Home » النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اردو کتب مطالعہ کتب

النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کچھ کتابیں ایک خاص کیفیت میں لکھی جاتی ہیں، ان کا اسلوب الگ ہوتا ہے۔ پھر جب موضوع ہو سیرت مقدسہ کا تو پھر اس کیفیت میں رب العزت کی طرف سے کچھ عطاء ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسی کتاب اگر مختصر بھی ہو تو اپنے اندر سمندر لیے ہوتی ہے۔ ”النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ اس میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کیفیات کا یہ تجربہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی کو ہوا، جس کو انہوں نے قلمبند کیا۔اس کتاب کو بہت سے اداروں نے شائع کیا ہے۔ میرے پاس مکتبہ رحمانیہ کا پہلا مجلد ایڈیشن ہے۔ جس کے اوپر قیمت پندرہ روپے لکھی ہوئی ہے۔ سن اشاعت ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر نہیں ملا۔
کتاب کے دیباچے میں مصنف نے وضاحت کی ہے کہ اس کتاب میں سیرت کے واقعات کو تاریخی ترتیب سے بیان کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا بلکہ نتائج پر گفتگو کی گئی ہے۔ میرے خیال سے اگر کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس میں کافی حد تک تاریخی ترتیب نظر آتی ہے۔ بیشک مصنف نے اس کا اتنا لحاظ نہیں رکھا جیسے کہ انہوں نے خود لکھا مگر پھر کتاب کے اکثر حصے میں تاریخی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔ جہاں تک نتائج فکر کی بات ہے تو یہ ہی اس کتاب کا حسن ہیں۔اس دیباچے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ میرے پاس موجود کتاب اس کتاب کی چوتھی بار اشاعت تھی۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کتاب کا آغاز ہی بہت عمدگی سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
‘یوں آنے کو تو سب ہی آئے سب میں آئے سب جگہ آئے (سلام ہو ان پر) کہ بڑی کھٹن گھڑیوں میں آئے لیکن کیا کیجئے ان میں جو بھی آیا جانے کے لیے آیا۔پر ایک اور صرف ایک جو آیا اور آنے ہی کے لیے آیا وہی جو اگنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا، چمکا اور چمکتا ہی چلا جا رہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا ہی چاہیے کہ جنہیں کتاب دی گئی اور جب جو نبوت کے ساتھ کھڑے کیے گئے برگزیدوں کے اس پاک گروہ میں اس کا استحقاق صرف اسی کو ہے اور اس کے سوا کس کو ہو سکتا ہے۔ پچھلوں میں جو اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا، دور والے بھی اس کو ٹھیک اسی طرح پا رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا۔جو آج بھی اسی طرح پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جائے گا جس طرح کل پہچانا گیا تھا۔اسی کے اور صرف اسی کے دن کے لیے رات نہیں، ایک اسی کا چراغ ہے جس کی روشنی بے داغ ہے’
یہ کتاب کا آغاز ہے۔ یہ صرف چند الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ مصنف نے آگے اس بات کی وضاحت کی ہے اور دیگر مذاہب اور ان کی اصل تعلیمات کے مفقود ہونے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ پہلے زرتشت اور گوتم بدھ کا ذکر کیا کہ ان کی حقیقی تعلیمات اور شخصیت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ویدوں کے بارے میں بتایا کہ ان کے حقیقی سرچشمے کا سراغ نہیں ملتا۔ ان تینوں مذاہب کا وجود تو ہے مگر ان کی اصل تعلیمات اور ان کا ماخذ اور ان کی شخصیات کا تعارف دستیاب نہیں۔
اس کے بعد اہل کتاب میں یہود کا ذکر کیا ہے تو ان کے بارہ اسباط میں سے ایک دو نہیں دس کا سراغ نہیں ملتا۔ کوئی ان کو برہمنوں میں تلاش کرتا ہے تو کوئی افغانیوں میں مگر یہ سب اندازے ہیں حتمی طور پر معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جانے والے بارہ قبائل میں سے دس کہاں ہیں اور کون سے ہیں۔ تاریخ یہود کا مطالعہ کیا جائے بخت نصر اور بادشاہ طیطس کے ہاتھوں جو ان کی تباہی ہوئی اس نے ان کے علمی ورثے کو بھی نقصان پہنچایا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بنے ہیکل کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں تک موجودہ تورات کی بات کریں تو اس کے مندرجات ہی اس کی گواہی دینے کے لیے کافی ہیں کہ یہ وہ تورات ہرگز نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ موجودہ تورات میں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات تک کے احوال لکھے ہوئے ہیں۔
جہاں تک بات کی جائے مسیحیت کی تو اس کا حال اور زیادہ پتلا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سیرت چند واقعات سے زیادہ معلوم نہیں۔ ان پر نازل ہوئی انجیل کا کوئی ایک نسخہ بھی موجود نہیں۔ عہدنامہ جدید میں جو انجیل کے نام پر چار کتابیں ہیں ان کی استنادی حیثیت پر بات کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ ان کی حیثیت ہمارے ہاں مروجہ میلاد ناموں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اس کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شخصیت کا تعارف نہیں اور ان کی تعلیمات کو بھی ہم نہیں جان سکتے۔
اس کے بعد مصنف نے بدھ مت ، ہندومت ، عہدنامہ عتیق اور عہد نامہ جدید سے وہ اقتباسات نقل کیے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی بشارت پر واضح اشارہ فراہم کرتے ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ ان بشارات کا مصداق ماسوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کوئی ہستی نہیں ہو سکتی۔
اب ہم اگر مصنف کا ابتدائی اقتباس پڑھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے بہت مدلل اور علمی و تحقیقی پیرائے میں اپنی بات کی وضاحت کی ہے.
مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یتیمی اور ماں کی جلد وفات کو ایک نئے زوایے سے پیش کیا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں
‘پھر دیکھو! جس کا باپ مر جاتا ہے تو جھوٹی قوتوں کے ماننے والے گھبرا گھبرا کر چلاتے ہیں، واویلا مچاتے ہیں کہ اس بچے کو کون پالے گا! بے زوری کو زور کہنے والوں کا زور توڑنے کے لیے خود اس کے ساتھ یہ دکھایا گیا کہ پیدا ہونے کے بعد نہیں بلکہ اس سے پہلے کہ وہ آئے اس میدان میں جہاں جھوٹی قوتوں سے آزادی کا پرچم کھولا جائے گا وہ دھوکے کی اس قوت سے آزاد ہو گیا جس کا نام دنیا نے باپ رکھا ہے۔ ٹھیک جس طرح ظہور سے پہلے اس کی ہستی نے اس آزادی کی شہادت ادا کی، نمود کے ساتھ ہی چند دنوں کے بعد اس غلط بھروسے کا تکیہ بھی اس کے سر کے نیچے سے کھینچ لیا گیا جس کو ہم ماں کہتے ہیں’
مطلب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کے جلد وصال سے خداوند کریم نے آپ کو کس دنیاوی بھروسے پر نہیں چھوڑا۔ یہ خداوند کریم کی خاص عنایت تھی کہ وہ کسی شخص کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان نہیں قائم کرنا چاہتا تھا۔ حضرت عبد المطلب کی وفات کا بھی مصنف نے اس ہی نکتہ نظر سے ذکر کیا۔
جہاں تک جناب ابو طالب کی نگرانی و کفالت کا ذکر ہے تو اس پر مصنف نے کچھ اس طرح کلام کیا ہے۔
‘مدتوں ان کی یعنی ابو طالب کی گزر ان قراریط ہی پر تھی جو بکریوں اور اونٹوں کے چرانے کے صلے میں ان کا یتیم بھتیجہ مکہ والوں سے مزدوری میں پاتا تھا۔ کیسی عجیب بات ہے جو اپنے حقیقی بچوں کی پرورش کا بوجھ بھی اپنے سر پر نہیں اٹھا سکتے اور جعفر، عباس کی یا علی رضی اللہ عنہم کی اس کی گود میں ڈال دیے گئے۔ جن کی گود میں پلنے کے لیے پیدا ہوئے تھے تو پھر یہ کیسا بے بنیاد وہم ہے جس کو خود قدرت کا ہاتھ براہ راست پال رہا تھا اس کی پرورش کی تہمت اس کے سر جوڑی جاتی ہے جس کی، اگر سمجھا جائے تو شاید عمر کا ایک بیشتر حصہ اسی کے بل بوتے پر گزا جو ان کا پروردہ سمجھا جاتا ہے’
ایسے ہی سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی طرف جو پرورش کی نسبت کی جاتی ہے۔ اس پر بھی مصنف کہتے ہیں کہ دراصل سیدہ حلیمہ کی اونٹنی ، آپ کی بکریوں ، سیدہ حلیمہ کے شوہر اور بچوں اور سب قبیلے والوں کو دودھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ملا۔
اس طرح دیکھا جائے تو والدین سے لیکر سیدہ حلیمہ سعدیہ تک کسی نے بھی آپ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف انداز میں ان سب پر احسان و مہربانی کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جس خطے اور جس قوم میں پیدائش ہوئی اس خطے اور قوم کے پاس کوئی بڑی چیز نہیں تھی۔ ان کے پاس کوئی ایسا قابل فخر علمی ورثہ نہیں تھا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متاثر ہو سکتے۔ وہ قوم بھی ایسی تھی جس کے دل پتھروں سے زیادہ سخت اور دماغ میدانوں سے زیادہ چٹیل تھے۔ ان کی صحبت میں رہنے سے سنوار سے زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا تھا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود سے اس خطے اور قوم کو ایک نئی پہچان ملی، ایسا تعارف حاصل ہوا کہ رہتی دنیا تک اس کا کوئی مقابلے کا تصور نہیں کر سکتا۔ پھر اس خطے میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کی شکل میں برپا انقلاب کا ہر کوئی انتہائی واضح مظاہرہ دیکھ سکتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایام طفولیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو معمولات نقل کیے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اکثر وقت مویشیوں کے ساتھ اور صحرا میں گزرتا تھا، جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام مکہ مکرمہ واپس آتے تو اکثر شہر سو چکا ہوتا تھا۔ شہر میں کون آیا کون گیا شاید ہی کبھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس کی خبر ملتی ہو۔
دوسری طرف جہاں آپ شہر کے معاملات سے بالکل دور تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار ایک بڑی تبدیلی لا سکتا تھا یا بڑی تباہی کو روک سکتا تھا وہاں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کردار ادا کرتے نظر بھی آتے ہیں جیسے کہ حجر اسود کی تنصیب کا مسئلہ باقاعدہ فتنے کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اور شہر کا امن خطرے میں تھا لیکن آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کردار کے باعث یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح پر بات کرتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قریش کے جس گھرانے سے تعلق تھا اس کی برابری کا عرب میں کوئی دعویدار نہ تھا۔ یعنی کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نکاح کوئی مسئلہ نہ تھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا گھرانہ اور پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ذاتی کردار اس کا بہترین حوالہ تھا مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب ایک بیوہ تھیں۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آپ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی بابت مصنف لکھتے ہیں
‘غریب حجاز کا سب سے امیر شہر مکہ تھا اور مکہ کے تمام امیروں کے پاس مجموعی طور پر جو کچھ تھا انفرادی طور پر اس قدر دولت کی مالکہ اس شہر کی وہ بزرگ بی بی تھی جن کا اسم گرامی طاہرہ اور خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا تھا گویا اس حساب سے صرف مکہ کی نہیں بلکہ سارے حجاز کی سب سے بڑی دولت مند خاتون آپ تھیں ۔قدرت کی یہ عجیب کار فرمائی تھی کہ چند پیسوں کے لیے جس کو دن دن بھر ببولوں کے کانٹوں اور اذخر کے گھانسوں کی تلاش میں جنگل جنگل پھرنا پڑتا تھا ،اسی کو خدیجہ اور خدیجہ کے پاس جو کچھ تھا سب دلا کر جسے لوگوں نے سب سے نیچا خیال کیا تھا سبھوں سے اونچا کر دیا۔ تاکہ پھر ثابت ہو کہ امیری کے چاہنے والے اور اس کے لیے زمین کے قلابے آسمانوں سے ملانے والے امیر نہیں بنتے بلکہ امیر وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں لوگوں کی امیری بھی ہے اور غریبی بھی ۔جس دعویٰ کو وہ لے کر حرا سے بعد کو آیا دیکھتے جاؤ کہ کن پیکروں میں اس کی دلیلیں کہاں سے کہاں ابل ابل کر جریدہ عالم پر ثبت ہو رہی ہیں’
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی امیر ترین خاتون سے شادی کے بعد بھی اپنی زندگی میں امیرانہ غرور اور ٹھاٹھ باٹھ کو نہیں آنے دیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس زندگی کا مختصر خاکہ جو حدیث میں آیا ہے اس کو مصنف نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے اور اس کا موازنہ مکہ و طائف کے رؤسا سے دیکھ جا سکتا ہے
‘مکہ کے رئیس اپنی کوٹھیوں میں ہیں اور طائف کے امراء پھلوں اور پھولوں سے لدے باغوں اور ان کے بنگلوں میں ہیں۔ لیکن جو سب سے بڑی امارت کا مختار کل اور متصرف مجاز ہے۔ وہ پہاڑوں کے اندھیرے غاروں میں ہے۔ پھر پھر جو سرمایہ اس کو ملا کیا وہ مہاجنی کے بازاروں میں ہے؟ رشتوں کو جوڑا گیا،مہمانوں کو کھلایا گیا، بیکاروں کو کموایا گیا، بار والوں کا بوجھ ہلکا کیا گیا نادانوں کو سکھایا گیا ، بیت کی گھڑیوں میں لٹایا گیا ۔ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کی رپورٹ ہے۔ جس میں ان کی دولت کام آئی ‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلوت پسندی کے اوپر ایک اور جگہ مصنف لکھتے ہیں
‘بی بی کی عصمت کا پتہ بیچارگی میں نہیں چلتا،چارہ ہو اور عصمت ہو، عصمت اسی کا نام ہے،خاک کے فرش کے سوا جس کے پاس کوئی فرش نہیں وہ اگر خاک پر سویا تو کیا خاک سویا۔ جو تخت پر سو سکتا تھا وہ مٹی پر سوی،ا اسی کا سونا ایسا خالص سونا ہے جس میں کھوٹ نہیں ہے۔ اور یہ تو اس امتحان گاہ کی جس میں اب وہ اتارا جاتا ہے پہلی منزل ہے۔ جانچنے والے جانچ لیں، پرکھنے والے پرکھ لیں جس طرح سے جن جن امکانی شکلوں سے چاہیں جو کچھ اس کے اندر ہے اس کو باہر لانے کی کوشش کریں
اپنے معیاروں کو لے آئیں اپنی اپنی کسوٹیوں کو لے کر دوڑو! کسو! کس کر دیکھو! کہ جس کو قدرت کے ہاتھوں نے خالص اور آلائشوں سے قطعاً پاک بالکل صاف پیدا کیا ہے۔ صداقت و راستی، امانت و اخلاص کے سوا اس نے کوئی اور چیز بھی ہے، خوب کف گیریں مار مار کر دیکھو! کیا اس دیگ کا کوئی چاول کچا ہے، روشنی کی جو کرنیں اس کے اندر سے پھوٹ پھوٹ کر دنیا کو جگمگا رہی ہیں گھورو! آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورو! خورد بینوں کو آنکھوں پر چڑھا چڑھا کر گھورو!تاریکی کا اس میں کوئی ریشہ ہے’
اس خلوت نشینی کی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت عطاء ہوتی ہے۔ ابتداء وحی کے عنوان کے تحت مولانا گیلانی لکھتے ہیں
‘حراء کے دامن سے صدق و امانت کا آفتاب چڑھا، چڑھ کر انسانیت کے اس حاسے کے سامنے آ کر ٹھہر گیا جس سے سچ جانا جاتا ہے، ممکن ہے کہ جس طرح لاکھوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو بینائی کی فطری قوت سے محروم ہو، یا شنوائی کا حاسہ اس سے مسلوب ہو، لیکن سب اندھے ہوں، سب بہرے ہوں جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ آدمی ہو اور اس میں سچ اور سچائی کے یافت کا حاسہ نہ ہو۔ یہ ڈاکٹر ہے اور وہ ڈاکٹر نہیں، اسی فیصلہ پر جانیں سپرد کی جاتی ہیں۔ آنکھوں میں نشتر چبھوائے جاتے ہیں۔
اس ٹرین کو سب ہنکاتے ہیں جو بیابانوں میں چلتی ہے۔ چڑھائیوں پر چڑھتی ہے۔ ذخار اور خونی دریاؤں کے پلوں سے گزرتی ہے۔ فیصلہ کی وہی قوت جو ڈرائیور کو غیر ڈرائیور سے ،شوفر کو غیر شوفر سے جدا کر کے ہم میں یہ اطمینان پیدا کرتی ہے کہ اپنا سب کچھ سونپ کر ہم اپنے کو،اپنے بال بچوں کو اپنے مال و اسباب کو ریل کے ڈبوں میں ڈال دیتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ سے اگر جدا کرنے کا حاسہ ہم میں نہ ہوتا تو ڈاکٹر اور ڈرائیور کیا زندگی کے کسی شعبے کی گاڑی ایک سیکنڈ کے لیے بھی چل سکتی ہے؟
اور یہی وجہ ہے کہ سلبی یا ایجابی کون سی شکل باقی رہی جس معیار پر سچائی کی یہ لاہوتی حقیقت نہ پرکھی گئی زر لے کر دوڑے، زمین لے کر دوڑے، زن لے کر دوڑے الغرض جو کچھ سونچا جا سکتا ہے ہر ایک سے رگڑ رگڑ کر گھس گھس کر انہوں نے جانچا۔ لیکن صدق و امانت کے احساس کی وہی گرفت جو دعویٰ سے پہلے ان کے دلوں پر مسلط تھی۔ کسی تدبیر سے ڈھیلی نہیں پڑی تھی اس میں کیا ہے اس کے اندر کیا ہے مال ہے جاہ ہے یا کچھ اور ہے ہر سوال کی سلائیاں، لمبی لمبی سلائیاں ڈال ڈال کر ہر ایک نے دیکھا، بار بار دیکھا لیکن سچ کے سوا اس میں کچھ نہیں ہے۔ اخلاص کے سوا اس میں کچھ نہیں ہے۔ ہر آزمائش ہر جانچ کا آخری نتیجہ یہی برامد ہوا جانچ کی یہ ایجابی شکلیں تھیں اس راہ سے انہیں کچھ نہیں ملا۔
اب وہ منفی و سلبی تدبیروں کے متعلق باہم ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے۔ دارالندوہ کی مجلسی سرگرمیاں جتنی اس وقت تیز ہوئیں اس کی تاریخ میں ایسی گرم بازاری اسے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی’
اس پورے اقتباس میں مولانا گیلانی نے ابتداء وحی سے لیکر بعد میں کفار کے انکار اور ان کی ہٹ دھرمی اور پھر مختلف حیلے بہانوں سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے مقصد سے دور کرنے کے لیے جو کوششیں کیں، آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مال و دولت کی پیشکش کی گئی۔۔عرب کی کسی بھی حسین عورت سے نکاح کی پیشکش کی گئی۔ لیکن آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے والے کام کو چھوڑنے کی ان کی ہر پیشکش ٹھکرا دی۔ قریش کے بڑے دارالندوہ میں جمع ہو کر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو روکنے کی تدبیر کرنے لگے مگر ان کی ہر تدبیر اور ہر کوشش ناکام ہو گئی۔ انہوں نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والوں پر مظالم ڈھائے ان مظالم پر آگے مولانا نے گفتگو کی ہے۔ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے والدین پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کا ذکر ہے۔ جس میں سیدنا یاسر رضی اللہ عنہ اور سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا شہید ہو گئے مسلمانوں کا ایک گروہ حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ کفار نے وہاں تک بھی پیچھا کیا اور شاہ حبشہ تک اپنے نمائندے بھیج کر ان کو واپس لانے کی کوشش کی مگر نجاشی کے دربار میں سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی تقریر جس میں چند الفاظ میں انہوں نے پورے نقشے کو واضح کر دیا۔ مجھے سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی یہ تقریر بہت پسند ہے۔ مصنف نے بھی اس کو نقل کیا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہاجرین حبشہ کو پناہ ملی پر بھی بات کی ہے۔
شعب ابی طالب میں محصوری ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ اس کو بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں
‘وہی فطرت رحمیہ و رؤفہ ، جو انسان تو انسان کسی جانور کے دکھ کو بھی دیکھ کر تڑپ جاتی تھی۔ اس کے لیے آزمائش کی کیسی کڑی گھڑی تھی ننھے بچے ان کی ماؤں کی چھاتی میں دودھ نہیں ہے۔آٹھ آٹھ دس دن سے ان کے منہ میں کوئی کھیل بھی نہیں پہنچی ہے۔ کیا سخت وقت ہے کہ پیشاب سے شرابور خشک چمڑے کو دھو کر بھون بھون کر ان کو کھانا پڑا، جن کے دانت نے شاید سوکھا گوشت بھی نہیں چبایا تھا،جو پتے شاید بکریاں بھی شوق سے نہ کھاتیں، ان پر ہفتوں بسر کرنا پڑا۔مصیبت کی ان چیخوں تکلیف کی ان پکاروں میں ان حساس فطرت طیبہ کے لیے کیسی عظیم بے چینی تھی اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، جس کے دل میں درد ہو اور جو درد والوں کے لیے اپنے اندر کوئی ٹیس رکھتے ہوں’
شعب ابی طالب کی سختیوں کے حوالے سے مولانا گیلانی کا یہ کلام فکر انگیز ہے۔ مولانا نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ شعب ابی طالب کے مصائب کا صلہ رب العزت نے معراج کی صورت میں دیا۔
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جناب ابو طالب کی وفات کے بارے میں لکھا کہ ان دو مضبوط بشری سہاروں نے اپنا کام کر دیا مگر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان باقی تھا۔ ان دونوں کا چھوڑ کر جانا دراصل امتحان کی مکمل کامیابی میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ کسی بشری سہارے کا نہ ہونے کے لیے ضروری تھا۔ بچپن سے دنیاوی سہاروں کی مدد سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دور رکھا گیا کیونکہ ماسوائے اللہ کی آپ پر کسی کا احسان نہ ہو۔
طائف کے واقعے پر مصنف نے قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے اور اس مشکل ترین لمحے کو ظلم کا نکتہ اختتام قرار دیا ہے۔مولانا گیلانی کہتے ہیں کہ طائف میں وہ پیش آیا جو کبھی نہیں پیش آیا۔ اس پر مزید بات کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں
‘اگر یہ ہو رہا تھا اور دن کی روشنی میں ہو رہا تھا تب کیوں نہ سمجھا گیا کہ جس قدرت کے ہر منفی قانون کی انتہا مثبت پر ہوتی ہے۔ جس کے ہر عمل کی تان رد عمل پر ٹوٹتی ہے۔ عمل در عمل کی گتھیوں میں گتھی ہوئی اس دنیا میں جب یہ واقعہ یوں ہو رہا تھا۔ تو بلا شبہ صفا کے دامن سے جس انکار کی ابتدا ہوئی تھی طائف کی اس گھاٹی نے اس کی انتہا ہو گئی۔
جو رد کیا گیا ہے قبول کیا جائے گا، جو ہنکایا گیا ہے بلایا جائے گا ،جو گرایا گیا ہے اٹھایا جائے گا، عقل کا مقتضی تھا کہ ایسا ہوتا اور شاید کہ ایسا ہی ہوا.’
اپنے اس ہی نکتہ کی مزید وضاحت مصنف کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں
‘منفی قانون ختم ہو چکا تھا، طائف کی گھاٹیوں میں ختم ہو چکا تھا اور قطعاً ختم ہو چکا تھا کہ اس کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو چکا۔اندر باہر آگیا اور پوری طاقت سے آیا ہر شکل میں آیا ہر صورت میں آیا
دے کر بھی دیکھا گیا اور پورے طور پر دیکھا گیا
لے کر بھی جانچا گیا اور جی بھر کے جانچا گیا
سال دو سال نہیں ایک جگ ایک قرن سے زیادہ موقع دیا گیا ،تاکہ ٹھونکنے والے ٹھونک لیں، بجانے والے بجا لیں، کسنے والے کس لیں، تانے والے تالیں، آزمائش کی کون سی بھٹی تھی جس میں قدرت کے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا یہ زر خالص نہیں ڈالا گیا۔ حرارت کا کون سا درجہ ہے جو اس کی غیر معمولی لاہوتی حقیقت کو نہیں پہنچایا گیا۔ جو کچھ کر سکتے تھے سب کر لیا گیا ، اس کے آگے کیا کچھ اور بھی سونچا جا سکتا ہے؟ جنہیں تمہیں مکی زندگی کے ان سالوں میں مسلسل تابڑ توڑ فہم صدق و دیانت کے اس بے نظیر سرچشمے کے ساتھ ہوتے نہیں دیکھا تھا شہادتیں تام ہو گئیں، گواہیاں پوری ہو چکیں، تجربات مکمل طور پر مہیا ہو چکے، مشاہدات اکٹھے ہو چکے، الغرض عام امکان میں جو کچھ ہو سکتا تھا سب ہو گیا منفی قوانین اپنے سارے حقوق لے کر اپنے حدود کے آخری بالکل آخری نقطہ پر پہنچ کر ختم ہو چکے تھے’
ان اقتباسات سے مولانا گیلانی کا نتیجہ زیادہ واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے کہ طائف کی یہ مصیبت دراصل انتہا تھی۔ اس کے بعد ظلم کی یہ داستان ختم ہونے والی تھی۔ اہل مکہ کو بھی جو موقع دیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا تھا۔ طائف کے بعد کے واقعات میں ہمیں بیعتِ عقبہ نظر آتی ہے۔ ہجرت کے لیے ایک اور شہر کا رب کریم انتخاب کرتا ہے۔ اہل مکہ جس احسان خداوندی کی قدر نہ کرسکے اب وہ ان سے جدا ہو کر ایک دوسرے شہر میں جا رہا تھا۔ ساتھ ہی اہل مکہ کے مدبرین اور زیرک و بینا لوگ جنہوں نے ایمان قبول کر لیا تھا بھی مکہ کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ یعنی مکہ بہترین لوگوں کے سرمائے سے محروم ہو رہا تھا۔ اس سب کی انتہا طائف کا واقعہ بنا۔مولانا گیلانی نے طائف سے واپسی پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملک الجبال یعنی پہاڑوں کے فرشتے سے جو بات ہوئی مصنف نے اس کو بھی بہت زبردست انداز میں پیش کیا ہے۔جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کے بعد واپسی پر جنوں کی بیعت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی سیرت مقدسہ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس پر مصنف نے کچھ یوں لکھا ہے۔
‘نخلہ کے جنوں کا واقعہ اگر بیچارے محدثین ہم تک نہ پہنچاتے ان کے خوف سے نہ پہنچاتے جن میں جنوں ہی کا ایک جنی انکار کا جنون پیدا کرتا ہے (ابلیس ) تو خیال کر سکتے ہو ملاء اعلی سے ملاء ادنی پر آ کر ہم غیبی وجود کے طبقہ سے یکایک چھلانگ مار کر شہادت اور عالم محسوس میں کس طرح چلے آتے۔ واقعہ نہ بھی ہوتا تو عقل کا اقتضا تھا کہ اس کو ہونا چاہیے تھا۔ ارتقا کی کڑیوں میں اگر کوئی کڑی نہیں بھی ملتی ہے تو ایمان لایا جاتا ہے کہ وہ ہوگی۔ بےجان مان لیا جاتا ہے کہ وہ تھی اور ضرور تھی پھر اگر ہم نے ان کو جان کر مانا اور قرآن کی قطعی روشنی، حدیث کی صحیح رہنمائی میں مانا تو دیوانوں کو اکسا کر ابلہوں کا گروہ ہم پر کیوں ہنساتا ہے’
بیعت عقبہ میں اہل مدینہ کے جلد از جلد اسلام قبول کرنے کی طرف بھی مصنف نے توجہ دلائی ہے اور اس دعوت کے نتیجے کا اہل مکہ کو کی جانے والی دعوت کے ساتھ ذکر کیا کہ اہل مکہ کو دس سال جس بات کی دعوت دی گئی مگر ان میں سے چند ایمان لائے جبکہ دوسری طرف اہل مدینہ دس منٹوں میں ہی ایمان کی دولت سے مالامال ہو گئے۔حالانکہ اہل مدینہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا جانتے بھی نہیں تھے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن سے لیکر جوانی تک کے اہل مکہ شاہد تھے۔ وہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی ہلکی سی بھی کردار کی کمزوری کا خود انکار کرتے تھے۔
اس کے بعد ہجرت کا موقع آیا تو دارالندوہ میں پھر کفار سر جوڑ کر بیٹھ گئے وہ ناکام ہوئے۔ مصنف ایک نکتہ اُٹھاتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ تین سال پہلے یہی کفار تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے گھر والوں کو شعب ابی طالب میں محصور کرکے تکالیف پہنچائیں مگر اب ان کے سورما جو تلواریں لیکر کھڑے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت سے روکنے پر قادر نہ ہو سکے۔
بیعت عقبہ اور ہجرت کے ان دونوں واقعات کو مصنف نے اپنے اس نکتے سے جوڑا ہے جو انہوں نے طائف کے ضمن میں اُٹھایا ہے کہ اب منفی قوانین اپنی انتہا پر پہنچنے کے بعد ان کے ردعمل کے طور پر مثبت قوانین کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اہل مکہ اور ان کے حلیفوں کی مہلت ختم ہو گئی تھی۔ اب ان کا زوال شروع ہو گیا تھا۔
ہجرت کو بیان کرتے ہوئے اس کے واقعات کو مصنف نے بہت خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ جب ہجرت کی ابتداء ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ چھوڑ کر جا رہے تھے تو مکہ کی وادی میں موجود وہاں کے پہاڑوں اور کعبہ کے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں
‘حراء کی جمادی چٹانیں چلا رہی ہیں، ثور کا پہاڑ بھی یہی پکار رہا ہے۔ آخر وہی مسعود ہوا جو محروم تھا۔ حرا میں نہیں جہاں رہ چکے تھے بلکہ نئے غار ثور کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ اور کیا صرف یہی سنا گیا کیا اسی کے ساتھ یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ اسی غار کے دہانے پر جس میں ملائکہ کا مسجود تھا،قدرت کا مقصود تھا، ہرے بھرے درختوں کی ڈالیاں سربسجود ہیں۔ اس نے نباتاتی وجود کے بعد حیوانی قوتوں کو ،دوندوں کی شکل میں بھی پرندوں کی شکل میں بھی محو نیاز و مصروف کار پایا گیا۔ جلیل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم زید بن ارقم، مغیرہ بن شعبہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہم سب ہی اس کے راوی ہیں ‘
غار ثور میں مکڑیوں کے جالا بنانے پر لکھتے ہیں
‘اسی غار میں سلیمان علیہ السلام کی چونٹیوں کی طرح غریب مکڑیوں نے سلیمان علیہ السلام کے محبوب خلو محمدیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ کے لیے وہ گھر پیش کیا جو تمام گھروں میں سب سے زیادہ کمزور تھا ،لیکن آج دنیا کا یہی ‘اوہن البیوت’ پھسپھسا گھر خدا جانے کتنے سنگین قلعوں کی بنیاد قرار پایا۔ اس کے بعد اس گھر کے بعد دہلی میں آگرہ میں در و دانیال میں جنوب میں شمال میں یہ جو لال اور پیلے سفید و زرد قلعے بنے اور انشاءاللہ بنتے چلے جائیں گے ان تمام قلعوں میں سب سے پہلا قلعہ کیا کمزور مکڑیوں کا یہی کمزور جالا نہ تھا، کون کہہ سکتا ہے کہ آج اگر یہ نہ ہوتا تو اس کے بعد جو کچھ ہوا ہو سکتا تھا ،چھوٹے کو بڑا بنانے والا ،بڑوں کو چھوٹا بنانے والا ہمیشہ یہی کرتا رہے گا’
کبوتروں کے واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے
‘جن حماموں (کبوتروں) کی حمایت دنیا کی اسلامی طاقتوں کا آج متفقہ فیصلہ ہے۔ حرم کعبہ کے یہ کبوتر اسی جوڑے کی نسل سے نہیں ہیں جس نے ان طاقتوں کے پیدا کرنے والوں کی کبھی حمایت کی تھی۔ جو جانتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں پھر میں ان سے کیا پوچھوں جو نہیں جانتے۔ سچ یہ ہے کہ جو سب کے لیے تھا ،عالمین کی اس رحمت کے لیے اگر سب ہو رہے ہے’
اس ہی غار میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے رب نے بشارت دی کہ وہ ان کے ساتھ ہے تو اس کو یوں بیان کیا ہے
‘ان اللہ معنا ‘ جب اول نے ثانی سے کہا ،اس ثانی سے کہا جو زندگی میں اس کا ہر بات میں ثانی تھا اور مرنے کے بعد بھی ثانی ہے تو کیا یہ واقعہ نہ تھا صرف طفل تسلی تھی حالانکہ جس نے کہا نہ وہ طفل تھا جس کو کہا گیا وہ بھی طفل نہ تھا’
واقعات ہجرت کو جس خوبصورتی سے مصنف نے بیان کیا اس کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مصنف کے انداز بیان سے ایک لطف آتا ہے۔ اس کے بعد ہجرت ہی کے موقع پر سیدنا سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ والے واقعے کو بھی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سراقہ رضی اللہ عنہ کو جب کسری کے کنگن پہنائے گئے اس منظر کو بھی بیان کیا ہے۔ مکی دور کا اختتام طائف کے واقعے والے اپنے نتیجہ کو پھر سے بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اب مکہ جو پہلے آگے تھا پیچھے ہوگیا، مدینہ جو پیچھے تھا آگے ہو گیا۔مدینہ ایمان سے بھر گیا جبکہ مکہ والے ابھی تک بڑائی کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے۔
مدینہ منورہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر اہل مدینہ کے بے مثال استقبال کو مصنف نے طائف کا ردعمل قرار دیا ہے۔ یہ ان مشکلات کا حاصل تھا جو مکہ کی وادی میں ، طائف میں اور غار ثور میں پیش آئیں۔ ان کو الگ واقعہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کے آثار مکہ میں پیدا ہو چکے تھے مگر ان کا ظہور مدینہ میں ہو رہا تھا۔
مدینہ منورہ میں تحویل قبلہ کا اہم واقعہ پیش آیا۔ جب مدینہ میں مسجد کی بنا ڈالی گئی تو قبلہ کعبہ کی بجائے ہیکل سلیمانی کو بنایا گیا۔ حالانکہ کعبہ عرب میں اسلام سے پہلے بھی مقدس سمجھا جاتا تھا اسلام نے اس کو حقیقی تقدس اور احترام دیا لیکن قبلہ ہیکل سلیمانی کی طرف رکھ کر عربوں کے اندر سے وطنیت کے بت کو پاش پاش کر دیا گیا۔ جب سترہ ماہ تک یہ بت مکمل طور پر منہدم ہو گیا اور عرب اور غیر عرب کا فرق باقی نہ رہا تو تحویل قبلہ کا حکم آ گیا۔
اس طرح مدینہ منورہ میں مواخات کے واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ اس واقعے سے قومیت اور نسل پرستی کے بت کو ختم کر دیا گیا۔ یہ قومیت اور نسل پرستی کے بت کتنے خطرناک ہیں اس کی مثال خود مصنف نے دی ہے کہ آج بھی کئی نسل پرست اپنے قبرستان میں دوسری قوم کے لوگوں کو دفن نہیں ہونے دیتے۔
تحویل قبلہ اور مواخات کے ان واقعات کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ پتھروں سے بنے بتوں سے تو نجات مل گئی تھی۔ ان دونوں واقعات سے ذہنی اور نفسیات میں پلنے والے بت بھی پاش پاش ہو گئے۔ اب خدا اور مخلوق خدا میں مضبوط ربط قائم ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ یوں انسان نے اپنے معبود حقیقی کو پا لیا۔
غزوہ بدر کے بارے میں مصنف نے لکھا کہ یہاں بھی جو بڑائی کی نخوت میں گرفتار تھا وہ چھوٹے سمجھے جانے والے قتل ہوئے۔ ان کے ستر سردار مارے گئے اور ان کا غرور خاک میں مل گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں شہداء اور مقتولین کی تعداد پر بھی مصنف نے کلام کیا اور بتایا ہے کہ اس کی کل تعداد بہت زیادہ بھی ہو تو اٹھارہ سو بنتی ہے۔ جس میں بنو قریظہ کے عہد شکن بھی شامل ہیں۔ بئیر معونہ کے معصوم معلمین بھی شامل ہیں جن کو دھوکے سے نجد والوں نے شہید کیا۔ رجیع کے شہداء بھی اس میں شامل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات اور ان میں طرفین کے جانی نقصان کے اوپر مصنف نے کافی عمدہ معلومات فراہم کی ہیں جن کو سیرت کی دیگر کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
یہودیوں میں سے کعب بن اشرف اور رافع بن حقیق کے قتل کے بارے میں لکھا کہ ان دو آدمیوں کے خون کی بدولت ہزاروں یہودیوں کی ضمانت ملی کیونکہ جو ان کی ریشہ دوانیاں تھیں تو ان سب کو سزا ملنی تھی مگر ان کے دو سرغنوں کے خون کے بدولت باقیوں کو کچھ نہ کہا گیا
اسلام چونکہ ساری دنیا کے لیے آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عالمین کے لیے آئے تو عرب کے جس خطے میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام مبعوث ہوئے تو خطے کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مذاہب کے معاملے میں ایک منفرد علاقہ تھا۔ جس میں اس وقت دنیا کے تمام مذاہب کے اثرات موجود تھے۔ بت پرستی کی شکل میں ہندو مذہب مکہ میں موجود تھا۔ مدینہ میں یہودیت اور بعد میں نصرانیت سے بھی معاملات پیش آئے۔ مدینہ کے اردگرد مجوسی ایران کے بھی اثرات تھے جبکہ صائبوں کا فرقہ بھی موجود تھا۔ صائبوں کے بارے میں مصنف نے لکھا کہ اس کا تعلق بودھ مذہب کے سادھوؤں سا تھا۔مصنف لکھتے ہیں
‘کوہستان کی اس چھوٹی سی بستی میں یہودیت، عیسائیت، ہندویت یا دثنیت مجوسیت اور اگر چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ بودھیت اپنے تمام مفاسد کے ساتھ موجود تھے۔ جن کے دھونے اور جن سے پاک کرنے کے لیے وہ اٹھایا گیا تھا۔پس اس نے ان سب کو دھویا، ان سب کو پاک کیا ،صاف کیا ۔جس میں جو کمی تھی سب کو پورا کیا اور قیامت تک کے لیے پورا کیا’
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے سرزمین عرب کے اس خطے کا جو انتخاب کیا گیا۔ اس کو جاننے کے لیے مصنف کا یہ نکتہ بہت زبردست اور قابلِ توجہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی عالمگیریت کو بہت عمدگی سے یہاں مصنف نے نمایاں کیا ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد نکاحوں کے بارے میں بھی مصنف نے واضح کیا ہے کہ یہ تعلیم اور حکمت کے مقصد کے تحت ہوئے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے کمسنی کے نکاح کو مصنف نے قبول کیا ہے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ مردوں میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شکل میں ایک نمونہ موجود تھا جو کمسنی سے لیکر اس کے شعور کی پختگی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں تربیت حاصل کرتے رہے۔ ایسا نمونہ اگر عورتوں کے لئے نہ ہوتا تو ظلم ہوتا ، اس کے لیے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شکل میں خواتین کے لیے ایک نمونہ پیش کیا گیا جو کمسنی سے لیکر شعور کی پختگی تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفیق سفر رہیں جن کی تربیت پر کوئی غیر نبوی اثر نہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعوت و تبلیغ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صورت میں انسانیت کو عظیم ترین افراد فراہم کیے۔ اس جماعت صحابہ کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ
‘گیلی جھیل کے چند ماہی گیر یا مگدھ دیش کے گداگر بھکشو نہیں بلکہ ہزارہا انسان ایسے انسان جن پر اس عہد کی ساری بڑائیاں ختم ہوتی تھیں۔ ان میں بادشاہ بھی تھے اور دنیا کے سب سے بڑے بادشاہ، ان میں کمانڈر بھی تھے اور دنیا کے سب سے بڑے کمانڈر، ان میں دماغ والے بھی تھے سب سے زیادہ بیدار دماغ والے، ان میں دل والے بھی تھے سب سے زیادہ روشن دل والے۔ الغرض انسانیت کی جتنی اونچی سے اونچی منزلیں سوچی جا سکتی ہیں تجربہ کاروں کی یہ جماعت ان کی آخری بلندیوں پر ساری دنیا کے آگے مضبوطی کے ساتھ قدم جما کر اس کا ثبوت پیش کر رہی تھی کہ اس وقت دنیا میں ان سے اونچا کوئی نہیں ہے کہیں نہیں ہے’
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیار کردہ جماعت صحابہ پر بہترین کلام ہے۔
آخری عنوان ختم نبوت کے نام سے ہے۔ اس میں مصنف نے اپنی گفتگو کو اس ہی انداز میں اور اس ہی نکتہ کے گرد بیان کیا ہے جس سے کتاب کا آغاز کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں
‘بالفرض اگر یہ اعلان (ختم نبوت) نہ بھی ہوتا جب بھی آخر دنیا کیا کرتی! آنے والے تو ہمیشہ اس وقت آتے ہیں، ان میں آتے ہیں ، جب جانے والا جا ہی چکے۔ لیکن ایسا آنے والا جو اس شان کے ساتھ آیا کہ بجائے جانے کے وہ آگے ہی بڑھتا رہا بڑھ رہا ہے۔ گنجائش ہی کیا کہ اس کی جگہ دوسرا آئے
جس طرح وہ بھیجا گیا جن صفات و کمالات کے ساتھ بھیجا گیا، اسی شان اسی آن کے ساتھ چمکتے ہوئے آفتاب اور دمکتے ہوئے سورج کی مانند ہم میں وہ اس طرح موجود ہے ہر جگہ موجود ہے ہر خطہ میں موجود ہے اس کا وجود مغرب میں بھی اسی طرح نمایاں ہے جس طرح مشرق میں وہ آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ شاہوں کے تصور اور غریب کے کلبہائے ویجور دونوں کو روشنی بانٹ رہا ہے اور یکسانی کے ساتھ بانٹ رہا ہے۔ وہ سب کے لیے برابر ہے سب کے لیے یکساں ہے۔
اس کی ضرورت جتنی چھٹی صدی کے پاشندوں کو تھی اتنی ہی ضرورت اس وقت تک باقی ہے۔ پھر جب تک پیاس ہے پانی چھلکے گا۔ جب تک بھوک ہے روٹی معدوم نہ ہوگی۔ آخر اس وقت کیا تھا جو اب نہیں، یہ سچ ہے کہ دنیا اپنے خالق سے ٹوٹ کر اس زمانے میں مخلوقات کے اندر غرق تھی لیکن کیا آدم کی اولاد تباہی کے گرداب سے نجات پا چکی؟
بلاشبہ جنہیں اس کی برکت میسر آئی ہے ان میں اکثروں کا ان کا جو مرتد یا منافق نہیں ہیں ان کا بیڑہ خطرہ سے انشاءاللہ نکل چکا لیکن کون کہتا ہے کہ سب کا نکل چکا’
اس بات کو مزید چند سطور بعد واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
‘پہلوں کی عقل کو سورج کی شعاؤں ، آگ کے شعلوں نے خیرہ کیا تھا تو کیا پچھلوں کے سینوں میں برق کی قوتوں ،اسٹیم کی طاقتوں ، پیٹرول کی توانائیوں نے چکا چوند نہیں لگائی ہے۔ بزرگوں کے کارناموں سورماؤں کی اولعزمیوں نے اگر پہلوں کو ان بزرگوں کی پتھر کی کھودی ہوئی مورتیوں کے اگے جھکایا تھا تو پچھلوں کے لیڈروں، زعیموں، قائدوں کے کاموں نے ان کے اسٹیچو اور فوٹو کے ساتھ اس کی ساری قومی عزت و فلاح کو وابستہ نہیں کیا ہے۔’
اس بڑھتی ہوئی مادہ پرستی جو کہ بت پرستی ہی کی ایک شکل ہے۔ جس نے انسانوں کی اجتماعی اخلاقیات اور نفسیات کو متاثر کیا ہے پر مزید بات کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے
‘پرانے بھی تنہا خدا کے نام پر بپھر جاتے تھے۔نئوں کے سامنے جا کر آج کا خدا تنہا کیا بلکہ ان کے معبودوں کے ساتھ ملا کر بھی نام لو پھر دیکھو ان کی پریشانی کی کھال کس طرح سکڑتی ہے۔ اور منہ سے کتنے لے کف اڑ اڑ کر بیچارے نام لینے والوں کے چہرے پر پڑتے ہیں۔ تحریروں میں، تقریروں میں، گفتگوؤں میں، تذکروں میں کیا نیؤں میں یہ گروہ اپنے معبودوں کے نام لیے بغیر گزر سکتا ہے برق کا،بھاپ کا سیاروں کا، ریل کا، طیاروں کا، فیکٹریوں کا، ملوں کا ، بینکوں کا سرمایوں کا، ان کی مختلف شکلوں مثلاً انشورنس ، ریسوں اور خدا جانے کن کن خداؤں کا نام آج دلچسپی کے ساتھ ذوق و شوق کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ مشکل ہے کہ خالق کے پوجنے والوں نے اتنے ذوق و شوق کے ساتھ اللہ کا ذکر بھی کیا ہو’
جدید مادہ پرستی کے بعد موجودہ انسان کی اخلاقی پستی کے اوپر بات کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ پہلے زمانے کے نافرمانوں کو بندر بنایا گیا مگر دور جدید کا انسان آج بندروں کی اولاد ہونے پر کتابیں لکھ رہا ہے۔ وہ انسان جس نے اپنے لیے خدا کی مخلوق کی بجائے بندر کی اولاد ہونے کو پسند کیا کی ذہنی پسماندگی پہلے دور کے جہلا سے کسی صورت بھی کم نہیں ہے۔ جدید دور کا انسان بھی اس ہی جہل میں مبتلاء ہے جس میں عرب کے جہلاء گر چکے تھے۔ اس صورتحال کا نقشہ مصنف نے یوں کھینچا ہے
‘عرب کے جہل نے کیا پیدا کیا تھا جو آج کے علم سے نہیں پیدا ہو رہا۔جاہل شراب پیتے تھے، مردار کھاتے تھے ، زنا کرتے تھے ، سود خور تھے ، جواری تھے، ایک کا خون دوسرا پیتا تھا ، املاق و افلاس کے اندیشہ سے لڑکوں کو لڑکیوں کو درگور میں زندہ دفن کر دیتے تھے ،لیکن یہ قصہ کن کا سنایا جا رہا ہے ، کیا عرب کے جاہلوں کا یا یورپ کے عالموں کا ،وہاں کیا دکھاتے ہو جسے ہم یہاں ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں، عرب سے باہر ایران میں ایک طرف مزدک زر، زمین، زن کو سب چھین کر سب کو دے رہا تھا، دوسری طرف مانی اور اس کے شاگرد ہاتھوں میں استرے لیے پھرتے تھے کہ جس راہ سے یہ برائیاں آئی ہیں انہی کا قلع قمع کر دیا جائے ۔وہ انسانوں کو انسانوں میں آنے سے روکتے تھے یہی ان کا فلسفہ تھا ،لیکن یہ تو ایران میں ہو رہا تھا ، آج یورپ کے قصے میں پھر وہی مزدک زندہ ہو کر بالشویک کے نام سے کیا وہی سب کچھ نہیں کر رہا جو اس نے کیا تھا۔ دوسری طرف برتھ کنٹرول کے نام سے اسی طرح انسانوں کو انسانوں کی سوسائٹی میں شریک ہونے سے روکا نہیں جا رہا ہے۔
ایک راستوں کو ڈھاٹا اور دوسرا بند کرتا ہے، اس کے سوا اور کیا فرق ہے؟
جاہلیت جدیدہ کی مولانا گیلانی کی یہ تصویر کشی مغربیت کے اوپر ایک زبردست نقد تو ہے ساتھ ہی یہ اس بات کا اعلان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت جیسے جاہلیت قدیمہ کے انسان کو تھی ایسی ہی ضرورت جاہلیت جدیدہ کے انسان کو بھی ہے۔ بلکہ جاہلیت جدیدہ کا معاملہ تو اور زیادہ سنگین ہے کیونکہ یہاں پر اس کے متاثرین ہی اس وقت مسند اقتدار پر بیٹھے ہوئے ہیں اور تہذیب یافتہ کہلانے کے حقدار بھی وہی ہیں اور کسی کو جاہل گنوار کہنے کا اختیار بھی ان کے پاس ہیں۔ جاہلیت قدیمہ میں لوگ تو کھلم کھلا بت پرستی کرتے تھے مگر جاہلیت جدیدہ کے متاثرین میں ایسے بھی ہیں جو مواحد بھی کہلاتے ہیں مگر مادہ پرستی میں مبتلا ہیں۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کی یہ کتاب مختصر ہے مگر اس کا ایک ایک فقرہ انسان کو روکتا اور جھنجوڑتا ہے۔ بالخصوص جو مکی عہد کا ذکر ہے اس میں زیادہ لطف آتا ہے۔ مجھے اس کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے شدید مشکل پیش آئی کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مصنف کی کون سی بات کو جانے دوں۔ پھر مصنف کے اقتباسات نقل کرنے ضروری تھے کیونکہ جو گہرائی اور گیرائی ان میں پائی جاتی تھی میں ان کو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اب بھی کتاب کے کئی فقرے جو اپنے اندر سمندر سموئے ہوئے ہیں میں نے نقل نہیں کیے۔ کتاب پر گفتگو کا اختتام بھی مصنف کے اقتباس سے کروں گا جس کا ربط و تسلسل کتاب کے ابتدائی اقتباس سے ہے۔
‘جب تک جانے کے لیے آنے والے آتے رہے، اشخاص چنے جاتے تھے۔ لیکن جب وہ آیا جو آنے ہی کے لیے آیا تو اس کے طفیل میں اس کے ساتھ شخص نہیں بلکہ امت ہی چنی گئی۔ پہلے شخص مبعوث ہوتے تھے اب ایک امت ہی مبعوث ہے۔ یہی اس امت کا اصل منصب اور فرض حقیقی ہے۔جب تک وہ اس منصب پر قائم رہیں گے انسانوں کی نگرانی کریں گے اس وقت تک انکے رسول بھی اس امت کے نگراں رہیں گے لیکن جب تم اپنے منصب سے ہٹے،اگر رسول کی نگرانی کو نہیں محسوس کرتے ہو تو کیا یہی وعدہ نہیں تھا’

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں