Home » مدارس کے اساتذہ کو درپیش چیلنجز
مدارس اور تعلیم

مدارس کے اساتذہ کو درپیش چیلنجز

آئی آر ڈی کی ورکشاپ میں مذہبی طبقے کو درپیش عمومی چیلنج کے علاوہ خاص طور پر مدارس کے اساتذہ کو درپیش صورت حال کے کچھ اہم پہلووں پر بھی معروضات پیش کی گئیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

۱۔ تراث کے وسیع تر دائرے اور مسلکی ترجیحات کے مابین کشمکش

بااستعداد اساتذہ جو اپنے مطالعے کو کلاسیکی اور ہم عصر تراث تک وسیع کر لیتے ہیں، ان کے لیے مدارس کی تنگ اور محدود مسلکی ترجیحات کے دائرے میں ذہنی اطمینان سے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو حضرات اس کشمکش میں ذہنی کمپرومائز نہ کر سکیں، ان کو اس نظام سے باہر ہی اپنے لیے کوئی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔

۲۔ طلبہ کی استعداد کا مسئلہ

مسلکی شناختوں کے فروغ اور پھر وسائل کی جمع آوری کے محرکات نے طلبہ کی کثرت تعداد کو مدارس کے نظام کی بنیادی ترجیح دیا ہے اور اس عمل نے طلبہ کی استعداد اور معیار کو تسلسل کے ساتھ پست سے پست تر کر دیا ہے۔ یہ فاضل اور ذی استعداد اساتذہ کے لیے تدریسی ذمہ داری کی ادائیگی میں ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔

۳۔ تدریب المعلمین کے مناسب نظام کا فقدان

تعلیم وتدریس کے مناہج اور کلاس روم مینجمنٹ کے حوالے سے اساتذہ کی تربیت کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے طلبہ کی میسر استعداد سے کام لینے کے امکانات بھی بے حد متاثر ہوتے ہیں۔

۴۔تحقیق وتصنیف کے مواقع اور یکسوئی کی کمی

مطالعہ اور تحقیق وتصنیف کا ذوق رکھنے والے اساتذہ کو اس خاص دائرے میں اپنی صلاحیت اور محنت صرف کرنے کے لیے سہولیات فراہم کرنا، چند ایک بڑے مدارس کے استثناء کے ساتھ، مدارس کے عمومی نظام کی ترجیح نہیں اور ایسے حضرات کو ذاتی سطح پر ہی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ کاروباری ناشرین کا رویہ اور ترجیحات بھی ایسے حضرات کے لیے سازگار نہیں ہوتیں۔

۵۔ جدید ذہنی وفکری ماحول کے ساتھ عدم مناسبت

نئی نسل اور تعلیم یافتہ طبقات کے ساتھ تعامل اور ان میں دینی دعوت کی ذمہ داری موثر طور پر انجام دینے کے لیے اساتذہ کی مناسب تربیت کا انتظام بلکہ اس ضرورت کا احساس بھی مدارس کے نظام میں موجود نہیں، جبکہ تصوراتی طور پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کی توقع اساتذہ سے ہی وابستہ کی جاتی ہے۔

۶۔ ملازمت کے تحفظ اور معاشی وسائل کا مسئلہ

مدارس کے اساتذہ کے لیے صرف تدریس پر ترکیز کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی چلانا ناممکن ہے۔ انھیں لازماً‌ کوئی نہ کوئی دوسری سرگرمی (مثلاً‌ امامت وخطابت، وعظ وتقریر، تنظیمی سرگرمیاں، دم درود وغیرہ) بھی اختیار کرنی پڑتی ہیں، جس سے ان کی صلاحیت اور اوقات انتشار کا شکار رہتے ہیں۔

ان تمام چیلنجز کی جڑ کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ عرض کیا گیا کہ اس کا سبب مدرسے کے نظام میں واقع ہونے والا تاریخی تحول ہے جس کے بعد اس نظام کا بنیادی ہدف بلند استعداد کے حامل علماء تیار کرنا اور علمی ومادی ترجیحات کا تعین ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا نہیں رہا۔ اس نظام کے مقاصد واہداف بہت وسیع اور متنوع ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں اس پورے نظام میں سب سے کارآمد عنصر یعنی بااستعداد اور اعلیٰ علمی صلاحیت رکھنے والے فضلاء سرے سے اس نظام کی توجہ اور ترجیحات کا مرکز ہی نہیں رہے۔ مذکورہ تمام چیلنجز اسی صورت حال کے مختلف مظاہر ہیں اور صورت حال کے اس بنیادی بگاڑ کا ادراک کر کے ہی اس کی اصلاح کے لیے کوئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں