رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل پر مبنی ذخیرۂ احادیث کے حوالے سے ایک بنیادی سوال مسلسل علمی حلقوں میں زیرِ بحث رہا ہے کہ آیا اس میں وحی کا کوئی پہلو شامل ہے یا نہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ بعض احادیث میں واقعی وحی کا عنصر موجود ہے، تو یہ سوال خودبخود سامنے آتا ہے کہ حدیث کو دین کے مستقل اور قطعی مآخذ سے الگ رکھنے کی علمی اور اصولی بنیاد کیا ہے۔
یہ اشکال اس وقت مزید سنجیدہ ہو جاتا ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ذخیرۂ احادیث ایک تاریخی اسلوب پر اور انسانی روایت کے اصولوں کے مطابق مرتب ہوا ہے۔ اس بنا پر اگر کسی روایت میں وحی پر مبنی کوئی بات محفوظ ہو گئی ہو، تو ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا اسے محض ایک تاریخی دستاویز سمجھا جائے یا دین کا مستقل حصہ۔
ان اضطرابات کو درست طور پر سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم وحی کی حقیقت، منصبِ رسالت، دین کے بنیادی مآخذ اور ذخیرۂ احادیث کی علمی حیثیت کو ایک جامع اور منظم نظر سے پرکھیں۔
یہی جائزہ سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں تک اپنی ہدایت پہنچانے کے لیے وحی کو ذریعہ بنایا۔ یہ وحی کبھی کتابی صورت میں نازل ہوتی، اور کبھی براہِ راست رہنمائی اور اطلاعات کی شکل اختیار کرتی۔ اس لیے وحی کا دائرہ محض کتابی تنزیل تک محدود نہ تھا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری منصبی زندگی میں مختلف مواقع پر ہدایت، رہنمائی اور غیبی اطلاعات کی صورت میں متواتر جاری رہا۔ قرآن مجید نے سورۂ شوریٰ میں اس وحی کے تین بنیادی ذرائع کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
“اور یہ کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے براہِ راست بات کرے، اِلا یہ کہ وحی کرے یا پردے کے پیچھے سے بات کرے یا کوئی فرشتہ بھیجے، تو وہ اُس کے حکم سے جو کچھ چاہے وحی کرے۔” (الشورٰی: 51)
ان مظاہر سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ وحی کسی ایک مخصوص دائرے تک محدود نہ تھی، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ میں مختلف انداز سے جلوہ گر رہی۔ یہ تنوع نہ صرف وحی کے طریقوں کی مختلف جہات کو واضح کرتا ہے بلکہ اس کے مقاصد کے گوناگوں پہلو بھی سامنے لاتا ہے۔ چنانچہ کبھی کتاب پر مبنی وحی کی صورت میں اللہ کا کلام نازل کیا گیا، کبھی شریعت کے احکام قول و عمل کے ذریعے امت تک منتقل کیے گئے، اور کبھی ذاتی رہنمائی، ایمان کی تقویت، دل کی تسلی اور دین کے مفاہیم کی شرح و توضیح کے لیے وحی نازل ہوئی۔
ان مختلف النوع مظاہر کی نوعیت کو مزید واضح کرنے کے لیے ذیل میں چند ایسی نمایاں مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جو قرآن و سنت کے دائمی دائرے سے باہر نازل ہونے والی الہامی رہنمائیوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
ان مثالوں میں سب سے نمایاں تحویلِ قبلہ کا واقعہ ہے۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے، حالانکہ اس عمل کا ابتدائی حکم قرآن میں موجود نہ تھا۔ قرآن نے اس وقت اس کی تصریح کی جب قبلے کا رخ مسجدِ حرام کی طرف پھیرنے کا ارشاد نازل ہوا:
“اب تم اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر دو۔” (البقرہ: 144)
بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کی یہ پہلی ہدایت اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی، جسے آپ نے اپنے قول اور عمل سے امت تک منتقل فرمایا۔ یہ ہدایت اگرچہ قرآن میں درج نہ تھی، لیکن اللہ کی طرف سے وحی کے طور پر نبی تک پہنچی اور عمل کے ذریعے امت میں جاری ہوئی۔
اسی قبیل کی ایک اور مثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی سے متعلق واقعہ ہے۔ جب آپ نے اپنی ایک زوجہ سے ایک راز کی بات کہی، جو بعد میں افشا ہو گئی، تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو اس کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا:
“مجھے اُس رب نے خبر دی ہے جو علیم اور خبیر ہے۔” (التحریم: 3)
یہ واقعہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ وحی کا دائرہ محض دینی احکام تک محدود نہ تھا، بلکہ ذاتی رہنمائی، ایمان کی تقویت، دل کی تسلی اور حالات کی بصیرت تک وسیع تھا۔
جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری منصبی زندگی میں وحی کے مختلف مظاہر کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ وحی کی تمام صورتیں یکساں نوعیت کی نہ تھیں۔ کبھی وحی ذاتی رہنمائی، ایمان کی تقویت، دل کی تسلی اور دینی مفاہیم کی وضاحت کے لیے نازل ہوتی، اور کبھی دین کے ابدی پیغام اور مستقل احکام کی تشکیل کے لیے۔
اسی تنوع کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ دین کا واحد ماخذ روئے زمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس تھی۔ آپ پر نازل ہونے والی وحی میں سے صرف وہی اجزاء دین کا مستقل اور قطعی حصہ بنے جنہیں آپ نے قرآن یا سنت کی حیثیت سے امت کو اپنے الفاظ اور اپنے عمل کے ذریعے منتقل فرمایا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دین میں صرف وہی وحی شامل کی جاتی ہے جو مستقل بالذات ہدایت پر مبنی ہو۔ مستقل بالذات ہدایت سے مراد وہ تعلیمات ہیں جو اپنی اصل میں دین کی بنیاد ہوں، کسی دوسرے حکم کی فرع یا محض کسی استنباط کی محتاج نہ ہوں، بلکہ جو اپنی ذات میں ایک مستقل اور منفرد وجود رکھتی ہوں، اور جن کی مشروعیت براہِ راست شارع کی سند پر قائم ہو۔
یہی بنیادی اصول ہمیں دین کے ابلاغ کے دو پہلوؤں کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے:
پہلا پہلو یہ کہ جس میں بعینہٖ الفاظ کے ساتھ وحی کو محفوظ اور منتقل کرنا ضروری تھا، یعنی قرآن۔ چونکہ قرآن براہِ راست اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور دین کی بنیاد انہی الفاظ پر استوار ہے، اس لیے اس کے ہر ہر لفظ کو اپنی اصل ترتیب، صحت اور نزاہت کے ساتھ امت تک پہنچانا ناگزیر تھا۔ یہ وحی متن اور مفہوم دونوں اعتبار سے قطعی اور غیر متبدل دینی ماخذ ہے۔
دوسرا پہلو یہ کہ قرآن کے عملی احکام کا امتثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر کے ذریعے سنت کی صورت میں ہوا۔ یہ سنت وجوباً امت تک منتقل کی گئی تاکہ دین کا عملی نمونہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔ اس پہلو میں الفاظ کی بعینہٖ نقل مطلوب نہ تھی، بلکہ دین کے احکام اور ان کے عملی طریقوں کی حفاظت مقصود تھی تاکہ دین کے تقاضے اپنی اصل روح اور عمل کے ساتھ ہر زمانے میں محفوظ رہیں۔
ان احکام کی بنیاد مستقل بالذات ہدایات پر تھی یعنی وہ احکام جو اپنی ذات میں شارع کی طرف سے دین کے مستقل اور ابدی تقاضے کے طور پر دیے گئے تھے، اور جن کی مشروعیت کسی سابقہ حکم کی شرح یا اجتہاد پر مبنی نہ تھی۔ مثلاً نماز، زکٰوۃ، روزہ اور حج جیسے احکام بذاتِ خود دین کے عملی مطالبات تھے اور ان کی تعلیم، ابلاغ اور حفاظت بحیثیت دین لازم تھی۔
اس کے برعکس، وہ وحی یا تعلیمات جو کسی مستقل حکم کی تشریح، کسی عرفی مصلحت کی رعایت یا کسی وقتی صورتِ حال کی وضاحت کے لیے نازل ہوئیں، ان کی حیثیت اصل دین کے مستقل اور قطعی اجزاء کی نہ تھی۔ مثلاً:
غزوات کے مواقع پر دشمن کی چالوں سے آگاہ کرنے والی خبریں؛
منافقین کے رازوں کی اطلاع؛
مخصوص مواقع پر وقتی رہنمائیاں؛
ازدیاد ایمان کا باعث بننے والی پیشن گوئیاں۔
یہ سب الہامی نوعیت کی قیمتی رہنمائیاں تھیں، لیکن ان کی حیثیت مستقل دینی احکام کی نہ تھی۔ ان کا اصل مقصد وقتی ضروریات کی تکمیل، دین کی تفہیم و اطلاق کی توضیح، اور پیغمبرانہ حیثیت کا اظہار تھا۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ وحی کی یہ تقسیم نقلِ علم کے ظنی یا قطعی ہونے کی بنیاد پر نہیں کی گئی، بلکہ خود وحی کے مضامین، مقاصد اور پیغمبرانہ منصب میں ان کی نوعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وحی کے اس حصے کو دین کے مستقل مآخذ میں شامل نہیں کیا گیا، کیونکہ ان ہدایات کی نوعیت مستقل اور علیحدہ احکام کی نہیں تھی۔ دین میں قطعی اور ابدی حیثیت انہی تعلیمات کو حاصل ہے جو اپنی ذات میں مستقل ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے دین کا لازمی حصہ بنانے کا فیصلہ فرمایا تھا۔
چونکہ دین کی اصل ہدایت اور اس کی ناگزیر شرح کو قیامت تک پوری قطعیت کے ساتھ محفوظ رکھنا مقصود تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن ہی میں شامل کردیا۔ چنانچہ قرآن کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ جب بھی دینی احکام کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی، قرآن نے خود آگے بڑھ کر اپنی ہدایت کی تفصیل فراہم کر دی۔ یوں دین کی بنیادی تعلیمات اور ان کی مکمل وضاحت اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت محفوظ ہوگئیں۔
نتیجتاً دین کا مستقل دائرہ صرف انہی وحی پر مبنی تعلیمات تک محدود رہا جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیتِ دین امت تک منتقل فرمایا۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے دین کی قطعیت اور حفاظت کو اس طرح مکمل فرمایا کہ اس میں کوئی پہلو تشنہ یا مبہم نہیں رہا۔
البتہ، اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پوری وضاحت سے سامنے آتی ہے کہ وہ الہامی رہنمائیاں جو ذاتی رہنمائی، ایمان کی تقویت، دلوں کی تسلی اور حالات کی بصیرت فراہم کرنے کے لیے نازل ہوئیں، اگرچہ دین کے قطعی مآخذ کا حصہ نہیں بنیں، تاہم امت کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہی رہنمائیوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے قیمتی پہلو محفوظ ہوئے، اور دین کی گہری تفہیم اور عملی حکمت کا ایک بے نظیر ذخیرہ امت کو میسر آیا۔
یہی وہ قیمتی اخبار ہیں جن میں بعض جگہ وحی کا پہلو اس درجہ نمایاں ہے کہ انسانی عقل بلا کسی تردد کے گواہی دیتی ہے کہ یہ محض انسانی فہم یا اجتہادی تفکر کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں، بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی سچائیاں ہیں۔
چونکہ ان اخبار کا تعلق مستقل دینی احکام سے نہیں تھا، اس لیے عقل و دین دونوں کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں دین کے مآخذ میں شامل کرنے کے بجائے سیرتِ نبوی اور تاریخِ امت کے ذخیرے کے طور پر محفوظ کیا جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اور بعد میں یہی ترتیب اختیار کی گئی۔
اس طریقے سے ان قیمتی الہامی خبروں کا تحفظ بھی ہو گیا اور دین کی قطعیت اور دوام بھی محفوظ رہا۔ دین اپنی جگہ مکمل اور محفوظ رہا، اور یہ الہامی ذخیرہ امت کے لیے علم، فہم، بصیرت اور سیرت کا ایک روشن باب بن گیا۔
چنانچہ اس مکمل حقیقت کو استادِ مکرم جاوید احمد غامدی صاحب نے نہایت جامع اور بلیغ انداز میں ان الفاظ میں سمیٹ دیا ہے:
“دین پورا کا پورا صرف قرآن اور سنت میں محصور ہے”۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے:
1. اللہ تعالیٰ نے دین کے مستقل ماخذ کے طور پر جو وحی رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمائی، وہ قرآن مجید ہے، اور سنت اسی قرآن کے احکام کی عملی تعمیل کا نام ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب کے ذریعے امت تک منتقل فرمایا۔
2. ذاتی، وقتی یا توضیحی نوعیت کی جو وحی نازل ہوئی، چونکہ وہ مستقل دینی ہدایت نہ تھی، اس لیے قرآن میں شامل نہیں کی گئی؛ یہ ہدایات تاریخ کے اسلوب میں امت تک منتقل ہوئیں۔
3. دین کی جو شرح و وضاحت اللہ تعالیٰ نے ضروری سمجھی، وہ قرآن ہی میں بیان کر دی گئی، اور جہاں مزید تفصیل درکار تھی، قرآن نے بنفسِ نفیس اپنی ہدایت کو مکمل فرمایا۔
4. قرآن و سنت کے علاوہ جو وحی نازل ہوئی، اگرچہ وہ دین کے مستقل مآخذ میں شامل نہیں، تاہم ان میں بیان کردہ متحقق فیصلوں کی دینی حجیت مسلم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی تشریحات جو معتبر روایات سے ثابت ہیں، قرآن ہی کے لسانی اور عقلی مضمرات کی شرح و توضیح کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، اور اسی اعتبار سے اصل دین ہی کا بیان ہیں۔
5. وحی کی یہ تقسیم نقلِ علم کے ذرائع کے ظنی یا قطعی ہونے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ وحی کی نوعیت، مقصد اور پیغمبرانہ منصب کی رعایت سے کی گئی ہے۔
کمنت کیجے