مسافر پر قربانی نہیں ہے کیا یہ کسی نص سے ثابت ہے یا قیاسی ہے مہربانی ہوگی اگر اس کی وضاحت کردیں؟
اس کا جواب:
ا-قول یا فعل صحابہ اور
2- قیاس یا دلالت نص ہے۔
۱: احناف صحابہ کے عمل سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ مسافر پر قربانی کے وجوب کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر وعمر رضي الله تعالى عنهما کے حوالے سے جو منقول ہے کہ وہ قربانی نہیں کرتے تھے حنفی ائمہ کا بتانا ہے کہ وہ حالت سفر میں ہونے کی وجہ سے قربانی ترک کرتے تھے۔ اسی طرح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بھی نقل کرتے ہیں۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
قال: “وليس على الفقير والمسافر أضحية” لما بينا. وأبو بكر وعمر كانا لا يضحيان إذا كانا مسافرين، وعن علي: وليس على المسافر جمعة ولا أضحية.
اور قول صحابی احناف کے ہاں حجت ہے۔ اس لیے، اتنی بات کافی ہے۔
2: دوسری طرف، حنفی ائمہ کا کہنا ہے کہ مسافر کے لیے ہر سال قربانی کو واجب کرنے میں حرج ہے کہ قربانی کے جانور کی مخصوص شرائط ہیں جس میں عمر کا شامل ہونا اور کئی عیوب سے پاک ہونا ہے۔ دوسری طرف، مسافر کو اولا ہر جگہ جانور کا ملنا بہت دشوار، ثانیا مخصوص شرائط کا ملنا اور بھی دشوار، ثالثا مسافر کے پاس اتنے مال کا ہونا کہ وہ ایسا جانور حاصل کر سکے، مزید باعث دشواری ہے۔ رابعا قربانی کا تین ہی دنوں میں ہونا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے، یہ “واجب مضیق” ہے۔ خامسا کسی کو اس بات کا پابند بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ان دنوں میں سفر نہ کرے کہ شریعت کی طرف سے ایسی کوئی پابند نہیں۔ اس لیے، قربانی کے باب میں سفر کے حرج کو معتبر مانا گیا۔
علامہ کاسانی فرماتے ہیں:
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (5/ 63):
«ومنها الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه وفيه من الحرج ما لا يخفى أو احتاج إلى ترك السفر وفيه ضرر فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها فكان جميع الأوقات وقتا لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر لأنها تجب وجوبا موسعا كالزكاة، وهو الصحيح»
اب اگلا سوال اٹھتا ہے کہ کیا صحابہ نے یہ شرط اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر عائد کی جو امر تعبدی ہے یا قیاس کیا یا اسے دلالت نص کے تحت دیکھا؟
پہلی بات تو نہیں ہو سکتی کہ سفر کو عوارض اہلیہ میں شامل کیا گیا ہے اور قابل قیاس ہے۔ نیز حنفی ائمہ کے استدلال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مطابق صحابہ نے اس کا الحاق دوسری عبادات سے کیا۔ وہ یہ کہ عبادات، اور خاص طور سے مالی عبادات، میں شریعت نے جو مختلف جگہوں پر حرج کی رعایت کی ہے، صحابہ نے اسی اصول کو قربانی کے باب پر منطبق کیا ہے۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے واضح طور سے یہ بات منقول ہوتی کہ قربانی کے وجوب کے لیے اقامت شرط ہے، تو یہ اس کے ” نفس وجوب” کی، شرط اقامت سے بھی پہلے، بہت واضح دلیل ہوتی لیکن حنفی ائمہ نے استدلال میں ایسی کوئی دلیل نہیں پیش کی۔
اب ایک امکان یہ ہے کہ یہ الحاق اصطلاحی قیاس ہو، دوسرا یہ کہ یہ دلات نص کے قبیل سے ہو۔
علامہ بابرتی اور علامہ عینی کے پیش کردہ استدلال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسے دلالت نص یا تنقیح مناط کے تحت لاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسافر کو اگر بقیمت پانی لینا پڑے جس کی قیمت معمول سے بڑھ جائے تو اسے تیمم کی اجازت ہے، تو جب فرض امر، یعنی وضو، کے سقوط کے لیے ایسی معمولی مالی مشقت قابل لحاظ سے، تو قربانی بطریق اولی ہونی چاہیے۔ صاحب ہدایہ اور امام شافع صاحب اسے “في معنى الأصل” سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ (صاحب ہدایہ کے لیے مثلا كتاب الشفعة ملاحظہ ہو اور امام شافعی صاحب کے لیے ان کا مشہور رسالہ)
چنانچہ اگر ہم یہ اصول مان لیں کہ “حکم کی شرائط” میں قیاس نہیں ہوتا تو اسے دلالت نص یا تنقیح مناط کہنا ہو گیا، ورنہ اصطلاحی قیاس بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حکم صحابہ کے قول وفعل سے ثابت ہے اور جہاں تک صحابہ کا تعلق ہے، انہوں نے اس کا الحاق کیا ہے، بطور قیاس ہو یا بطور تنقیح مناط۔ اور راجح بطور تنقیح مناط ہونا ہے کہ عوارض اہلیہ کا باب ہے۔
کمنت کیجے