Home » شیخ حسن سپائیکر کی متکلمین کے منہج کے خلاف دلیل پر تبصرہ “زید انسان ہے” کا تجزیہ
شخصیات وافکار کلام

شیخ حسن سپائیکر کی متکلمین کے منہج کے خلاف دلیل پر تبصرہ “زید انسان ہے” کا تجزیہ

شیخ حسن سپائیکر صاحب متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ کانٹ کے اس شبہے کا جواب نہیں دے پاتے کہ جو حقائق کلیات کی صورت ذہن پر نقش ہوتے ہیں وہ کہاں ثابت و پائے جاتے ہیں، ان کے خیال میں اس کا جواب اکبری روایت نے فراہم کیا ہے۔ جزیات سے متعلق کلیات کے خارجی عالم (چاہے اسے پلاٹونک فارمز کہا جائے یا اعیان ثابتہ) کے نظرئیے کے لئے فراہم کردہ ان کی اہم ترین دلیل (جو پہلے بیان ہوئی) کا حاصل یہ ہے کہ “زید انسان ہے” میں زید بطور انسان کی جزئی تب مفہوم ہوسکتی ہے جب پہلے انسان کی کلی مفہوم ہو جس کا مطلب یہ ہوا کہ کلی جزئی سے ماقبل ہے، اور چونکہ یہ کلی حسی مشاہدے میں نہیں آتی، لہذا ماننا ہوگا کہ ان مشاھدات سے متعلق کلیات کا الگ سے ایک عالم ثابت ہے، بصورت دیگر جزئی تجرباتی قضایا کی حتمی وجودی توجیہہ نہ ہوسکے گی اور یہی کانٹین فکر کا مسئلہ ہے جس کا حل ان کے بقول صرف اکبری روایت فراہم کرتی ہے۔ سپائیکر صاحب کی دلیل کے متعدد پہلو ہیں، یہاں سردست ایک مگر اہم ترین کو لیتے ہیں۔
ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ (و بعض معتزلہ) کا کہنا ہے کہ کلی کا کوئی وجود نہیں، نہ ذہنی (mental) اور اور نہ خارجی (extramental)، خارج میں صرف جزیات کا وجود ہے۔ کلیات سے متعلق سب الفاظ ایسے نام ہیں جو خارج میں موجود جزیات کی یکساں مگر الگ (similar         but         distinct) صفات پر بولے جانے کی بنا پر صدق کے حامل ہیں۔ خود اس مقدمے میں کئی پہلو ہیں، ہم یہاں صرف جملہ “زید انسان ہے” کی جہت سے اسے کھولتے ہیں۔ “زید انسان ہے” ایک نامکمل جملہ ہے جس کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ زید سے متعلق کوئی اضافی علم نہیں دیتا اس لئے کہ کسی شے کو “زید” کہنا اور “انسان” کہنا ایک ہی بات ہے۔ آئیے اس جملے کی تشکیل و ترکیب کو کھولتے ہیں۔
میں ایک شے کو دیکھتا ہوں جس میں A، B، C سے لے کر 100 تک متعدد صفات پائی جاتی ہیں۔ فرض کریں کہ میری کسی غرض (intention) کے لیے ان صفات میں سے E، A اور K اہم تھیں، تو میں A، E، K کے مجموعے کو “زید” کا نام دے دیتا ہوں، یوں مجھے ایک جملہ حاصل ہوا:
زید = A, E , K کا مجموعہ
پھر میں نے ایک اور شے کو دیکھا جس میں بھی A، E، K صفات موجود تھیں۔ میں نے اسے “راشد” کا نام دیا، لیکن میں جانتا ہوں کہ “راشد” میں پائی جانے والی A، E، K صفات زید کی A، E، K سے عددی اعتبار سے الگ (numerically        distinct) ہیں اگرچہ دونوں یکساں (similar) ہوں، یعنی        they are        similar        but        not          identical (یہاں تجزیاتی آسانی کی خاطر میں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ یہ صفات یکساں ہیں)۔ چنانچہ کسی ابہام سے بچنے کے لیے میں ان جملوں کو یوں کہتا ہوں:
زید = A1, E1 , K1 کا مجموعہ
راشد = A2, E2 , K2 کا مجموعہ
اس کے بعد میں نے ایک اور شے کو دیکھا جس میں “زید” اور “راشد” کی بعض صفات تو تھیں، مگر ان سے کچھ مختلف صفات بھی تھیں (اور کسی وجہ سے وہ مختلف صفات اہم تھیں کہ انہیں اگنور نہ کیا جائے)۔ چنانچہ میں نے اسے مثلاً “بندر1” کا نام دے دیا، جس کا مطلب ہے F، A اور M کا مجموعہ۔ تو اب میرے پاس یہ جملہ بن گیا:
بندر 1 = A3, F1 , M1 کا مجموعہ
یوں میرے پاس تین بیانات آگئے:
زید = A1, E1 , K1 ہے
راشد = A2, E2 , K2 ہے
بندر 1 = A3, F1 , M1 ہے
اب فرض کریں کہ کسی غرض کے لیے میں ایسا کچھ کہنا چاہتا ہوں جو صرف “زید” اور “راشد” پر تو صادق آتا ہو مگر “بندر1” پر نہیں۔ اس مقصد کے لیے میں اب A، E، K کے مجموعے کو “انسان” کا نام دے دیتا ہوں (ان کے ساتھ لگے 1، 2 اب میرے مقصود نہیں)۔ اس سے مجھے ایک جملہ ملتا ہے:
زید اور عمر، جو انسان ہیں، … (مثلا انہیں ایسا اور ویسا کرنا ہے وغیرہ)
چونکہ زید و راشد کے بارے میں یہ بات کرتے ہوئے بار بار “زید اور راشد” کہنا غیر ضروری اور تھکا دینے والا عمل ہے، تو میں صرف یوں کہہ دیتا ہوں:
انسان … (…)
اس طرح ایک عام لفظ (common         noun) “انسان” سامنے آیا۔ آئیے اب یہ جملہ پڑھتے ہیں:
“زید انسان ہے”
تو یہ جملہ درحقیقت نامکمل یا غیرمعلوماتی (uninformative) ہے اس لئے کہ “انسان” محض A + E + K کے مجموعے کا ایک اور نام ہے جسے پہلے قدم پر “زید” کہا گیا تھا۔ لہٰذا لسانیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو “زید انسان ہے” ایک نامکمل و غیر معلوماتی جملہ ہے۔ مکمل اور باخبر جملہ یہ ہے:
“زید صفات A1، E1، K1 ہے”
چنانچہ”زید انسان ہے” دراصل کوئی تصدیقی جملہ نہیں بلکہ تصوری یا تعریفی جملہ ہے۔ اس جملے میں “انسان” کو “زید” کی ایسی خبر یا محمول (predicate) کہنا درست نہیں جو “زید” سے متعلق ہماری معلومات میں کوئی اضافہ کرتا ہو۔ یہ ہے اس جملے کا درست تجزیہ جسے سپائیکر صاحب وجود ذہنی و کلیات کے خارجی وجود کی دلیل بناتے ہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ زید اور راشد کو انسان کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ “انسانیت” نامی ماہیت یا کلی خارج میں کہیں الگ سے متحقق ہے جو A, E, K کے مجموعے سے عبارت ہے اور زید و راشد اس ماہیت میں شرکت کی بنا پر انسان کہلاتے ہیں اور A1، E1، K1 اور A2، E2، K2 اس کلی ماہیت کے افراد ہیں نیز زید اور راشد میں چند اضافی قیود کے ساتھ “اس کلی ماہیت” کا ظہور ہوگیا ہے۔ “زید انسان ہے” کا مطلب صرف یہ ہے کہ زید میں A, E, K وہ صفات پائی جاتی ہیں جن کا نام (عددی امتیاز ہونے کے باوجود ایک خاص مقصد کی خاطر) “میں نے انسان رکھا”۔ “انسان” نام راشد پر اس لئے صادق ہے کیونکہ اس میں بھی A, E, K صفات ہیں (جو اگرچہ زید کی صفات جیسی ہیں لیکن بعینہ وہ نہیں بلکہ اس کی صفات سے الگ ہیں)۔ یوں لفظ “انسان” اگرچہ زید و راشد دونوں پر صادق ہے، لیکن یہ صدق اس بات کو لازم نہیں کہ یہ دونوں میں پائی جانے والی خارج یا ذہن میں متحقق کسی “مشترک حقیقت” کی وجہ سے ہے بلکہ اس کے صدق کا مطلب یہ ہے یہ لفظ خارج میں موجود دو الگ مگر یکساں صفات کی حامل اشیا پر پورا اترتا یا ان پر وضعی طور پر دال ہے۔ چنانچہ دو اشیا خود اپنی ذات کی بنا پر (by        way         of         themselves) ایک دوسرے جیسی ہوتی ہیں نہ کہ خود سے باہر (outside        themselves) موجود کسی “کلی ماہیت یا وجود” میں شرکت کی بنا پر۔ پس “زید انسان ہے” جملے کا صدق حس سے ماوراء کسی خارجی عالم پر نہ منحصر ہے اور نہ اس کا تقاضا کرتا ہے۔ متکلمین اسے یوں کہتے ہیں کہ لفظ انسان “اشتراک معنوی” نہیں “اشتراک لفظی” ہے، یعنی لفظ انسان کا خارج میں نہ مدلول یا مصداق (referent) ایک ہے اور نہ ہی اس مدلول سے متعلق ذہن میں مفہوم ہونے والا معنی ایک ہے، صرف لفظ ایک ہے۔ اگر یہ تقریر سمجھ آجائے تو کانٹین فکر کی پیدا کردہ بعض غلط فہمیاں بھی حل ہوجاتی ہیں کیونکہ اس کی فکر بھی “وجود ذہنی” کے نظرئیے پر استوار ہے۔
خلاصہ یہ کہ حسن سپائیکر صاحب “زید انسان ہے” سے جس چیز (یعنی انسان نامی کلی کے خارجی وجود) کی توجیہہ کو بنیاد بنا کر متکلمین پر اعتراض کرتے ہیں، متکلمین اس پر یہ کہیں گے کہ پہلے اس چیز کے ثبوت کی کوئی مناسب دلیل لائیں جس کی توجیہہ کے لئے آپ پلاٹونک فارمز و اعیان ثابتہ کو ضروری کہتے ہیں، باقی بات اس کے بعد ہوگی۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں