ڈاکٹر عادل اشرف
مولانا مودودی کا تاریخی مباحٽ کے حوالے سے ہرگز بھی یہ منہج نہیں رہا ہے کہ کسی ایک فریق کے حق میں وکالت کریں اور دوسرے کو ہمیشہ جرم کے کٹہرے میں کھڑا کریں!
اول تو انہوں نے یہ احتیاط برتی کہ اہل سنت کی تاریخ کے مستند ترین اور انتہائی محتاط مآخذ کو سامنے رکھا-مثلا امام طبری جیسے عالم و مفسر کی تاریخ یا ابن اثیر کی تاریخ جو خود اپنی تاریخ الکامل کے مقدمے میں فرماتے ہیں کہ “مشاجرات صحابہ کے بیان میں میں نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے”!
دوم: جہاں جہاں تاریخ میں ایک ہی واقعے کے متعلق دو اقسام کی روایات سامنے آئیں تو انہوں نے یا تو اس مسئلے پر بحث کی ہی نہیں مثلا امام حسین کی شہادت پر یزید کا کیا تاثر رہا یا ایسی روایات کو ترجیح دی جن سے بزرگ شخصیات پر کم سے کم حرف آتا ہو! پھر جہاں کسی عمل کی معقول تاویل ممکن تھی تو اس میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا- چناچہ مولانا مودودی اپنے اس مسلک کے بارے میں رقم طراز ہیں :-
“تمام بزرگان دین کے معاملے میں عموما ، اور صحابہ کرام کے معاملے میں خصوصا میرا طرز عمل یہ ہے کہ جہاں تک کسی معقول تاویل سے یا کسی معتبر روایت کی مدد سے ان کے کسی قول یا عمل کی صحیح تعبیر ممکن ہو، اسی کو اختیار کیاجائے اور اس کو غلط قرار دینے کی جسارت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس کے سوا چارہ نہ رہے -“
لیکن جب بڑے بڑے واقعات کے متعلق مفصل تاریخی روایات کوئی واقعہ بیان کرتے ہوں مٽلا دومۃ الجندل میں تحکیم کی کاروائی ، استلحاق زید اور اسی طرح کے دوسرے واقعات جن میں تاریخ متفق (unanimous)
ہے اور کسی اور تعبیر کے حق میں کوئی مواد موجود نہیں، تو ایسے واقعات کا انکار آخر کس بنیاد پر کیا جاسکتا ہے؟ ان چیزوں کے انکار سے پھر سیرت اور خلفاء راشدین کی پوری سنہری تاریخ کا انکار بھی لازم آجاۓ گا اور کوئی شۓ معتبر نہیں ٹھرے گی-اس مقام پر کچھ لوگ حدیث کے علم الرجال کی بات اٹھائیں گے لیکن یہ اعتراض بلکل بے بنیاد ہے- کیونکہ علم حدیث کے اپنے اصول اور رجال ہیں اور تاریخ کے اپنے اصول و رجال- مثال کے طور پر امام مالک بطور محدث سیرت کے ایک واقعے کی متعلق استفسار پر سائل کو واقدی کی طرف refer کرتے ہیں یا ابن کٽیر کا واقدی کو تاریخ کا امام قرار دیکر انسے روایات نقل کرنا جبکہ حدیث میں انکی کمزوری عیاں تھی-اس سے بھی تشفی نہ ہو تو قرأت کے فن کو ہی دیکھیے! کیا کسی میں ہمت ہے کہ “حفص” پر ہونے والی رجالی جرحوں کی وجہ سے اسکی قرأت کو مسترد کردے؟ وجہ صاف ہے کہ ہر specialist اپنے فن سے سروکار رکھتا ہے اور اس میں مہارت باہم پہنچاتا ہے، اسی لیے اس فن میں اسے اتھارٹی مانا جاتا ہیں اور باقی فنون میں اسکو وہ حٽیت حاصل نہیں ہوتی!
سوم: مولانا مودودی نے اکا دکا غلطیوں کو لیکر اپنی تعبیر پیش نہیں کی ہے بلکہ انہوں ایک ایک بزرگ کے عمل کو متعدد گوشوں میں جانچا ہے مٽلا خلافت راشدہ کے سات گوشوں اور خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوۓ! اسی لیے حضرت عٽمان کی کچھ اجتہادی غلطیوں کا ذکر کرنے کے باجود بلا تامل انہیں خلیفہ راشد قرار دیا ہے اور دکھایا ہے کہ کس طرح انکا مجموعی طرز عمل مرتے دم تک ایک خلیفہ راشد جیسا طرز عمل تھا- اسی منہج کو انہوں نے حضرت علی رض کے طرز عمل کو بیان کرتے ہوۓ بھی برقرار رکھا ہے!
اب رہی بات محمود عباسی جیسے غیر متوازن طبیعت کے حامل شخصیات کی تو وہ pick and choose کرکے یا ضروری پسمنظر کے بغیر تاریخ کا کوئی ایک صفحہ پڑھ کر کچھ بھی ہفوات بک سکتے ہیں! یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ مستشرقین کافی پہلے سے سیرت، حدیث یہاں تک کہ قرآن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے آۓ ہیں!
کمنت کیجے