Home » کانٹ کے خلاف شیخ حسن سپائیکر کے مقدمے کا خلاصہ
شخصیات وافکار فلسفہ

کانٹ کے خلاف شیخ حسن سپائیکر کے مقدمے کا خلاصہ

ہم عصر مفکرین میں جن حضرات نے کانٹین فکر پر نقد کا کام کیا ان میں شیخ حسن سپائیکر کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ آپ ایک صوفی سلسلے سے متعلق شخصیت ہیں۔ کانٹ پر آپ کا مفصل نقد ان کتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
Things        as        They        Are: The        Metaphysical         Foundations        of         Objective        Truth
اور
The        Metacritique        of        Kant         and         the        Possibility        of        Metaphysics
حسن سپائیکر صاحب کا مقدمہ یہ ہے کہ تجربیت پسندی (empiricism) کے برخلاف کانٹین فکر اس بات کو پہچاننے میں درست ہے کہ کلیات (universals) و مقولات (categories) خارج میں بطور ایسے جزیات (particulars) وجود نہیں رکھتے جنہیں حسی تجربے سے اخذ کیا جاسکے۔ مثلاً زید، راشد و صہیب سب انسان ہیں لیکن ان میں “انسانیت” (human-ness) نامی جو کلی مشترک ہے وہ ان سے الگ خارج میں قابل مشاہدہ طور پر موجود نہیں، یعنی ہم “زید میں انسان” و “راشد میں انسان” کو تو دیکھتے ہیں لیکن “انسان” نامی چیز کا مشاہدہ نہیں کرتے بلکہ یہ “انسان” نامی کلی مفہوم (universal         meaning) ایک ذہنی تجرید (abstraction) ہے۔ اس بنیادی بات سے متاثر ہوکے کانٹ نے درست طور پر یہ سمجھا کہ ذہن میں جو بھی تصورات (concepts) و قضایا (judgements) جنم لیتے ہیں ان کے پس پشت کچھ مثالی صورتیں (forms) کارفرما ہیں جنہیں وہ فارمز آف انٹیوشن (forms        of         intuition) اور فارمز آف تھاٹ (forms          of         thought) کہتا ہے نیز جن کے لاگو کرنے سے خارجی دنیا سے ہمارا تعلق استوار ہوتا ہے۔ تاہم کانٹ کی غلطی یہ تھی کہ اس نے از خود ان مقولات کو غیر حقیقی و نرا خیال فرض کرلیا اور اس لئے وہ فنامینا (thing         as          it         appears) اور نامینا (thing         in itself) کو الگ کرکے ان میں تعلق استوار کرنے میں ناکام رہا اور نتیجتاً اس کی فکر کی وجہ سے حسی تجربات سے حاصل ہونے والے علمی قضایا کی معروضی سچائی کی بنیاد بھی ختم ہوگئی۔
حسن سپائیکر صاحب کے خیال میں اس مسئلے کا حل شیخ ابن عربی کی اکبری روایت نے “اعیان ثابتہ” کے نظرئیے میں فراہم کیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ خارج میں موجود جزیات سے متعلق کلیات اور انسانی ذہن میں موجود کلیات کا ماخذ پلاٹونک فارمز اور ابو ھاشم کے نظریہ حال پر استوار شدہ وہ اعیان ثابتہ (fixed        entities) ہیں جو ذات باری کی فعلی صفات (active         potentials) کے سامنے انفعالی صفات (passive         potentials) کے طور پر ازل سے ثابت ہیں۔ اسلامی روایت میں متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ، علامہ ابن سینا اور اکبری روایت کے تین گروہوں کے مابین اس مسئلے پر اختلاف رہا ہے کہ کیا جزیات سے علی الرغم کلیات کا کوئی وجود متحقق ہے یا نہیں، اگر ہے تو “ذہن میں موجود” ان کلی تصورات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ ذھن سے ماوراء (extra         mentally) کسی الگ عالم میں ثابت ہیں یا صرف جزیات کے تحت ثابت ہیں؟ ارسطو و علامہ ابن سینا کی رائے کے قائلین کا ماننا تھا کہ یہ کلیات خارج میں جزیات کے تحت بطور ان کے ایک جزو ثابت ہیں جبکہ ذہن میں ان سے الگ مجرد وجود ذہنی کے طور پر، وہ اس “ذہنی وجود” (        mental         existence) کو بھی وجود قرار دیتے ہیں۔ تاہم ابوھاشم اور افلاطون کے نظریات کے حامیین کے مطابق یہ کلیات جزیات سے الگ “نفس الامر” (objective          reality) میں ثابت ہیں۔ اکبری روایت کے مطابق وہ نفس الامر “اعیان ثابتہ” ہیں۔ حسن سپائیکر صاحب کا ماننا ہے کہ اکبری روایت کے اس حل کو قبول کئے بغیر انسانی علمی قضایا کی کوئی معروضی بنیاد فراہم کرنا ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ متعدد متقدمین و متاخرین اشاعرہ (جیسےکہ امام اشعری و علامہ آمدی) اور ماتریدیہ (مثلا صدر الشریعۃ) کلیات کے خارجی وجود نیز وجود ذہنی کے نظرئیے کے قائل نہیں۔ جن حضرات کے نزدیک کلیات خارج و ذھن میں بطور وجود متحقق ہیں ان کے نزدیک کلیات “اشتراک معنوی” (       univocal         meaning          or         real         semantic commonality) ہیں، جو ان کے وجود خارجی و ذھنی کا انکار کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ “اشتراک لفظی” (verbal        homonyms         or        equivocal) ہیں۔
کلیات کے خارجی وجود کے لزوم کو ثابت کرنے کے لئے شیخ سپائیکر صاحب وہ دلائل پیش کرتے ہیں جو اس بحث میں مسلم مفکرین کے مابین بحث میں بیان ہوچکے ہیں۔ ان کی اہم ترین دلیل کا حاصل یہ ہے کہ جملہ “زید انسان ہے” میں انسان خبر (predicate) ہے جو زید کے بارے میں دی جارہی ہے، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ “انسان” کا مفہوم زید کی حقیقت سے معلوم ہوا بلکہ زید کا انسان ہونا تب مفہوم ہوسکتا ہے جب پہلے انسان کا معنی متحقق و معلوم ہو۔ یہاں زید انسانیت کی کلی کی جزئی ہے اور جزئی تب متحقق ہوتی ہے جب پہلے کلی مفہوم ہو۔ پس جملہ “زید انسان ہے” کا صدق (truth) زید کی جزئی پر مبنی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح استخراجی دلائل کی فارمز بھی خارجی مشاہدے میں نہیں آتیں اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا صدق انفرادی قضایا کی صحت پر مبنی ہے۔ اسی طرح انسانی علم کی بنیاد سمجھے جانے والے فرسٹ پرنسپلز یا اولیات عقلیہ کو بھی حس سے ماخوذ نہیں کہا جاسکتا اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان سب قضایا کی معروضی بنیاد کا اثبات کیا جائے تاکہ ان قضایا کی وجودیاتی یا آنٹالوجیکل بنیاد فراہم ہوسکے۔ کانٹ جزیات سے متعلق کلی قضایا کی توجیہہ کے حل کے لئے کلیات بطور “نرے وجود ذہنی” کے نظرئیے کی جانب راغب ہوا، تاہم حسن سپائیکر صاحب کے نزدیک یہ مسئلے کا ایک ناکافی و نامکمل حل ہے جس کی تکمیل کے لئے اکبری روایت کے فراہم کردہ حل کی جانب رجوع لازم ہے جس نے ہم آہنگی کے ساتھ خارجی و ذھنی وجود کی نفس الامر میں بنیاد فراہم کرتے ہوئے علمی قضایا کی وہ معروضی بنیاد فراہم کی جو یہ بتاتی ہے کہ “چیزیں جیسی کے وہ ہیں” (         things        the way         they         are) اصلاً کہاں ہیں۔ ایسی بنیاد کو مانے بغیر کانٹ “کلیات بطور وجود ذھنی” کے نام پر علمی قضایا کی جو توجیہہ پیش کرتا ہے اس کے داخلی تضادات کو رفع کرنا ممکن نہیں۔ حسن سپائیکر صاحب کے مطابق اکبری روایت کے پیش کردہ ان اعیان ثابتہ کی تحقیق کا حتمی ذریعہ “کشف” ہے (یہ اس henelogical        experience کی صورت ہے جس کی وہ اپنی کتاب میں حقیقت کے ادراک کا ذریعہ ہونے کی بات کرتے ہیں)۔
حسن سپائیکر صاحب نے اپنی کتاب میں مابعد امام رازی متاخرین علماء کے مابین ہونے والی اس بحث کو شرح و بسط کے ساتھ پھیلا کر دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کانٹین فکر جس مسئلے یا شبہے کا شکار ہے اس کا حل اکبری روایت میں پہلے سے موجود ہے۔ ساتھ ہی وہ اس حل کی معقولیت دکھانے کے لئے ان اشعری و ماتریدی مفکرین، جو وجود ذھنی کے قائل نہیں، کی آراء پر نقد کرتے ہیں۔
ایک بات واضح ہے کہ حسن سپائیکر صاحب جس حل کی بات کررہے ہیں وہ اسی کے لئے قابل توجہ ہوسکتا ہے جو کلیات کے وجود ذہنی کو ضروری قرار دیتا ہو۔ کسی فرصت میں ان کے اس دعوے پر ان شاء اللہ تبصرہ کیا جائے گا کہ کانٹین فکر کا تسلی بخش جواب صرف اکبری روایت ہی سے دیا جاسکتا ہے اور اسی سے انسانی علم کی معروضی بنیادیں فراہم ہوسکتی ہیں۔ تاہم ان کی کتاب اس حوالے سے لائق توجہ ہے کہ آپ نے اسلامی فلسفے و کلام کی روایت میں “نفس الامر” سے متعلق ہونے والی بحثوں کو مغربی فلسفے کے مباحث کے ساتھ جس طرح جوڑ کر دکھایا ہے، یہ کاوش از خود اہمیت کی حامل ہے اور بالخصوص نظری تصوف کے مباحث کا ذوق رکھنے والے احباب کے لئے ان کی درج بالا پہلی کتاب اہمیت کی حامل ہے۔
سپائیکر صاحب کے منہج سے اتفاق و اختلاف ایک طرف، ان کی کتب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کانٹین علمیات ہماری علمی روایت کی بحثوں میں کہاں فٹ ہوتی ہے نیز یہ کہ اسلامی روایت میں اس سے آگے کی بحثیں ہوئی ہیں۔ کانٹ کلیات بطور “وجود ذھنی” کے اس کم از کم تصور سے بحث کرتا ہے جو اس کے مطابق تجربی قضایا کی توجیہہ کے لئے شرط ہیں۔ لیکن وہ اس سوال کو چھوڑ دیتا ہے کہ کلیات اگر صرف وجود ذھنی ہیں تو اسکی فکر سے نکلنے والی اس سوفسطائیت کا کیا حل ہے کہ تجرباتی قضایا کسی حقیقت سے متعلق نہیں۔ کانٹ اس سوفسطائیت کو قبول اور سیلیبریٹ کرتے ہوئے اسے “کاپرنیکن انقلاب” قرار دیتا ہے، جبکہ کانٹ سے متاثر مذہبی کانٹینز کے خیال میں یہ سوفسطائیت ضرورت وحی کی ایک بنیاد فراہم کرتی ہے!

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں