Home » اقوام متحدہ کا 2030ء صنفی مساوات کا ایجنڈا اور کم عمری کی شادی
تہذیبی مطالعات فقہ وقانون

اقوام متحدہ کا 2030ء صنفی مساوات کا ایجنڈا اور کم عمری کی شادی

ہم نے کم عمری کی شادی کے خلاف حالیہ قانون سازی پر ایک پوسٹ لگائی تھی کہ یہ شریعت اور عقل دونوں کے خلاف ہے تو بعض دوستوں نے حوالہ دیا کہ سعودی عرب میں بھی اٹھارہ برس سے کم عمری میں شادی پر پابندی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ وہاں ایسا قانون ہے لیکن وہاں عدالت کی اجازت سے اٹھارہ سال سے کم عمری میں شادی کی اجازت ہے۔ اور دنیا کی اکثر ریاستوں میں ایسا ہی ہے کہ جہاں اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی کو قانونا منع کیا گیا ہے تو وہاں عدالت یا والدین کی اجازت سے اس کا استثناء (exception) بھی نکالا گیا ہے۔ خیر، اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے۔

ہمارا موضوع یہ ہے کہ 2015ء میں اقوام متحدہ نے ایک پراجیکٹ لانچ کیا کہ جس کا نام (SDG 2030) ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت 2030ء تک اقوام متحدہ نے سترہ اہداف حاصل کرنے ہیں۔ اس میں پانچواں ہدف صنفی مساوات (gender          equality) کے گرد گھومتا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کچھ ٹارگٹس مقرر کیے گئے ہیں جن میں ایک مختلف ممالک کو جبری شادی اور بچوں کی شادی (forced          &            child            marriage) کے خلاف قانون سازی پر آمادہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ایکٹو ہے۔ اگرچہ اس کی سرکاری ویب سائیٹ کے مطابق اس کا کہنا یہ ہے کہ پوری دنیا میں چائلڈ میرج ختم کرنے میں اگلے تین سو برس لگ جائیں گے۔

پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے، یہ سب ایک بیرونی ایجنڈے کے تحت ہے۔ آپ اٹھارہ برس سے کم عمری کی شادی کو شرعا ناجائز سمجھتے ہیں تو اس کی دلیل شرع سے دیں اور وفاقی شرعی عدالت جیسے پلیٹ فارم کے ذریعے ایک مکالمہ کروا لیں۔ اب شرع کی دلیل تو آپ کے خلاف ہے۔ تو اب معاشرتی مسائل کا رونا شروع کر دیں۔ معاشرتی مسائل کہاں نہیں ہیں۔ وہ تو ان بچیوں اور عورتوں کے زیادہ ہیں کہ جن کی شادی ہی نہیں ہو پا رہی۔ مملکت خداداد پاکستان میں پینتیس برس کی ایک کروڑ خاتون بغیر نکاح اور شادی کے بیٹھی ہے اور آپ کوئی قانون سازی نہیں کر رہے ہیں۔ جب شادی کی کم از کم عمر کی حد مقرر ہو سکتی ہے تو اسی دلیل اور لاجک سے زیادہ سے زیادہ عمر اور حد بھی مقرر ہو سکتی ہے۔ بچہ پیدا کرنے کی صرف مینوفیکچرنگ ڈیٹ قانون سے اناونس نہ کریں بلکہ اس کی ایکپسائری ڈیٹ پر بھی قانون سازی کریں۔

معاشرے میں چھوٹی عمر پر بعض معاملات میں قانون سازی ہوتی ہے۔ بالکل ہوتی ہے لیکن وہاں جہاں دوسرے کو کوئی نقصان پہنچتا ہو۔ اگر چھوٹی عمر کا لڑکا گاڑی چلائے گا تو ایکسیڈینٹ کر دے گا لہذا ڈرائیونگ لائسینس کی عمر ہونی چاہیے، آپ مقرر کر دیں۔ لیکن کسی نے بد کاری اور زنا سے بچنے کے لیے اور عفت کی زندگی گزارنے کے لیے شادی کرنی ہے تو آپ اسے قانونا کیسے روک سکتے ہیں؟ کیا وہ اٹھارہ سال سے کم عمری میں شادی کی ضرورت محسوس کرے جیسا کہ عموما بلوغت کے بعد بچے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو وہ کیا کریں گے؟ غیر مسلم ممالک میں تو زنا کر لیں گے، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ رکھ لیں، یہاں مسلم ممالک میں کیا کریں گے؟ یہاں بھی آپ یہی چاہتے ہیں؟

سوال پھر وہی ہے کہ اگر والدین کی رضامندی سے سولہ سترہ برس کے لڑکے لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کا اس شادی کا شرعی اسٹیٹس کیا ہے؟ کیا یہ زنا ہے؟ اگر نہیں تو سزا کس جرم کی ہے؟ احتمالات پر سزاوں کا تصور درست نہیں ہے کہ اس عمل سے چونکہ اس کا احتمال ہے لہذا یہ قابل سزا جرم ہے۔ احتمال تو ہزاروں چیزوں میں نکالا جا سکتا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے تو اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی کو زنا کہہ دیا تھا جیسا کہ نیوز میں رپورٹ ہوا ہے۔ زنا کہنے کے لیے شرعی دلیل چاہیے، وہ آپ کے پاس کیا ہے؟ قرآن مجید اور سنت دونوں میں کم عمری کی شادی کا جواز ہے۔ قرآن مجید نے ان عورتوں کی عدت بیان کی ہے کہ جنہیں حیض نہ آیا ہو تو کہا کہ ان کی عدت تین ماہ ہے۔ اب یہ چھوٹی عمر کی بچیاں ہیں کہ جن کا نکاح ان کے والدین کر دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید نے یتیموں کے بارے کہا کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور اس کے لیے بلوغت کا لفظ استعمال کیا۔

اور محض نکاح تو بلوغت سے پہلے بھی درست ہے البتہ بلوغت کے بعد ان کو اپنے اس نکاح کو باقی رکھنے یا فسخ یعنی ختم کرنے کا اختیار ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ سب فقہاء وم محدثین صغیرہ یعنی چھوٹی عمر کی بچی کے نکاح کے جواز کے قائل ہیں جو کہ بالغ نہ ہو۔ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں اس کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں کہ اٹھارہ برس سے کم عمری میں شادی ہوئی۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی لڑکے یا لڑکی کی شادی اٹھارہ برس کی عمر سے دو دن پہلے ہو جاتی ہے، تو اس کو کسی جرم کی سزا ہو گی اور کس بنیاد پر ہو گی؟ کوئی عقل کو ہاتھ ماریں کہ سزا کے لیے بنیاد کس کو بنا رہے ہیں۔ سزا کی بنیاد بلوغت ہو سکتی ہے، یہ عقلا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اٹھارہ برس کی عمر ہو سکتی ہے، یہ عقل ونقل کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ سترہ یا انیس برس کیوں نہیں؟ اٹھارہ ہی کیوں؟

باقی کسی نے یہ نہیں کہا کہ چھوٹی عمر کی بچی کی شادی فرض ہے۔ آپ نہ کریں۔ آپ اپنے بچوں کی شادیاں بھلے اٹھارہ کیا، پچیس برس میں کریں۔ اور صحیح بات یہی ہے کہ آج کل کا اٹھارہ برس کا لڑکا اور لڑکی بالکل بھی شادی کے لیے میچور نہیں ہے۔ اکثر بچے اور بچیاں پچیس برس میں جا کر میچور ہو رہے ہیں۔ اور ہمارے ہاں معاشرے میں پریکٹس بھی یہی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں قانون شادی کی اجازت دے رہا ہے اور اس کے باوجود رپورٹس یہ بتلا رہی ہے کہ پینتیس برس کی عمر میں بھی شادیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ معاشرے کے حالات سب کے سامنے ہیں کہ لیٹ میرجز عام ہیں اور سب اس پر چیخ رہے ہیں کہ بچوں کی شادیوں کی عمریں نکل رہی ہیں، جوانیوں کو داغ لگ رہے ہیں، بڑھاپے کی سرحدوں کو چھو رہے ہیں لیکن معاشرتی ومعاشی مسائل شادیوں میں آڑے آ رہے ہیں۔ ہم سب اس معاشرے میں بیٹھے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں۔ کیا آپ کو تاخیر کی شادیاں نظر نہیں آ رہیں؟ اب جس معاشرے میں پہلے ہی سے تاخیر سے شادیاں ہو رہی ہوں تو وہاں کم عمری میں شادی کی ممانعت کی قانون سازی کس لیے کی جا رہی ہے؟ وہ ایک دو فی صد دیندار طبقے کے لیے؟ وہ اپنے بچوں کی شادیاں وقت پر کیوں کر دیتے ہیں یا بلوغت کے بعد کیوں کر دیتے ہیں؟ کیا ان بچوں اور بچیوں کو بھی بے راہ روی پر ڈالنا ہمارا مقصود اور ایجنڈے کا حصہ بن چکا ہے؟

باقی یہ بات درست ہے کہ بلوغت سے پہلے نکاح ہو سکتا ہے لیکن رخصتی بلوغت کے بعد ہی ہے۔ اور بلوغت کے بعد رختصی کی صورت میں اگر لڑکا اور لڑکی میچور نہیں ہیں تو ان کے والدین ان کے کفیل اور معاملات کے ذمہ دار ہوں گے۔ اور اگر وہ یہ ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں تو اس کم عمری کی شادی کی اجازت ہے۔ اور ہماری تاریخ میں کم عمری کی شادی اسی طرح سے جاری تھی۔ آج بھی دنیا کے 117 ممالک میں اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی جائز ہے۔ اور 44 ممالک میں والدین یا عدالت کی اجازت کے ساتھ کم عمری کی شادی جائز ہے۔ یہ سب 2025 میں ہو رہا ہے یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی اکثریت ابھی تک جاہل اور اجڈ ہے کہ جسے پانچ سال بعد 2030 میں تعلیم یافتہ اور مہذب بنانے کا پراجیکٹ لانچ کیا گیا ہے اور پراجیکٹ لانچ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو مہذب بنانے میں تین سو برس لگ جائیں گے۔ یہ سب ممالک کیا مریخ پر آباد ہیں؟ اس دنیا کی آبادی نہیں ہیں؟ کیا ان کے پاس عقل نہیں ہے؟ ان کے ہاں کوئی اخلاقی معیار نہیں ہے؟ سب کچھ عقل اور اخلاقیات ایک چھوٹے سے طبقے کے پاس ہے؟ بہت دور کی کوڑیاں ہیں جو لائی جا رہی ہیں۔

باقی یہ بھی درست ہے کہ اگر کوئی لڑکی اٹھارہ برس سے کم عمر میں گھر سے بھاگ کر شادی کر لیتی ہے تو آپ اس کے خلاف قانون سازی کریں کہ چار بچوں کے باپ نے سولہ برس کی لڑکی پٹا لی ہے۔ تو جہاں ضرورت ہے، وہاں قانون سازی کریں۔ عمومی قانون سازی سے سب کر رگڑا لگانے یا ان کے حقوق کو تلف کرنے میں کیا مصلحت پنہاں ہو سکتی ہے سوائے اقوام متحدہ کو راضی کرنے کے؟ اب ہر بات پر پیڈو فیلیا کا طعن ایک فیشن بن چکا ہے۔ جس چھوٹی عمر کے نکاح کی حمایت کی جا رہی ہے، اس میں ایک بچہ ہی ایک بچی سے تعلق قائم کر رہا ہے اگر تو آپ کے نزدیک اٹھارہ برس سے کم قانونی طور عمر بچہ یا بچی ہے۔ اس میں پیڈو فیلیا کہاں سے آ گیا؟ اگر دو بھائی یا دو بہنیں یا بہن بھائی آپس میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے پندرہ سولہ برس کے بچوں بچیوں کی شادیاں کر دیں تو اس میں پیڈو فیلیا کہاں سے آ گیا؟ جب دونوں میاں بیوی میں ایک دو سال کی عمر کا گیپ ہے تو یہ تو ایج فیلو ہیں، یہاں پیڈو فیلیا کہاں سے آ گیا؟ تو اس کو قانون بنا کر جرنلائز کرنا ایک بے وقوفی ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

اگر شریعت نے کسی لڑکے یا لڑکی کو بلوغت کے بعد نکاح کے ذریعے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی اجازت دی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں کہ اسے جائز طریقے سے اس کی خواہش پوری کرنے سے روکیں؟ اور اس پر زبردستی زنا کے دروازے کھولیں اور اپنی اس قانون سازی کے ذریعے سوسائٹی کو بدکاری اور فحاشی کا گڑھ بنا دیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس لبرل طبقے کو نہ تو شریعت کا پتہ ہے اور نہ دنیا کی خیر خبر ہے۔ بس ایک ہی بات اسے معلوم ہے کہ کسی طرح سے مولوی کی مخالفت کرنی ہے، بھلے اس کے لیے عقل کی کسی بھی حد کی مخالفت کرنی پڑ جائے۔ فیا للعجب۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں