ابو منصور احمد
ڈیکارٹ کو عموماً فلسفہ جدید کے بانی کی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیکارٹ نے اپنے زمانے میں ارسطو تک مروج فلسفہ “جو کلیسائی علم الکلام کا مرکب تھا جس کی حیثیت عقائد یا مذہبی تصورات کی توضیح و تشریح تک محدود ہوکر رہ گئی تھی” کی اصل حیثیت یعنی آزاد سوچ و فکر کی وہ روح جو افلاطون اور ارسطو کے فلسفوں میں پائی جاتی تھی کو دوبارہ بحال کیا۔
ڈی کارٹ نے اپنی زندگی کے کئی سال اس جستجو میں گزارے کہ فلسفہ کو بھی ریاضی کی طرح حتمی اور ناقابل انکار بنیاد فراہم کی جائے۔ ریاضی کے نتائج یقینی ہوتے ہیں اور ہر قسم کی تنقید اور شک و شبہ سے بالاتر ہوتے ہیں۔ دو جمع دو چار کے برابر ہوتے ہیں بھلا اس میں کون ذی عقل شک و شبہ کا شکار ہو سکتا ہے!
چونکہ ماضی کے فلسفے ایک ہی حقیقت کے بارے میں اتنے متضاد و متناقض نظریات دیتے آئے ہیں کہ لوگ خود اس علم کو ہی بیکار سمجھنے پر مجبور ہو گئے تھے، اب ڈیکارٹ کے نزدیک اس تضاد اور فکری انتشار کی وجہ ایک ایسے مضبوط اور قابل اعتماد طریقہ کار یا ذریعہ علم کا فقدان تھا جو یقینی فلسفیانہ تحقیق کے لیے استعمال کیا جا سکے، لہذا ڈیکارٹ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ ایک حتمی اور یقینی طریق کار کے بغیر حقیقت کا علم نہیں ہو سکتا۔
ڈیکارٹ کو ریاضی کے گہرے مطالعے کے بعد اس بات یقین ہو گیا تھا کہ ریاضی ہی واحد علم جس میں حتمی اور یقینی تصدیقات پائے جاتے ہیں۔ لہذا اگر ہمیں فلسفہ میں بھی حتمی اور یقینی علم مطلوب ہے تو ہمیں وہی طرز استدلال اپنانا ہوگا جو ریاضی کا خاصہ ہے۔ ریاضی دانوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ اولیات یعنی بدیہیات (جنہیں ہر سننے اور سمجھنے والا شخص بلا چوں وچرا درست تسلیم کرتا ہے) سے اغاز کرتے ہیں، اس کے بعد ان اولیات سے کچھ نتائج اخذ کیے جاتے ہیں جو کہ منطقی لزوم کے طور پر مستنبط ہوتے ہیں۔ اسی منطقی لزوم کی بنیاد پر مستنبط تصدیقات بھی اتنے ہی درست اور یقینی ہوتے ہیں جتنا کہ خود بدیہیات، (بشرط کہ استدلال میں کوئی غلطی نہیں کی جائے)
ڈیکارٹ کے خیال میں یہی طریقہ کار فلسفیوں کو بھی اپنانا چاہیے انہیں بھی ریاضی دانوں کی طرح بدیہی اولیات سے اغاز کر کے بتدریج پیچیدہ اور غیر معلوم حقائق کے علم کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اس طریقے سے ہمیں حقیقت کے بارے میں متناقض و متضاد نظریات سے نجات مل سکتی ہے۔
ڈیکارٹ کا خیال تھا کہ ہم اپنی حسی اطلاعات پر بھی مکمل یقین نہیں رکھ سکتے کیونکہ ہمارے حواس ہمیں اکثر دھوکہ دیتے ہیں۔
ہمارے حواس ہمیں دور کی اشیا کو چھوٹا دکھاتی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس نے یہ تک سوچا کہ ہو سکتا ہے جن چیزوں کو ہم حقیقی جان رہے ہیں وہ ہمارا خواب ہوں کیونکہ ہم خواب اور حقیقت میں تمیز نہیں کر سکتے۔
یہ بعینہٖ وہی خیال ہے جس کا ذکر امام غزالی نے المنقذ من الضلال میں کیا ہے، امام صاحب نے بھی اپنے تشکیک کے سفر کا سرگزشت لکھتے ہوے یہی بات کی ہے کہ صحیح علم کے ذرائع کے بارے میں جب میں نے غور و خوض کیا تو مجھ پر واضح ہوا کہ حواس قابلِ اعتماد نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ انسان دھوکے کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔
حواس پر اعتماد کھو جانے کے بعد امام صاحب نے عقل کا سہارا لیا اور عقل کو ایک یقینی ذریعہ علم کے طور پر قبول کرلیا تھا، لیکن امام صاحب لکھتے ہیں کہ جب میں نے غور و خوض کیا تب مجھ سے حواس نے کہا کہ تجھے کس طرح تسلی ہے کہ عقل پر تیرا اعتماد کرنا ویسا ہی نہیں ہے جیسا محسوسات پر اعتماد تھا، اور پھر حاکم عقل آیا اس نے حکم لگایا اور محسوسات کی تکذیب کی، اب ممکن ہے کہ عقل کے علاوہ بھی ایک ایسا حاکم ہو کہ جب وہ ائے تو وہ عقل کی بھی ویسے ہی تکذیب کرے جیسا کہ عقل نے محسوسات کی تکذیب کی۔
ڈیکارٹ ایک یقینی ذریعہ علم کیلئے تشکیک کو نقطہ آغاز کے طور پر پیش کرتا ہے، ان کا خیال تھا کہ ہر وہ شئی، جس پر کسی بھی طرح کا شک کیا جا سکے حتمی طور پر سچ نہیں ہو سکتی۔ یہاں تک کہ ریاضیاتی اصول کو بھی ڈیکارٹ شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈیکارٹ تشکیک پسند نہیں بلکہ یہ تشکیک وہ اپنے طریقہ کار کو وضح کرنے کے لیے ابتدائی مرحلے کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ ڈیکارٹ کا یہ شک ایک ایسا حربہ ہے جس کی زد سے کوئی شے نہیں بچ سکتی۔ اس نے تمام موجودات کی حقیقت پر شک کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ریاضیاتی اصول بھی شک سے محفوظ نہیں ہو سکے تو کیا کوئی ایسی شئی بچی بھی ہے کہ جس پر شک نہ کیا جا سکے؟
ڈیکارٹ کہتا ہے جی ہاں، اس شک والے حربے کی تباہ کاری سے صرف ایک چیز محفوظ رہتی ہے جسے ڈکار چاہے بھی تو تباہ نہیں کر سکتا۔ اور وہ ہے خود اس شک کی حقیقت یعنی یہ امر کہ میں شک کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ شک و شبہ کی زد میں نہیں آ سکتا۔ اور شک کرنا دراصل سوچنے کا عمل ہے اس لیے یہ شک کسی سوچنے والے ذہن کو مستلزم ہے، اور ڈکارٹ اس نتیجے تک جا پہنچتا ہے کہ
“میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں”
چنانچہ اپنے وجود کا یقین ایک ایسا یقین ہے کہ جس پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا۔ ڈیکارٹ اپنے فکر کو تشکیک کے میدان سے گزار کر بالاخر اپنی ہستی کے علم پر لا کر اس طرح کھڑا کرتا ہے کہ خود اپنے ذہن یعنی اپنی ہستی پر کسی قسم کے شک کو اثر انداز نہیں ہونے دیتا۔
یہاں اس بات کا دھیان رہے کہ ڈیکارٹ اپنی ہستی کے یقین کو کسی تجربی یا استخراجی حقیقت کے طور پر نہیں پیش کرتا بلکہ ان کے نزدیک “میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں” ایک ایسا بدیہی تصدیق ہے جو کسی ثبوت کا محتاج نہیں ہے۔
ڈیکارٹ اسی امتیازی اور بدیہی اصول کو بعد میں اپنے پورے فلسفے پر لاگو کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ وہ تصورات جو اسی طرح واضح اور امتیازی ہوں، وہ بھی بدیہی ہوں گے اور علم کی پوری عمارت انہی پر استوار ہوگی اگرچہ ایسے تصورات چند ایک ہی ہیں تاہم ان کو حقیقت کی اساس تسلیم کرتے ہوئے ہم ان میں سے متعدد نتائج کا استنباط کر سکتے ہیں۔
ان بدیہی اصولوں کی بنیاد پر ڈیکارٹ نے تمام علم کی عمارت کو ترتیب دینے کا سوچا، لیکن مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ان بدیہی اصولوں کا یقینی ہونا بھی اس وقت تک مسلم نہیں ہو سکتا جب تک کہ کسی ایسی ما فوق الفطرت ہستی کے وجود کا امکان ہے جو ہمیں فریب دے سکتی ہوں، یعنی ڈیکارٹ کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ کوئی عیار شیطان ہوں جو ہمیں ریاضی کے اصولوں کی درستگی دکھا کر یا بدیہی اصولوں کی بداہت دکھا کر دھوکہ دے رہا ہو۔
امام غزالی کے کتابوں کے قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ ڈیکارٹ اب اس مقام پر پہنچے جہاں پر غزالی نے حواس کے بعد عقل پر بھی اعتماد کھو دیا تھا، اس مقام پر پہنچ کر امام غزالی نے اخر کار تصوف میں پناہ لے لی تھی۔
لیکن ڈیکارٹ یہاں پر ایک عجیب قسم کا فلسفیانہ کرتب دکھا کر عقل پر اپنے اعتماد کو بحال کرتا ہے، چنانچہ ڈیکارٹ اس مقام پر پہنچ کر کہتا ہے کہ ایک ایسے خدا کا تصور جو فریب دہی سے منزہ ہو فقط اپنے وجود کے یقینی علم کیلئے ہی نہیں بلکہ دیگر بدیہی تصورات کے یقینی علم کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس مرحلے پر ڈیکارٹ خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈیکارٹ نے وجود ِ خدا کے لئے چند دلائل دئیے ہیں، جن میں سے ہم اس ایک دلیل کا ذکر کریں گے جسے ڈیکارٹ کے ماہرین اہم سمجھتے ہیں۔ وہ دلیل یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں ریاضیاتی قضایا کی طرح ایک بدیہی تصور یہ بھی ہے کہ ہر شے کی کوئی علت ہوتی ہے یا یہ کہ عدم سے کوئی شے وجود میں نہیں اتی اب چونکہ میرے ذہن میں ایک ایسے کامل اور اکمل خدا کا وہبی تصور ہے جو ہر قسم کی عیب سے پاک و منزہ ہے، اور کامل و اکمل خدا کا یہ تصور میں نے کسی تجربہ یا استنباط سے اخذ نہیں کیا ہے، کیونکہ امتیازی اور واضح ہونے کی بنا پر یہ تصور بدیہی ہے اس لیے خارج میں اس تصور کی کوئی علت ہونا چاہیے، چونکہ میں ذاتی طور پر متناہی وفانی ہستی ہوں اس لیے میں خود اس وہبی تصور کو پیدا کرنے والا نہیں ہو سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ معلول اپنی علت سے وسیع تر اور بڑا نہیں ہو سکتا، ایک فانی و متناہی ہستی ہوتے ہوئے میں ایک لامتناہی اور غیر فانی ہستی کا تصور وضع نہیں کر سکتا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک لامتناہی غیر فانی اور کامل و اکمل ہستی کو حقیقت واقعی میں موجود ہونا چاہیے ورنہ میں اس کا تصور کبھی قائم نہ کر سکتا۔ مختصراً یہ کہ اس کے نزدیک خدا ایک کامل لا محدود ذات ہے جو سرتاپا خیر ہے۔ اور چونکہ دھوکہ دینا ایک نقص ہے اور خدا ہر نقص سے پاک ہے تو خدا دھوکہ نہیں دے سکتا۔ لہذا ہمارے بدیہی تصورات میں اور خارجی دنیا کے محسوسات کو ہمارے ذہن تک پہنچانے کے عمل میں وہ دغا اور فریب سے کام نہیں لیتا چنانچہ ان بدیہی تصورات کی سچائی یقینی ہے اور ان سے جن نتائج کا استنباط ہم کرتے ہیں وہ بھی صحیح ہے۔
اس طرح سے ڈیکارٹ عقل کو علم کا ایک یقینی ذریعہ ثابت کر دیتا ہے، تاہم وہ اس امر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیتا کہ ہم خارجی اشیاء کے ادراک میں دھوکہ کھا سکتے ہیں، لہذا اگر ہم بعض جگہ اپنے حواس کے محدود ہونے کی وجہ سے التباس کا شکار ہو سکتے ہیں تو خدا نے ہمیں نقد و اصلاح کی ایسی قوت بھی عطا کر رکھی ہے جسے بروئے کار لا کر ہم اپنی فکر کو صحیح راستے پر گامزن رکھ سکتے ہیں اس قوت کو وہ عقل کی فطری روشنی کا نام دیتا ہے ان کا کہنا ہے کہ عقل کے اس فطری روشنی کے استعمال سے ہم طبعی دنیا کا علم حاصل کرتے ہیں۔
غزالی کے قارئین یہاں پر بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ ٹھیک وہی بات ہے جو امام غزالی نے اپنے رسالہ مشکوۃ الانوار میں وضاحت سے پیش کی ہے۔
ڈیکارٹ کے فلسفے کا ایک اہم مسئلہ ذہن اور مادے کی ثنویت (دوئی) ہے، وہ ذہن کی ماہیت کو فکر کا نام دیتا ہے اور مادے کی حقیقت اور ماہیت کو امتداد کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔ ڈیکارٹ جسم اور ذہن کی یہ بنیادی تفریق اس لیے قائم کرتا ہے تاکہ مادی کائنات کی توجیہ وہ تشریح فطری علوم کے خالصتا میکانی اصولوں پر کر سکیں۔
ذہن اور مادہ کی ثنویت سے ڈیکارٹ کے فلسفے میں ایک نیا اور پیچیدہ بحث پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے ذہن اور جسم کا تعامل، ذہن اور جسم کے تعامل کے بارے میں ڈیکارٹ نے جو نظریہ پیش کیا ہے میڈیکل سائنس کے ماہرین کے مطابق جدید سائنس نے اس نظریے کو رد کر دیا ہے۔
۔
ڈیکارٹ کے فلسفے کے تفصیلی مطالعے سے ایک خیال جو بار بار میرے ذہن میں آتا رہا وہ یہ تھا کہ شاید ڈیکارٹ نے امام غزالی کے کتابوں کا گہرا مطالعہ کر کے یہ فلسفہ ترتیب دیا ہے۔
کمنت کیجے