہ دلا کر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ یہ مجموعہ وحی کی مانند کوئی قطعی ماخذ دین نہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے امور اور ایام کا ایک مرتب شدہ تاریخی ریکارڈ ہے۔

غامدی صاحب کے اس بیان پر بعض حضرات نے اجنبیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر فقیر نے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس پیش کیا، جو بعینہٖ اسی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے۔

مولانا گیلانی اپنی کتاب تدوین حدیث میں لکھتے ہیں:

“حدیث کیا ہے؟ زمانۂ رسالت مآب ﷺ کی عظیم الشان، حیرت انگیز انقلابی تاریخ کا نام سچ پوچھیے تو حدیث ہے۔
۔۔۔فنِ حدیث کے سب سے بڑے امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام جو رکھا ہے، اگر اسی پر غور کرلیا جائے تو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے جو میں نے کہا ہے۔ سمجھنے والوں نے ہمیشہ اس فن کو اِسی نگاہ سے دیکھا ہے۔
امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ‘الجامع الصحيح المسند المختصر من أمور رسول الله ﷺ وأيامه’ رکھا ہے۔”
(تدوین حدیث)

اس وضاحت پر ہمارے بعض مذہبی علما نے یہ اعتراض پیش کیا کہ غامدی صاحب نے صحیح بخاری کا پورا عنوان نہیں دیکھا، حالانکہ وہاں “وسننه” کا اضافہ موجود ہے؛ لہٰذا یہ علمی خیانت کا ارتکاب ہے۔ اسی طرح یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے بخاری کے نام میں “وسننه” کا ذکر نہیں کیا، جو کہ ایک سنگین علمی غلطی ہے۔

ان اعتراضات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر بخاری کے عنوان میں “وسننه” شامل ہو، تو اس کی نوعیت محض تاریخ کی نہیں رہتی، بلکہ وہ سنت کے مستقل مجموعے کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔

ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ اعتراضات درست نہیں ہیں:

صحیح بخاری کے قدیم ثقہ راویوں نے کتاب کے عنوان کی روایت میں بعض جزوی فرق نقل کیے ہیں: کہیں صرف “أمور رسول الله ﷺ وأيامه” کا ذکر آیا ہے، اور کہیں بعض نسخوں میں “وسننه” کا اضافہ بھی محفوظ ہے۔
یہ تنوع خود اس حقیقت کا روشن ثبوت ہے کہ امام بخاری کی کتاب کے عنوان کے نقل میں بعض اجزاء کے ذکر یا ترک میں معمول کا اختلاف رہا ہے، اور یہی تنوع اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ تاریخی مجموعوں اور روایات میں ایسی اختلافی صورتیں فطری طور پر روایت کی تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں۔

لہٰذا صحیح بخاری کے عنوان میں پائے جانے والے اس اختلاف کو علمی روایت میں کبھی تحریف یا خیانت نہیں سمجھا گیا، بلکہ اسے نقل و روایت کے تاریخی ارتقاء کا ایک فطری مظہر قرار دیا گیا ہے۔
بخاری کے ان تمام معتبر ناقلین نے جنہوں نے کتاب کا عنوان “أمور رسول الله ﷺ وأيامه” تک محدود نقل کیا، بخاری کی اصل تاریخی نوعیت کو برقرار رکھا ہے۔ ان ثقہ اصحابِ علم میں شامل ہیں:

محمد بن یوسف الفربری (م 320ھ) — بخاری کے سب سے اہم راوی؛ بعض نسخوں میں “وسننه” کا اضافہ موجود نہیں۔

ابو ذر الهروی (م 434ھ) — فربری کے شاگرد؛ ان کے نقل کردہ متعدد نسخوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔

ابن طاہر المقدسي (م 507ھ) — شروط الأئمة الستة کے مصنف؛ بخاری کا عنوان اختصار کے ساتھ نقل کیا۔

ابن خیر الإشبیلی (م 575ھ) — مشہور فہرس نگار؛ اپنی فہرست میں بخاری کا یہی مختصر عنوان درج کیا۔

اندلسی اور مغربی قدیم نسخے ان میں بھی بغیر “وسننه” کے عنوان محفوظ ہے۔

یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اگر بعض نسخوں میں “وسننه” کا اضافہ تسلیم کر بھی لیا جائے، تو بھی صحیح بخاری کی اصل نوعیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

یہ اسی تاریخی ریکارڈ کے مشمولات کا بیان ہے، جس کی کسی نے نفی نہیں کی۔ اگر پیغمبر کی تاریخ مرتب کی جا رہی ہو، تو ظاہر ہے کہ اسی میں آپ کے اقوال، افعال اور عادات نقل ہوں گے۔

یہاں “سنت” کا مفہوم اس مستقل بالذات دینی سنت کا نہیں ہے جو قرآن کی طرح ساتھ اجماع اور تواتر سے امت میں منتقل ہوئی ہے، بلکہ وہ عمومی طرز عمل اور تاریخی اسوہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے نسبت کے ساتھ روایت ہوا ہے۔اس اعتبار سے صحیح بخاری میں سنت کا بیان موجود ہے، لیکن یہ سنت کا اصل ماخذ نہیں۔

اسی بنا پر اس ذخیرے کی علمی نوعیت کو امام شاطبی رحمہ اللہ نے بھی واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
وہ الموافقات میں لکھتے ہیں:

“وأما علم التاريخ، فهو الذي يعرف به أحوال الماضين من الأمم والأنبياء، ونحوهم، وما كان من أخبارهم في أحوال دينهم ودنياهم، ودخول المتواتر والآحاد فيه، لأن الجميع نقل لما وقع.” (الموافقات، ج 2، كتاب العلم، ص 60)

“علمِ تاریخ وہ علم ہے جس کے ذریعے سابقہ اقوام، انبیاء اور ان جیسے لوگوں کے حالات معلوم ہوتے ہیں، اور یہ کہ ان کے دین و دنیا کے معاملات میں کیا کچھ وقوع پذیر ہوا۔ اور اس میں متواتر اور آحاد کی خبریں بھی داخل ہیں، کیونکہ یہ سب وقوع پذیر امور کی نقل ہیں۔”

اسی اصول کی تائید ہماری علمی روایت کے بڑے اذہان بھی کرتے ہیں:

ابن خلدون مقدمہ میں لکھتے ہیں:

“واعلم أن الحديث من العلوم الشرعية، وهو من قبيل الأخبار عن الحضرة النبوية، نقلها الصحابة والتابعون، ثم العلماء في سائر الأمصار، وكان في الأكثر سرداً للأخبار.”
(المقدمة، الباب السادس: في علوم الحديث، دار الفكر، ص 568)

“جاننا چاہیے کہ حدیث علومِ شرعیہ میں سے ہے، اور یہ نبی اکرم ﷺ کی مجلس مبارک کی خبروں کی قسم سے ہے، جنہیں صحابہ، تابعین، اور پھر مختلف شہروں کے علما نے نقل کیا۔ اور زیادہ تر یہ تاریخی بیانات کی ترتیب پر مشتمل ہے۔”

خطیب بغدادی الكفاية في علم الرواية میں لکھتے ہیں:

“وأما الأخبار المروية عن النبي صلى الله عليه وسلم فيحتاج في نقلها إلى التحري والاحتياط، لأنها أخبار تتعلق بأحكام الدين، وتاريخ سيرته صلى الله عليه وسلم.”
(الكفاية، تحقيق التركي، دار الراية، ص 14)

“”رہی بات ان خبروں کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، تو ان کے نقل کرنے میں تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ خبریں دین کے احکام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تاریخی ریکارڈ سے متعلق ہیں۔”

یہ تمام شواہد بالکل دوٹوک انداز میں واضح کرتے ہیں کہ صحیح بخاری ایک مرتب شدہ تاریخی ریکارڈ ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال، افعال اور حالات محفوظ کیے گئے ہیں۔

چنانچہ ابن عبد البر اس تاریخی ذخیرے سے حاصل ہونے والے علم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

“وأما أخبار الآحاد فهي مظنونة غير معلومة، وهي موجبة للعمل لا للعلم.”
رہی بات آحاد روایات کی تو وہ گمان پر مبنی ہوتی ہیں، قطعی علم نہیں دیتیں، اور ان پر عمل لازم آتا ہے نہ کہ ان سے قطعی علم حاصل ہوتا ہے۔” (التمهيد، ج1، ص2-3)

اس لیے علمی دیانت اور فکری انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ صحیح بخاری کو اس کی حقیقی نوعیت یعنی ایک تاریخی ریکارڈ کے طور پر سمجھا اور بیان کیا جائے، نہ کہ وحی یا قطعی ماخذِ دین کے طور پر۔
دین اور علم کا اصولی مطالبہ یہی ہے کہ ہر چیز کو اس کے شایانِ شان مقام پر رکھا جائے، سچائی کو اسی صورت میں بیان کیا جائے جس صورت میں وہ محفوظ ہوئی ہے، اور تحقیق و تدبر کے ساتھ تعصب سے پاک رہنا علمی اخلاق کا بنیادی تقاضا بنایا جائے۔

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں