ہمارے ہاں تمام بحث اس سوال پر ہورہی ہے کہ کیا شریعت قبل از بلوغت نکاح کی اجازت دیتی ہے؟ چونکہ روایتی طور پر فقہاے کرام کا موقف اس سوال کے جواب میں اثبات کا ہی رہا ہے ، اس لیے اس پہلو سے اس قانون پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ اسی سیاق میں شادی کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر بھی بات کی جارہی ہے۔ جو لوگ قبل از بلوغت نکاح کے خلاف ہیں وہ ان روایات پر تنقید ، یا ان سے انکار، کی روش اختیار کررہے ہیں جن کی رو سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نکاح کے وقت چھے سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔
اس موضوع پر برصغیر میں پچھلے سو سال سے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اب ان پرانی باتوں کی تکرار کے سوا کوئی نئی بات نہیں کہی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے عمدہ بحث سید سلیمان ندوی کی “سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا “میں ملتی ہے جہاں انھوں نے ان روایات کی تحقیقی چھان پھٹک کی ہے اور ان پر اٹھنے والے تمام اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جہاں تک فقہاے کرام کا تعلق ہے، ان کےلیے مسئلہ صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا ہی نہیں تھاکیونکہ کئی دیگر صحابہ کی مثالیں بھی موجود ہیں جنھوں نے بچوں یا بچیوں کا نکاح قبل از بلوغت کروایا۔ اس لیے وہ قرآن کریم کی آیت : حتی اذا بلغوا النکاح (جب وہ یتیم بچے نکاح کی عمر تک پہنچ جائیں ) میں نکاح سے لغوی معنی ، یعنی وطی، مراد لیتے ہیں۔
فقہاے کرام کے سامنے قانونی سوال یہ تھا کہ کیا وہ شخص جسے بچے یا بچی کی بلوغت تک اس کےلیے مختلف تصرفات کرنے کا اختیار شریعت نے دیا ہے، جسے اصطلاحاً ولی کہا جاتا ہے، اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ بچے یا بچی کےلیے نکاح بھی کراسکے؟ اگر ہاں، تو کیا بلوغت کے بعد اس بچے یا بچی کو یہ حق ہوگا کہ وہ اگر چاہیں تو اس نکاح کی قید سے آزاد ہوجائیں؟ بچے کا معاملہ تو آسان ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ طلاق دے کر جان چھڑا سکتا ہے لیکن بچی کےلیے اختیار کی بات اہم ہے۔ یہاں سے “خیار البلوغ” کی بحث شروع ہوتی ہے۔
قرآن و سنت کی نصوص میں مذکور احکام اور ان احکام کے پیچھے کارفرما قواعد پر غور کے بعد فقہاے کرام نے نابالغ کے تصرفات کی تین قسمیں ذکر کی ہیں:
وہ تصرفات جن میں اسے مادی فائدہ ہی ہو اور نقصان نہ ہو (جیسے کسی کا ہبہ قبول کرنا)؛
وہ تصرفات جن میں اسے مادی نقصان ہی ہو اور فائدہ نہ ہو (جیسے کسی کو کچھ ہبہ کرنا)؛ اور
وہ تصرفات جن میں مادی فائدے اور نقصان دونوں کا احتمال ہو (جیسے خرید و فروخت)۔
جس بچے یا بچی کی عمر سات سال سے زیادہ ہو اسے ان میں پہلی قسم کے تصرفات کا اختیار حاصل ہے اور اس کےلیے اسے ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی؛ دوسری قسم کے تصرفات کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے ؛ تیسری قسم کے تصرفات وہ صرف ولی کی اجازت سے ہی کرسکتا ہے۔ گویا اس تیسری قسم میں اصل اختیار ولی کو حاصل ہے۔ البتہ اس پر لازم ہے کہ وہ ان تصرفات کے وقت بچے/بچی کے مفاد اور مصلحت کا خیال رکھے۔
کیا ولی پہلی دو قسموں کے تصرفات بچے یا بچی کی جانب سے کرسکتا ہے؟ جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے ، اس میں چونکہ بچے یا بچی کو کوئی نقصان نہیں ہے، اس لیے جیسے وہ خود ان تصرفات کےلیے اختیار رکھتا/رکھتی ہے ایسے ہی اس کا ولی بھی یہ اختیار رکھتا ہے۔ البتہ دوسری قسم کے تصرفات کا اختیار نہ بچے/بچی کو حاصل ہے نہ ہی اس کے ولی کو۔ فقہاے کرام نے تصریح کی ہے کہ بچے کا ولی اس بچے کے مال سے کسی کو صدقہ بھی نہیں کرسکتا اور قرض بھی نہیں دے سکتا۔
اب جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو اس تقسیم کی رو سے وہ تیسری قسم کا تصرف ہے کیونکہ اس میں بچے / بچی کو حقوق بھی ملتے ہیں اور اس پر فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ اس لیے اس پر تیسری قسم کے تصرفات کا حکم ہی لاگو ہوتا ہے؛ یعنی بچہ یا بچی اپنا نکاح نہیں کرسکتا /کرسکتی جب تک ولی اجازت نہ دے؛ اور ولی بچے یا بچی کی مصلحت کا خیال رکھتے ہوئے اس کا نکاح بھی کراسکتا ہے۔
چونکہ ایسی کئی مثالیں صحابۂ کرام کی زندگی میں موجود تھیں جب انھوں کسی مصلحت کی بنا پر بچے یا بچی کا قبل از بلوغت نکاح کرایا ، اس لیے فقہاے کرام کو اس کے جواز کے سلسلے میں کوئی اشتباہ نہیں تھا۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا بلوغت کے بعد بچی کے پاس اس نکاح کے عقد کے خاتمے کا اختیار ہوگا؟ تو چونکہ خاتون کی جانب سے یک طرفہ طور پر نکاح سے نکلنے کا اختیار شریعت نے استثنائی حالات میں ہی دیا ہے ، اس لیے فقہاے کرام نے اس اختیار کی بہت زیادہ محدود تعبیر پیش کی ہے ۔ اس انتہائی محدود اور مقید حق کے پیچھے مفروضہ یہ تھا کہ ولی بچی کے حقوق اور مصلحت کا خیال رکھتا ہے ۔ یہ مفروضہ ، ظاہر ہے کہ، مطلق نہیں ہے۔ اس لیے جہاں بھی یہ معلوم ہو کہ ولی نے بچی کی مصلحت کا خیال نہیں رکھا بلکہ اس کا نکاح اپنے مفاد کی خاطر کرایا ہے ، وہاں فقہاے کرام نے قاضی کےلیے یہ اختیار مانا ہے کہ وہ بچی کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس نکاح کو ختم کرسکتا ہے۔
یہاں پھر وہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے جو میں کئی مواقع پر کہتا آیا ہوں کہ اسلامی قانونی نظام میں بچیوں، بیواؤں، یتیموں اور دیگر کمزور لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری قاضی پر عائد ہوتی تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستانی قانونی نظام میں ، جو ہم نے برطانیہ کی غلامی کے اثرات میں ورثے میں حاصل کیا ہے، جج کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں ، جبکہ عدالت اس بچی کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتی اور اولیاء کی جانب سے بچی کی مصلحت کے بجاے اپنے مفادات کو دیکھنے کا رجحان معاشرے میں واضح طور پر نظر آتا ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے، اور کیا طریقہ ہوسکتا ہے جس کے ذریعے اس بچی کو تمام عمر کی اذیت سے محفوظ رکھا جاسکے؟
ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ قانون میں تصریح کی جائے کہ بلوغت سے قبل نکاح کی اجازت اس شرط سے مشروط ہے کہ وہ بچی کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے کرایا جائے؛ نیز اس بچی کو لازماً خیار البلوغ کا حق دیا جائے اور اسے اس اختیار کے استعمال کی ہر ممکن سہولت بھی فراہم کی جائے؛ یا اس نکاح میں اسے طلاق کا حق تفویض کیا جائے خواہ اس حق کو کسی بڑے کے مشورے کے ساتھ مشروط کیا جائے ۔
لیکن کیا اس سے زیادہ مناسب طریقہ یہ نہیں ہوگا کہ سرے سے قبل از بلوغت نکاح پر ہی پابندی عائد کی جائے تاکہ اولیاء کی جانب سے بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا راستہ ہی روکا جائے؟ کیا مسلمانوں کا حکمران ، جسے سب پر ولایتِ عامہ حاصل ہے، ایسی بچیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی مصلحت کی خاطر ان کے اولیاء کے تصرف کو محدود یا مقید نہیں کرسکتا؟ کیا ایسا کرنے سے اسے شریعت کا جائزہ کردہ کام ناجائز کردینے کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا؟
اس موڑ پر آکر اس مسئلے کا وہ پہلو سامنے آجاتا ہے جسے موجودہ بحث میں بالعموم نظرانداز کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حکمران کے پاس مباح امور کو منضبط کرنے کےلیے قانون بنانے کا اختیار موجود ہے اور معاشرے کے احوال اور ظروف کی رعایت کرتے ہوئے معاشرے کے کمزور لوگوں کے مصالح کا خصوصی تحفظ کرنے کےلیے ان امور پر جو شرعاً جائز ہیں مناسب قیود عائد کرسکتا ہے ، بلکہ ان پر وقتی پابندی بھی عائد کرسکتا ہے۔ فقہاے کرام کے ہاں یہ بحث مصالح مرسلہ کے باب میں تفصیل سے ملتی ہے۔ اس تفصیل میں جائے بغیر میں صرف ایک بنیادی قاعدے کے حوالے پر اکتفا کروں گا جو امام سرخسی نے نکاح کے احکام کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔
امام محمد نے کتاب النکاح میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایک فرمان کو بطور نظیر پیش کیا ہے جس کی رو سے آپ نے قرار دیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی کسی غیر کفو سے نکاح کرے گی تو میں اسے روکوں گا۔ اس فرمان کے پیچھے کارفرما اصولی قاعدے کی وضاحت کرتے ہوئے امام سرخسی نے فرمایا ہے کہ سماج اور معاشرے کی مصلحت کا خیال رکھنا حکمران کے فرائض میں شامل ہے اور اس وجہ سے اسے نکاح کے امور منضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ انھوں نے اس موقع پر اسلامی قانون کا بنیادی قاعدہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
ان للامام یداً فی الانکحۃ۔
(حکمران کو نکاح کے امور میں اختیار حاصل ہے۔)
چنانچہ میرے نزدیک معاشرے کی موجودہ اخلاقی صورت حال اور اولیاء کی جانب سے بچیوں کے حقوق کے متعلق غفلت کے رویے کو مد نظر رکھ کر اگر قانون میں بلوغت سے قبل نکاح پر پابندی عائد کی جائے تو حکومت کو شرعاً اس کا اختیار حاصل ہے۔ یہ حلال کو حرام کرنا نہیں بلکہ حلال کے سوء استعمال کو روکنے کےلیے اسے منضبط کرنا ہے۔
یہاں بعض لوگوں نے اس طرح کا استدلال بھی کیا ہے کہ نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنایا جارہا ہے۔ میرے نزدیک یہ استدلال غلط مفروضے پر مبنی ہے۔ قبل از بلوغت نکاح کی وجہ سے بچیوں کو پیدا ہونے والے مسائل کی روک تھام کےلیے کوشش الگ معاملہ ہے۔ زنا کی روک تھام ایک مستقل الگ مسئلہ ہے۔ معاشرے میں زنا اور بے حیائی کی روک تھام کےلیے کوشش حکومت کے فرائض میں شامل ہے لیکن بچیوں کے حقوق کا تحفظ بھی اس کا فریضہ ہے۔
“نکاح آسان” قسم کی تحریکوں پر بھی اس پہلو سے غور کی ضرورت ہے کہ نکاح صرف شہوانی خواہشات کے جائز طریقے سے حصول کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے خاندان کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں اس پہلو پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو بے حیائی سے بچانے کےلیے ان کی شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، وہیں اس پہلو پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو نکاح سے قبل ایسی تربیت فراہم کی جائے کہ وہ نکاح کے بعد کی ذمہ داریاں اٹھانے کے اہل ہوسکیں۔
جو لوگ یہ بتاتے ہیں کہ عہد رسالت یا عہد صحابہ میں صرف اسے دیکھا جاتا تھا کہ آدمی مہر ادا کرسکتا ہے یا نہیں، وہ ایک تو ادھوری بات کرتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف مہر کی ادائیگی کا نہیں بلکہ ازدواجی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت کا ذکر کیا اور فرمایا ہے کہ جو یہ استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عہد رسالت اور عہد صحابہ میں نوجوان ایسے نہیں تھے کہ پچیس سال کی عمر تک وہ پڑھنے پڑھانے کے سوا کچھ نہ کرسکتے ہوں اور ہنر نام کی کوئی چیز ان کے پلے نہ ہو۔ اس لیے ایک ہمہ گیر تبدیلی کی ضرورت ہے ورنہ اس طرح کی کوششوں کے نتیجے میں یہ خدشہ بھی ہے کہ خاندان بکھر جائیں گے ۔ صرف اس ایک پہلو سے دیکھیے کہ اگر اس نوجوان اور اس کی بیوی کی اس وجہ سے نہ نبھ سکے کہ یہ اس کی ذمہ داریاں نہیں اٹھاسکتا اور نتیجے میں طلاق ہو، تو اس بچی کا کیا ہوگا؟ آپ کے معاشرے میں طلاق یافتہ عورتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ اس لیے معاشرے کی عمومی اخلاقی تربیت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔
بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شریعت نے بچی کے ولی کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بچی کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے بلوغت سے قبل اس کا نکاح کراسکتا ہے لیکن ساتھ ہی شریعت نے حکمران پر اس بچی کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی عائد کی ہے۔ اس لیے جہاں حکمران کو مناسب معلوم ہو کہ ولی کے اس اختیار کو محدود یا وقتی طور پر معطل کیا جائے تو وہ سیاسہ شرعیہ کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مناسب قانون سازی کرسکتا ہے۔ و اللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واضح رہے کہ یہ ساری بحث بلوغت سے قبل نکاح کے عقد کے متعلق تھی۔ جہاں تک بلوغت کے بعد نکاح کے عقد کا تعلق ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی واضح احادیث کی روشنی میں فقہاے کرام نے تصریح کی ہے کہ ولی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بچی کو اس کی مرضی کے بغیر نکاح پر مجبور کرسکے۔
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ۔
قبل از بلوغت نکاح پر پابندی کا قانون : ایک اصولی تجزیہ

کمنت کیجے