ڈاکٹر تزر حسین
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب “الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح” میں اس بات پر کئی حوالوں سے گفتگو کی ہے کہ جن لوگوں کو رسولوں کی دعوت پہنچ چکی ہوں یا جن تک دعوت نہ پہنچی ہو (یا جزوی دعوت پہنچی ہو) تو ان میں کونسے لوگوں پر کیسے حجت قائم ہوتی ہے۔ امام صاحب اس پر بھی بات کرتے ہیں کہ اگر حق کی تلاش کے باوجود کوئی شخص حق تک نہ پہنچ سکا تو اسکے بارے ہم کیا رائے قائم کرینگے۔ اس ضمن میں امام صاحب اتمام حجت کے نتیجے میں دنیا اور اخرت دونوں کی عذاب کا ذکر کرتے ہیں۔ امام صاحب کے مطابق اس بحث میں ایک بنیادی اصول ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ نصوص سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب نہیں دیتا جب تک کہ اس کے پاس کوئی رسول نہ بھیج دیا جائے، جو اس پر حجت قائم کر دے۔ وَهُنَا أَصْلٌ لَا بُدَّ مِنْ بَيَانِهِ وَهُوَ أَنَّهُ قَدْ دَلَّتِ النُّصُوصُ عَلَى أَنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ إِلَّا مَنْ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولًا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ. اس اصول کے حق میں وہ قران کی متعدد ایا پیش کرتے ہیں جس میں یہ دو ایات خصوصی حیثیت رکھتی ہیں۔ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا اور رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ.
اس بحث میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ جس تک قرآن کا کچھ حصہ پہنچا ہو اور کچھ نہ پہنچا ہو تو اس پر حجت اسی قدر قائم ہوگی جو اسے پہنچ چکا، اور جو حصہ اس تک نہ پہنچا ہو، اس سے وہ مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اوراگر لوگ کسی ایت کی تفسیر میں اختلاف کریں، تو ضروری ہے کہ اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا جائے۔ اگر لوگ رسول اللہ ﷺ کے ارادے (مدعا) کو سمجھنے میں اجتہاد کریں، تو جو درست رائے پر پہنچے، اسے دوگنا اجر ملے گا، اور جو غلطی کرے، اسے ایک اجر ملے گا۔ امام صاحب اسی اصول کو مسلمانوں تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اسکا اطلاق اہل کتاب پر بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی تنقیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہی بات اہل کتاب کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ پس جس تک کتاب الہی کے تمام نصوص نہ پہنچے ہوں، اس پر حجت صرف اس چیز سے قائم ہوگی جو اس تک پہنچی ہو۔ اور اگر کوئی ان نصوص کے معنی کو نہ سمجھ سکا اور اس کے فہم میں اجتہاد کیا، تو اگر وہ درست بات تک پہنچا، تو اسے دو اجر ملیں گے، اور اگر غلطی کی، تو اسے ایک اجر ملے گا، اور یہ بھی اہم ہے کہ اس کی یہ (اجتہادی) غلطی معاف کر دی جائے گی۔ لیکن جس نے جان بوجھ کر کتاب (الہٰی) کے الفاظ یا معانی میں تحریف کی، اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی سچائی کو جان کر ضد اور ہٹ دھرمی اختیار کی، تو وہ عذاب کا مستحق ہے۔ اسی طرح جو حق کی تلاش اور پیروی میں کوتاہی کرے، اپنی خواہشات کی پیروی میں لگ جائے اور دنیاوی مصروفیات میں مشغول رہے، وہ بھی قابلِ مؤاخذہ ہوگا۔
فَلَا يُمْنَعُ أَنْ يُقَالَ ذَلِكَ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ قَبْلَنَا فَمَنْ لَمْ يَبْلُغْهُ جَمِيعُ نُصُوصِ الْكِتَابِ قَبْلَنَا لَمْ تَقُمْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ إِلَّا بِمَا بَلَغَهُ وَمَا خَفِيَ عَلَيْهِمْ مَعْنَاهُ مِنْهُ فَاجْتَهَدَ فِي مَعْرِفَتِهِ، فَإِنْ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَخَطَأُهُ مَحْطُوطٌ عَنْهُ فَأَمَّا مَنْ تَعَمَّدَ تَحْرِيفَ الْكِتَابِ لَفْظِهِ أَوْ مَعْنَاهُ وَعَرَفَ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ فَعَانَدَهُ فَهَذَا مُسْتَحِقٌّ لِلْعِقَابِ وَكَذَلِكَ مَنْ فَرَّطَ فِي طَلَبِ الْحَقِّ وَاتِّبَاعِهِ مُتَّبِعًا لِهَوَاهُ مُشْتَغِلًا عَنْ ذَلِكَ بِدُنْيَاهُ.
امام صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگوں نے اپنی کتاب کے بعض حصوں میں تحریف کر دی ہو، لیکن ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو اس تحریف سے ناواقف ہوں اور وہ رسول (ﷺ) کی لائی ہوئی ہدایت کی پیروی میں اجتہاد کر رہے ہوں، تو ایسے لوگوں کو وعیدکا مستحق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اہلِ کتاب میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو مسیح (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تمام تعلیمات سے واقف نہ ہوں، بلکہ ان میں سے کچھ باتیں یا ان کے بعض معانی ان سے مخفی رہ گئے ہوں، اگر یہی لوگ ان معاملات میں اجتہاد کریں، تو انہیں ان امور پر سزا نہیں دی جائے گی جو ان تک نہیں پہنچے۔ امام صاحب کے الفاظ یہ ہیں
وَعَلَى هَذَا فَإِذَا كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْكِتَابِ قَدْ حَرَّفُوا بَعْضَ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ آخَرُونَ لَمْ يَعْلَمُوا ذَلِكَ فَهُمْ مُجْتَهِدُونَ فِي اتِّبَاعِ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ لَمْ يَجِبْ أَنْ يُجْعَلَ هَؤُلَاءِ مِنَ الْمُسْتَوْجِبِينَ لِلْوَعِيدِ وَإِذَا جَازَ أَنْ يَكُونَ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ جَمِيعَ مَا جَاءَ بِهِ الْمَسِيحُ بَلْ خَفِيَ عَلَيْهِ بَعْضُ مَا جَاءَ بِهِ أَوْ بَعْضُ مَعَانِيهِ فَاجْتَهَدَ لَمْ يُعَاقَبْ عَلَى مَا لَمْ يَبْلُغْهُ
اسکے بعد امام صاحب ایک بہت اہم سوال اٹھاتے ہیں اور یہ سوال دور جدید میں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شخص کے لیے یہ ممکن ہے کہ حق کی تلاش کے باوجود وہ رسول کی سچائی کو پہچان نہ سکے۔ اور اگر ایسا ممکن ہے تو کیا وہ اخرت (اگے وہ اس ضمن میں دنیا کی عذاب کو بھی شامل کرتے ہیں) میں میں عذاب کا مستحق ہوگا یا نہیں؟ امام صاحب کہتے ہیں کہ اس معاملے پر گفتگو دو پہلوؤں سے کی جا سکتی ہے۔ اسکا پہلا پہلو یہ ہے کہ حق کی مخالفت کرنے والے کی غلطی اور اس کے گمراہ ہونے کو عقلی اور نقلی دلائل سے واضح کیا جائے گا۔ اس پہلو سے اہل قبلہ اور غیر اہل قبلہ کی اقوال کی غلطی معلوم کی جا سکتی ہے، اور ان کے رد کے لیے مختلف اقسام کے دلائل موجود ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم ان کے کفر اور آخرت میں وعید (عذاب) کے مستحق ہونے پر گفتگو کریں۔ لہذا لکھتے ہیں۔
وَقَدْ تَنَازَعَ النَّاسُ هَلْ يُمْكِنُ مَعَ الِاجْتِهَادِ وَاسْتِفْرَاغِ الْوُسْعِ أَنْ لَا يُبَيَّنَ لِلنَّاظِرِ الْمُسْتَدِلِّ صِدْقُ الرَّسُولِ أَمْ لَا. وَإِذَا لَمْ يُبَيَّنْ لَهُ ذَلِكَ هَلْ يَسْتَحِقُّ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ أَمْ لَا؟ . وَتَنَازَعَ بَعْضُ النَّاسِ فِي الْمُقَلِّدِ مِنْهُمْ أَيْضًا وَالْكَلَامُ فِي مَقَامَيْنِ: الْمَقَامُ الْأَوَّلُ: فِي بَيَانِ خَطَأِ الْمُخَالِفِ لِلْحَقِّ وَضَلَالِهِ وَهَذَا مِمَّا يُعْلَمُ بِطُرُقٍ مُتَعَدِّدَةٍ عَقْلِيَّةٍ وَسَمْعِيَّةٍ وَقَدْ يُعْرَفُ الْخَطَأُ فِي أَقْوَالٍ كَثِيرَةٍ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ الْمُخَالِفِينَ لِلْحَقِّ وَغَيْرِ أَهْلِ الْقِبْلَةِ بِأَنْوَاعٍ مُتَعَدِّدَةٍ مِنَ الدَّلَائِلِ. وَالْمَقَامُ الثَّانِي: الْكَلَامُ فِي كُفْرِهِمْ وَاسْتِحْقَاقِهِمُ الْوَعِيدَ فِي الْآخِرَةِ.
اس مسئلے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام صاحب مسلمان علماء کے تین مختلف ارا کو پیش کرتے ہیں۔ امام صاحب ان تین ارا میں سے جس قول کو ترجیح دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ صرف اسی شخص کو عذاب دیا جائے گا جس تک رسالت پہنچ چکی ہو، اور اس کے باوجود اس شخص نے رسولوں کی مخالفت کی، جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اور امام صاحب کی رائے میں یہی اہلِ سلف اور ائمہ کا مسلک ہے۔ اسی رائے کی بنیاد پر امام صاحب لکھتے ہیں کہ اسی بنیاد پر، جب ہم اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ)، خواہ وہ پہلے زمانے کے ہوں یا بعد کے، سے مناظرہ کرتے ہیں، تو کبھی (پہلے پہلو کی بنیاد پر) ہم شرعی اور عقلی تمام دلائل کے ذریعے ان کی حق سے مخالفت، ان کی جہالت اور گمراہی کو ان پر ثابت کرتے ہیں۔ اور کبھی (دوسرے پہلو سے) ہم انکے کفر کو واضح کرتے ہیں، جس کی بنا پر وہ وہ نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں عذاب کے مستحق ٹہرتے ہیں، امام صاحب کے مطابق اس دوسرے پہلو سے جب ہم دنیا اور اخرت میں انکو عذاب کا مستحق ٹہراتے ہیں تو اس حوالے سے ہم اتنی ہی بات کرتے ہیں جتنا کہ اللہ اور رسول نے ہمیں بتائی ہے اوراس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ ہم ایمان اور جنت کی گواہی صرف ان لوگوں کے حق میں دیتے ہیں جو رسولوں کے براہ راست مخاطبین ہیں یعنی جن کے بارے میں رسولوں نے گواہی دی۔ اسی طرح جن لوگوں پر براہ راست رسولوں کے ذریعے اتمام حجت نہیں ہوئی اسکے بارے میں ہم جنت (اور جہنم) کی گواہی نہیں دیتے۔ اس بات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
وَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَنَحْنُ فِيمَا نُنَاظِرُ فِيهِ أَهْلَ الْكِتَابِ: مُتَقَدِّمِيهِمْ وَمُتَأَخِّرِيهِمْ تَارَةً نَتَكَلَّمُ فِي الْمَقَامِ الْأَوَّلِ وَهُوَ بَيَانُ مُخَالَفَتِهِمْ لِلْحَقِّ وَجَهْلِهِمْ وَضَلَالِهِمْ فَهَذَا تَنْبِيهٌ لِجَمِيعِ الْأَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ وَالْعَقْلِيَّةِ وَتَارَةً نُبَيِّنُ كُفْرَهُمُ الَّذِي يَسْتَحِقُّونَ بِهِ الْعَذَابَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَهَذَا أَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَا يُتَكَلَّمُ فِيهِ إِلَّا بِمَا أَخْبَرَتْ بِهِ الرُّسُلُ ; كَمَا أَنَّا أَيْضًا لَا نَشْهَدُ بِالْإِيمَانِ وَالْجَنَّةِ إِلَّا لِمَنْ شَهِدَتْ لَهُ الرُّسُلُ وَمَنْ لَمْ تَقُمْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ فِي الدُّنْيَا بِالرِّسَالَةِ۔
امام صاحب اس نکتے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جو لوگ عیسیٰ وموسیٰ علیہما السلام کے براہ راست مخاطبیین تھے اور ان پر ایمان لائے تو ہم انکے حق میں اطمینان سے ان کے مومن ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ اور جن لوگوں پر ان پیغمبروں نے حجت قائم کی اور وہ ایمان نہ لائے تو وہی عذاب کے مستحق ٹہرتے ہیں جیسا کہ فرعون اور عیسی علیہ السلام کے براہ راست مخالفین۔ اسکے بعد امام صاحب ان لوگوں کی بات کرتے ہیں کہ جو لوگ عیسی علیہ السلام کے براہ راست مخاطبین نہیں ہیں بلکہ بعد کے زمانے کے لوگ ہیں تو امام صاحب کے مطابق ان پر صرف ان باتوں کی بنیاد پر حجت قائم ہوگی جو ان تک پہنچی ہیں، نہ کہ ان باتوں پر جو ان تک نہیں پہنچیں۔ اور یہی لوگ اگر حق کے تلاش کے باوجود تورات کے کی بعض ایات کی تفسیر میں غلط رائے تک پہنچ جائے تو انکو عذاب کا مستحق نہیں ٹہرایا جاسکتا کیونکہ یہ انکی اجتہادی غلطی ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ امتِ محمد ﷺ میں سے کوئی شخص حق کی تلاش میں اجتہاد کرے۔ اس بات کو امام صاحب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
وَأَمَّا مَنْ بَعُدَ عَهْدُهُ بِالْمَسِيحِ وَبَلَغَتْهُ بَعْضُ أَخْبَارِهِ دُونَ بَعْضٍ أَوْ بِمُوسَى وَبَلَغَهُ أَخْبَارُهُ دُونَ بَعْضٍ، فَهَؤُلَاءِ قَامَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ بِمَا بَلَغَهُمْ مِنْ أَخْبَارِهِمْ دُونَ مَا لَمْ يَبْلُغْهُمْ مِنْ أَخْبَارِهِمْ وَإِذَا اخْتَلَفُوا فِي تَأْوِيلِ بَعْضِ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ فَمَنْ قَصَدَ الْحَقَّ وَاجْتَهَدَ فِي طَلَبِهِ لَمْ يَجِبْ أَنْ يُعَذَّبَ وَإِنْ كَانَ مُخْطِئًا لِلْحَقِّ جَاهِلًا بِهِ ضَالًّا عَنْهُ كَالْمُجْتَهِدِ فِي طَلَبِ الْحَقِّ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ.
