مسلم دنیا میں سرسید اور اتاترک تجدد کے بڑے نمائندوں میں سے ہیں۔ سرسید کے ہاں جدید تعلیم اور نیا علم، مسلم معاشرے میں تبدیلی اور مذہبی تجدد کے بنیادی ذرائع تھے، جبکہ اتاترک کے ہاں یہ حیثیت طاقت کو حاصل تھی۔ دوسرے لفظوں میں سرسید کی جدید تعلیم اور نئے علوم سے برصغیر کے مسلمانوں میں سماجی تبدیلی اور نئی سیاسی طاقت پیدا ہوئی جبکہ ترکی میں نئی سیاسی طاقت نے ایک طرح سے نئی تعلیم اور علوم پیدا کیے۔ سرسید اور اتاترک، دونوں کا ”قومی“ کام بڑی جنگوں کے بعد سامنے آیا۔ سنہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اس میں شکست کا نتیجہ سرسید کی تعلیمی اور علمی تحریک کی صورت میں سامنے آیا، جبکہ اتاترک کی زیر قیادت یونانیوں اور ان کے اتحادی پشتیبانوں کے خلاف جنگ میں فتح کے بعد ترکی میں تجدد اور اسلام دشمن تعلیم اور علوم کو فروغ حاصل ہوا۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ مسلمانوں کو ہونے والی شکست اور فتح کا نتیجہ ایک ہی رہا کہ اسلامی تہذیب کے بنیادی تصور یعنی اسلام کی قطع و برید کا آغاز ہوا اور اس میں وقت کے ساتھ تیزی آتی چلی گئی۔
اپنے کام کے نتائج میں مماثلت کے باوجود، سرسید اور اتاترک خاص تاریخی حالات میں ایک دوسرے کا معکوس ہیں۔ ان کا یہ فرق بہت بڑی معنویت رکھتا ہے جسے تاریخ نے بھی بالکل واضح کر دیا ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ سرسید کی بناکردہ تہذیب کو پونے دو صدیاں ہونے کو آئی ہیں اور اس کی ابھی تک کوئی ایک اینٹ بھی نہیں اکھاڑی جا سکی، جبکہ اتا ترک کا ورثہ پون صدی ہی میں بہت حد تک لپیٹا جا چکا، اور ان کا لایا ہوا Jacobin laicite ، جو فرانس میں ظاہر ہونے والا متشدد سیکولرزم تھا، اپنے بنیادی اجزا کے ساتھ باقی نہ رہ سکا۔ برصغیر میں مسلم طاقت کی تمام جدید تشکیلات سرسید کی تحریک کے زیر اثر سامنے آئیں، اور ترکی میں جدید تعلیم اور علوم کی نئی تشکیلات اتاترک کی بنا کردہ سیاسی طاقت کے زیر اثر واقع ہوئیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاشروں میں علم کی اساس پر آنے والی تبدیلی کہیں زیادہ گہری، پائیدار اور دیرپا ہوتی ہے بہ نسبت ان تبدیلیوں کے جو جبر کے ذرائع سے بروئے کار لائی جائیں۔
اس سے ایک اور بات بھی بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ علوم اور سیاسی طاقت میں نسبتیں بہت گہری ہیں، لیکن ان کی نوعیت ہمارے ہاں شروع ہی سے سخت نزاعی اور مناقشانہ رہی ہے، اور ترکی میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ دونوں جگہوں پر جدید تبدیلیوں کا منبع اور محرک اپنی اصل میں استعماری مغرب تھا، اور طریقۂ کار اور علمی منہج، مغرب کی ریس رہی ہے اور اب تک ہے۔ اس سے یہ امر بھی بالکل مبرہن ہو جاتا ہے کہ گزشتہ تین سو سال میں جدید دنیا اور مغرب کو دیکھنے کا کوئی معمولی سا علمی تناظر بھی مسلمانوں کے ہاں پیدا نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید عہد کے پیدا کردہ تہذیبی مسائل پر امت مسلمہ کے پاس کہنے کو ابھی تک کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنی بنیادی اقدار کو نعرہ بنا کر دہرائے چلے جانے سے اقدار ہی غیر اہم ہو جاتی ہیں کوئی علم پیدا نہیں ہوتا۔ مذہبی اقدار اگر کردار اور علم پیدا کرتی رہیں تو ہی وہ زمانے سے متعلق رہ پاتی ہیں۔ کردار معاشرے اور سیاست میں اقدار کی گواہی سامنے لاتا ہے جبکہ علم شعور کو اقدار پر مرتکز رکھتا ہے۔ مسلم معاشروں میں یہ دونوں وسائط اب ناپید ہیں۔ امت مسلمہ میں ہر کہیں فرمانروائی میں اہل اقتدار کی اور علوم میں اہل علم کی کرپشن ایک دوسرے سے مسابقتی دوڑ میں ہے، اور پاتال ابھی نہیں آیا۔
کمنت کیجے