موجودہ علمیات کی بحثوں میں موضوعی / سبجیکٹو (subjective) اور معروضی / آبجیکٹو (objective) کی اصطلاحات برتی جاتی ہیں جیسے آبجیکٹو سائنس اور سبجیکٹو سائنس۔ لفظ سبجیکٹو مختلف طرح برتا جاتا ہے، عام طور اس سے مراد وہ علم لیا جاتا ہے جس کی سچائی کسی انسان کی رائے یا خواہش وغیرہ پر مبنی ہو اور اس کے برعکس آبجیکٹو سے مراد وہ علم لیا جاتا ہے جو انسانی آراء و خواہشات وغیرہ سے ماورا حقیقت ہو۔ اسی اصول پر سوشل سائنسز کو سبجیکٹو اور مادی علوم جیسے فزکس وغیرہ کو آبجیکٹو سائنسز کہہ دیا جاتا ہے۔
یہ تقسیم محل نظر ہے۔ علم کسی قضئے (proposition) کا نفس الامر (reality) کے مطابق ہونا ہے، اسے صدق (truth) بھی کہتے ہیں۔ صدق فاعل یا سبجیکٹ نہیں بلکہ قضئے یا سٹیٹمنٹ (statement) کی صفت ہے۔ پس سبجیکٹو علم یا سبجیکٹو ٹروتھ کوئی چیز نہیں، علم آبجیکٹو ہی ہوتا ہے اگرچہ وہ کسی سبجیکٹ کے بارے میں ہو۔ زید کو آم کھانا پسند ہیں، زید کو فلاں سے نفرت ہے، زید اونچائی سے زمین کی طرف گرتا ہے وغیرہ سب آبجیکٹو سٹیٹمنٹس ہیں۔ ہر وہ سٹیٹمٹ جو کسی آبجیکٹ کے مطابق ہو وہ آبجیکٹو ٹروتھ ہوتا ہے چاہے وہ آبجیکٹ کوئی غیر ذی حیات و ارادہ مادی شے ہو یا ذی حیات و ارادہ حیوان و انسان ہو۔ اسی طرح اخلاقی قضایا بھی آبجیکٹو سٹیٹمنٹس ہی ہوتی ہیں۔ مثلا زید جب کہتا ہے کہ “فلاں کو چوری نہیں کرنا چاہئے” تو یہ زید کی خاص طرح کی ترجیح کا بیان ہے کہ زید یہ خاص ترجیح رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ فلاں ایسا کام نہ کرے۔ اسی طرح عمومی قسم کے اخلاقی بیانات جیسے “بے گناہ کو قتل کرنا برا فعل ہے” بھی اس معنی میں آبجیکٹو ہیں کہ یہ ایک خاص فعل کی نفس الامر میں متحقق ایک خاص صفت کو بیان کرنے کا دعوی ہے۔ الغرض آبجیکٹولی ٹرو سبجیکٹو سائنسز (objectively true social sciences) ہونا بالکل قابل فہم ہے اور سوشل سائنسز بھی آبجیکٹو ہوتی ہیں۔ انسانی سطح پر سبجیکٹو ٹروتھ اصلا کوئی شے نہیں کیونکہ محض کسی کی رائے یا خیال سے کوئی شے سچ نہیں ہوتی، سبجیکٹو ٹروتھ مہمل بیانات کا نام ہے۔
اس ضمن میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ آبجیکٹو سٹیٹمنٹس یونیورسل ہوتی ہیں جبکہ سبجیکٹو سٹیٹمنٹس کسی خاص یا چند افراد سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس غلط فہمی میں “یونیورسل ہونے” اور “آبجیکٹو ہونے” کو خلط ملط کردیا جاتا ہے جبکہ یہ دو الگ سوالات کے جواب ہیں۔ مادی سائنسز کے ماہرین علم کے مابین بھی مختلف نزاعی نظریات موجود ہوتے ہیں، کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب قضایا سبجیٹکو ہیں؟ اسی طرح بعض اخلاقی قضایا بھی یونیورسل سمجھے جاتے ہیں (جیسے “سچ بولنا اچھی بات ہے”)۔ الغرض آبجیکٹو ٹروتھ کے لئے یہ شرط عائد کرنا تحکم ہے کہ جس پر سب لوگوں کا اتفاق ہو وہ آبجیکٹو ہے۔ کسی سٹیٹمنٹ کا کسی ایک شے یا ایک شخص کے مطابق ہونا بھی آبجیکٹو ہونا ہے۔
اسی طرح کسی علم میں زیادہ یا کم پری ڈکٹ ایبیلیٹی (predictability) بھی اسے زیادہ آبجیکٹو نہیں بناتی، یہ دو الگ امور کو خلط ملط کرنا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوشل سائنسز میں پری ڈکٹ ایبیلیٹی کم ہونے کی وجہ اس کا کم آبجیکٹو ہونا نہیں بلکہ مادی سائنسز کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہونا ہے کہ یہاں پری ڈکشن انسانی میلانات و ارادے وغیرہ سے متعلق امور سے بھی مشروط ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ بات معروضی طور پر سچ (objectively true) ہے کہ سوشل سائنسز میں پری ڈکشن زیادہ پیچیدہ ہے۔
سبجیکٹو اور آبجیکٹو کا درج بالا فرق اس تحکم ذدہ مفروضے پر مبنی بھی ہے کہ آبجیکٹو وہ ہے جس کی کسی حسی مشاہدے یا قابل پیمائش پیمانے سے تصدیق ہوسکے۔ اس غلط پیمانے کو بنیاد بنا کر دعوی کیا جاتا ہے کہ صرف سائنس وغیرہ آبجیکٹو بمعنی حقیقی علم ہے، اسکے سوا گویا سب کچھ کم تر و بے کار علم ہے جسے سبجیکٹو کہہ کر سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ یہ تقسیم بذات خود بامعنی نہیں۔ یہ تحکم زدہ دعوی خود اپنے پیمانے پر ہی آبجیکٹو نہیں۔
کمنت کیجے