امام صاحب تاویل کی بنیاد پر غلطی کی اس بات کو صرف ایک اصولی بات تک رہنے نہیں دیتے بلکہ اسکی وضاحت ایک عملی مثال سے کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ حواریوں میں سے بعض، یا اہلِ کتاب میں سے اکثر یا بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مسیح علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے، تو وہ اس معاملے میں غلطی پر تھے۔ تاہم، یہ غلطی ان کے مسیح پر ایمان میں نقص پیدا نہیں کرتی تھی، بشرطیکہ وہ عیسی علیہ السلام کے پیغام پر ایمان رکھتے ہو جو وہ لے کر آئے تھے، اور نہ ہی انکی یہ غلطی انہیں جہنم کا مستحق بناتی ہے۔ امام صاحب کے الفاظ یہ ہیں۔
وَعَلَى هَذَا فَإِذَا قِيلَ: أَنَّ الْحَوَارِيِّينَ أَوْ بَعْضَهُمْ أَوْ كَثِيرًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أَوْ أَكْثَرَهُمْ كَانُوا يَعْتَقِدُونَ أَنَّ الْمَسِيحَ نَفْسَهُ صُلِبَ كَانُوا مُخْطِئِينَ فِي ذَلِكَ وَلَمْ يَكُنْ هَذَا الْخَطَأُ مِمَّا يَقْدَحُ فِي إِيمَانِهِمْ بِالْمَسِيحِ إِذَا آمَنُوا بِمَا جَاءَ بِهِ وَلَا يُوجِبُ لَهُمُ النَّارَ
امام صاحب کے مطابق اسکی وجہ یہ ہے کہ اہلِ کتاب کے پاس موجود اناجیل کے لکھنے والے چونکہ کوئی بھی مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا گواہ نہیں تھا، نہ ہی کوئی حواری اور نہ ہی مسیح کے پیروکاروں میں سے کسی نے مصلوب ہونے کا براہ راست مشاہدہ کیا تھا۔ بلکہ صلیب پر چڑھانے کا مشاہدہ کرنے والے کچھ یہودی تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو معلوم تھا کہ جس شخص کو سولی دی گئی، وہ مسیح نہیں تھا، مگر انہوں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا اور لوگوں میں یہ بات پھیلائی کہ انہوں نے مسیح کو مصلوب کیا۔ یہ رائے معتزلہ، چند علمائے کلام اور ابن حزم سے منقول ہے۔ جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ان لوگوں کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا تھا جنہوں نے مسیح کو مصلوب کیا تھا، اور یہ زیادہ تر اہلِ علم کا قول ہے۔ صلیب کی نوعیت کے بارے اس اختلاف سے امام صاحب کے مطابق اصل مدعا یہ ہے کہ اس معاملے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہیں:
پہلا گروہ وہ عیسائی انتہا پسند ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ حواری جو کچھ بھی کہتے یا روایت کرتے، وہ معصوم عن الخطا تھے، اور وہ نصاریٰ کے علماء کی تمام تفاسیر کو بھی درست سمجھتے ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ جو بھی اس معاملے میں غلطی کرے، وہ قابلِ سزا بلکہ کافر ہے۔ تیسرا گروہ معتدل ہے، جو کہتا ہے کہ یہ لوگ معصوم نہیں تھے، مگر ان پر کوئی گناہ بھی نہیں، کیونکہ وہ حق کی تلاش میں اجتہاد کر رہے تھے اور اپنی استطاعت کے مطابق اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امام صاحب کے مطابق صحیح دلائل بھی اسی مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گمراہ اور انکار کرنے والوں کی مذمت ضرور کرتا ہے، مگر کسی کو عذاب دینے سے پہلے اس پر حجت تمام کی جاتی ہے اور اسے تنبیہ کی جاتی ہے۔ اس تیسرے گروہ کی رائے کی تصویب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
وَالثَّالِثُ: الْوَسَطُ: أَنَّهُمْ لَا يُعْصَمُونَ وَلَا يُؤَثَّمُونَ بَلْ قَدْ يَكُونُونَ مُخْطِئِينَ خَطَأً مَغْفُورًا لَهُمْ إِذَا كَانُوا مُجْتَهِدِينَ فِي مَعْرِفَةِ الْحَقِّ وَاتِّبَاعِهِ بِحَسَبِ وُسْعِهِمْ وَطَاقَتِهِمْ وَعَلَى هَذَا تَدُلُّ الْأَدِلَّةُ الصَّحِيحَةُ وَكُتُبُ اللَّهِ تَدُلُّ عَلَى ذَمِّ الضَّالِّ وَالْجَاحِدِ وَمَقْتِهِ مَعَ أَنَّهُ لَا يُعَاقَبُ إِلَّا بَعْدَ إِنْذَارِهِ.
اسکے بعد امام صاحب اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو رسولوں کی دعوت نہیں پہنچی اور ان پر حجت قائم نہیں ہوئی تو ان لوگوں کے لیےعذاب کا سبب تو پہلے سے موجود تھا، لیکن عذاب کے واقع ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچے۔ اس بات کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
فَدَلَّ ذَلِكَ عَلَى أَنَّ الْمُقْتَضِيَ لِعَذَابِهِمْ قَائِمٌ، وَلَكِنَّ شَرْطَ الْعَذَابِ هُوَ بُلُوغُ الرِّسَالَةِ وَلِهَذَا قَالَ ﴿لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾۔
اخر میں امام صاحب اتمام حجت کے ضمن میں حسن و قبح کے بارے میں مسلمان علماء کے معروف اختلاف کا ذکر کرتے ہیں کہ آیا یہ عقل سے معلوم کیے جا سکتے ہیں یا صرف سمع (وحی) کے ذریعے ہی جانا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ چیزیں عقل سے معلوم ہو سکتی ہیں، تو کیا وہ شخص جو رسول کے آنے سے پہلے ان برے اعمال کو انجام دے، سزا کا مستحق ہو گا؟ اس ضمن میں بھی امام صاحب اس رائے کی تائید کرتے ہیں جس کہ مطابق کہ اگرچہ اعمال پیغمبروں کی رسالت سے پہلے بھی اصولی طور بُرے ہی ہوتے ہیں، لیکن ان لوگوں کو عذاب اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ ان کے پاس کوئی رسول نہ بھیجا جائے، جیسا کہ قرآن اور سنت میں ذکر کیا گیا ہے۔امام صاحب کے مطابق لوگوں کے اعمال تو (رسولوں کے ذریعے اتمام حجت سے پہلے بھی)برے اور ناپسندیدہ ہوتے ہیں اور اللہ ان کو ناپسند کرتا ہے، اور ان اعمال کو کفر اور اللہ کی ناراضی کے طور پر بیان بھی کیا گیا ہے، لیکن ان لوگوں کو عذاب اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ ان کے پاس کوئی رسول نہ بھیجا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے اعمال کے باوجود جب تک اللہ کی طرف سے کوئی حجت نہیں آئی، انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ اس بات کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
قَالَ – تَعَالَى -: ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ﴾ [القصص: ٥٩] وَقَالَ – تَعَالَى -: ﴿وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ [القصص: ٤٧] وَقَالَ – تَعَالَى -: ﴿وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى﴾ [طه: ١٣٤] فَهَذَا يُبَيِّنُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيُعَذِّبَ الْكُفَّارَ حَتَّى يَبْعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا، وَبَيَّنَ أَنَّهُمْ قَبْلَ الرَّسُولِ كَانُوا قَدِ اكْتَسَبُوا الْأَعْمَالَ الَّتِي تُوجِبُ الْمَقْتَ وَالذَّمَّ وَهِيَ سَبَبٌ لِلْعَذَابِ، لَكِنْ شَرْطُ الْعَذَابِ قِيَامُ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ بِالرِّسَالَةِ.
کمنت کیجے