Home » نفیرِ عام اور اذنِ امام
فقہ وقانون

نفیرِ عام اور اذنِ امام

نفیر عام یا جہاد کے فرض عین ہونے میں اذن امام شرط نہیں تاہم منع امام اس فرضیت کے ادا کرنے میں شرعا مانع ورکاوٹ بہر کیف ہے اور اس سے گناہ ساقط ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب الجہاد کے طے شدہ امور میں سے ہے۔ ذیل میں ہم ان دونوں پہلووں پر نظر ڈالیں گے۔ اس کے جلو میں، یہ جاننے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ کیا حاکم وقت کا رکاوٹ حائل کرنا ہمیشہ شرعا ممنوع اور گناہ کا موجب ہے؟

اذن امام کا شرط نہ ہونا:

“اذن امام” سے مقصود حکم حاکم ہے کہ جیسے حدود کو جاری کرنے کے لیے حکم حاکم شرط ہے، اس طرح نفیر عام یا جہاد کے فرض عین ہونے میں یہ شرط نہیں۔ اسی طرح، فرض عین ہونے پر عورت کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا بھی شرط نہیں لیکن فرض کفایہ میں شوہر کی اجازت شرط ہے۔

یہاں اصل پہلو “ولایت” کا ہے کہ جب جہادی اقدام کسی پر فرض عین نہیں، تو جسے اس پر ولایت حاصل ہے اسے روکنے کا حق بھی ہے اور روکنے پر وہ شرعا اقدام نہیں کر سکتا۔ چنانچہ شوہر کو بیوی پر ولایت ہے اور اس کی فرمانبرداری بیوی پر فرض عین ہے۔ اس لیے، جب جہاد فرض عین نہیں بلکہ کفایہ ہو، تو اس پر فرض عین، یعنی شوہر کی طاعت، مقدم ہوا۔ یہی حال غلام کا ہے۔

اسی طرح، حاکم وقت کو مسلمانوں پر “ولایت عامہ” حاصل ہے اور جب جہاد فرض عین نہ ہو، تو حاکم وقت کی پابندی لگانے پر اس کے زیر ولایت مسلمان کے لیے روا نہیں کہ وہ از خود جہادی اقدام کریں۔

اسی بات کو ایک دوسرے زاویے سے یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فرض عین کو فرض کفایہ پر ترجیح حاصل ہے۔

منع امام کا مانع معتبر ہونا:

تاہم یہاں ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاد کے فرض عین ہونے پر وہ کیا موانع ہیں جن کی وجہ سے اسے ادا نہ کرنے پر ایک عام بندے کو گناہ نہیں ہوتا۔ ہم ایک سابقہ تحریر میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ فرض عین کو ادا کرنے میں بھی “استطاعت” شرط ہے اور استطاعت کو جو امور روکنے والے ہیں ان میں حاکم وقت کی طرف سے رکاوٹ بھی شامل ہے۔ اسی حوالے سے علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں کہ:

“يجب أن لا يأثم من عزم على الخروج وقعوده لعدم خروج الناس وتكاسلهم وقعود السلطان ومنعه.” (فتح القدير)

مفہوم: اس شخص کو بھی نہیں گناہگار ہونا چاہیے جو نکلنے کا عزم وارادہ رکھتا ہو تاہم لوگوں کے نہ نکلنے اور سستی کی وجہ سے نہ نکلے، نیز حاکم وقت کے اقدام نہ کرنے یا رکاوٹ کی وجہ سے نہ خروج کرے۔۱۲

اس سے یہ بات واضح ہے کہ جنگ جیسا عمل کبھی بھی ایک فرد واحد یا چند افراد کی جماعت نہیں سرانجام دے سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فرض عین ہونے کی صورت میں بھی فقہا کے ہاں، لوگوں کے نہ نکلنے، یا حاکم وقت کے نہ نکلنے بلکہ آگے بڑھ کر حاکم وقت کی رکاوٹ کی وجہ سے، استطاعت ٹوٹ جاتی ہے۔

پچھلی کچھ دھائیوں میں، جب جہاد کی فرضیت کی بحث ہوئی، تو اس وقت “اذن حاکم” کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ حساسیت پیدا ہو گئی اور بعض احباب کے ہاں یہ تاثر ملنے لگا کہ اس سے موجودہ دور میں جہاد جیسا فریضہ معطل ہو کر رہ جائے گا کہ عالم اسلام کے حکام میں غیرت دینی نامی مایہ ناپید ہے اور وہ امت کے تصور سے وہ نابلد ہیں۔ اور جو لوگ اس پر زور دیتے، انہیں “جہاد کے منکر” جیسے القاب سے نوازا جانے لگا۔ اس حوالے سے کتنی بات حقیقت کے قریب اور کتنی بات مبالغہ سے ہم کنار ہے، اس پر تفصیلی بات ہوتی رہی گے۔ تاہم ہمارے فقہی روایت نے اس حوالے سے جو تفاصیل بیان کی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اگر کسی مسلم ملک میں، ایک شہری، قانونی طور سے، غزہ کی طرف نہیں جا سکتا بلکہ اگر وہ ایسا کوئی اقدام کرے، تو نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں بلکہ موجودہ ریاستی بندوبست اس کے لیے مشکلات کھڑی دے، بلکہ اس کی جان بھی جا سکتی ہو، تو ایک عام شہری کے لیے یہ عذر معتبر ہے۔

منع سے حاکم وقت کا گناہ گار ہونا:

یہاں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیا حکومت اس پابندی کی وجہ سے گناہ گار ہی ہو گی؟ حکمرانوں کے حوالے سے عام مسلمان کی نفسیات کی وجہ سے یہ با آسانی کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہوں گے۔ لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ حاکم وقت کے منع، یعنی رکاوٹ، پر گناہ بھی اپنے اطلاق پر نہیں ہو سکتا، یہ قواعد کے خلاف ہے۔ اگر ایک علاقے کے حاکم کو معلوم ہو کہ اس کی عام رعایا میں موجودہ دور میں چور سے لڑنے کی صلاحیت نہیں چہ جائیکہ وہ جدید فوج کا مقابلہ کرے، تو اسے روکنا چاہیے اور یہ اس کی شرعی ذمے داری ہے کہ اسے ولایت عامہ حاصل ہے اور لوگوں کی مصلحت کی رعایت اس پر واجب ہے۔ جس امام پر یہ واجب ہے کہ بعض حدود وقیود کی رعایت کے ساتھ، مباح امر سے لوگوں کو روک دے جبکہ اس سے لوگوں کو دینی یا دنیاوی نقصان کا غالب امکان ہو، اس پر یہ واجب کیوں نہیں ہو گا کہ اگر اس کے اجتہاد میں کسی خاص موقع پر عام لوگوں میں لڑنے کی صلاحیت نہیں، تو انہیں آگے نہ جانے دے کہ اس طرح کے اقدام سے جہاد کے مقصد کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کی جمعیت مزید کمزور ہوتی ہے۔ اس لیے، فرض عین ہونے کے بعد بھی امام اپنی رعایا کو منع کر سکتا ہے۔

جو لوگ نفس وجوب اور وجوب ادا میں فرق کرتے ہیں جیسے احناف کی مشہور روایت جس کا سرا علامہ دبوسی سے ملتا ہے، ان کے ہاں بالکل واضح ہے کہ نفس وجوب کے باوجود ادا کرنے کی چونکہ شرط نہیں پائی گئی، اس لیے اس سے منع کیا جا سکتا ہے۔ باقی جو اس تفریق کو نہیں مانتے جیسے احناف ہی کی متکلمین کی روایت، ان کے مطابق یہاں نفس وجوب ہی نہیں پایا گیا۔

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں